21ویں صدی کے شعبدے بھی کیا کہنے
‘ایک سے بڑھ کر ایک ہیں ۔ایک سے ایک رسم و رواج اور ’خصوصی ایام ‘جنھیں لوگ
بڑے زور وشور اور اہتمام سے مناتے ہیں اور ایک دوسرے کو ان کی مبارک باد
دیتے ہیں ۔انھیں کسی تہوار اور عید کی طرح مناتے ہیں حالانکہ ان کی کو ئی
اصل نہیں ہو تی بلکہ مغرب کی اندھی تقلید میں انھیں انجام دیا جاتاہے۔اس سے
بھی دو قدم آگے بڑھ کر ایک دوسرے کو ان کے کر نے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
ایسے ہی ایام اور رسوم میں ایک بے ہودہ رسم کا دن 14فروری بھی ہے ‘جس دن
بڑی ڈھٹائی سے دنیا بھر کے عاشق سب کے سامنے یوم عاشقاں مناتے ہیں اور ایک
دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے کرزندگی بھر ساتھ نبھانے کے وعدے کر تے ہیں ۔ایسے
وعدے جو دوچار دن بعد ہی ٹوٹ جاتے ہیں۔
پہلے پہلے یہ خاص لوگوں کا شیوہ اور چلن تھا مگر رفتہ رفتہ پورے معاشرے اور
سماج میں یہ برائی پھیل گئی اور بڑے تزک و احتشام سے ’’یوم عاشقاں ‘‘منایا
جانے لگابلکہ ا س کی ترغیب بھی دی جانے لگی اورالیکٹرونک میڈیا کے ذریعے اس
کی اس طرح تشہیر کی جیسے یہ زندگی کی کو ئی خاص ضرورت ہے جس کے بنا گزار
ممکن نہ ہواور پھر یہ وبا گلی گلی بلکہ گھر گھر پھیل گئی ۔آج یہ بے ہودہ
رسم پورے ایشیا میں بڑے تزک و احتشام سے منا ئی جاتی ہے ۔
اس دن ’عشق ‘کے نام پر وہ بے ہودگی انجام دی جاتی ہے جس کا تصور بھی نہیں
کیا جاسکتا ۔ناظرین کہتے ہیں کہ اگر ماں باپ اپنی اولادوں کو ایسی حالت میں
دیکھ لیں آنکھوں کو پھوڑ لیں مگر اصل بات تو یہ ہے اس دن ماں باپ بھی اپنی
اولاد کوآزاد خیالی کے نام پر ہر طر ح کی من مانی کی اجازت دے دیتے ہیں
‘اعتراض کر نے پر الٹا جواب ملتا ہے ! ’’ایک ہی دن کی تو بات ہے بھا ئی
دو دل مل رہے ہیں‘بچوں کا شوق ہے ملنے دو‘ پھر ہم سنبھال لیں گے۔‘‘اور
اعتراض کر نے والا اپنا سا منہ لے کر رہ جاتاہے۔
ایسا لگتا ہے جیسے مغرب نے ہماری مشرقی تہذیب پر پوری طرح قبضہ کر لیا
ہے۔مغرب کی تقلید میں ہی آج ہر کام کیا جا رہا ہے ‘کھانے پینے ‘زندگی بسر
کرنے اور سوچنے سمجھنے کے تمامتر انداز مغربی ہو گئے ہیں اور مشرق اپنی
تہذیب سمیت مر گیا۔آج ہر چیز مغربی اور انگریزی ہے۔اس پر افسوس نہیں بلکہ
فخر کیا جاتا ہے اور غلامی سے آزادی کا نام دیا جاتاہے۔
جاننا چا ہیے کہ عشق و محبت اس مقدس جذبے کا نام ہے جو پردہ چاہتا ہے ‘وہ
چپکے سے دو دلوں میں پیدا ہوتا ہے اور لوگ زندگی بھر کے لیے ایک دوسرے کا
ساتھی بن جاتے ہیں ۔ محبت وہ جذبہ ہے جس کی تشہیر نہیں کی جاتی بلکہ اسے
موتی کی طرح چھپا کر رکھا جاتا ہے ‘اس کا پتا محبوب کو ہی لگتا ہے یا اس کو
جس کے دل میں آگ لگی ہو ‘مگر آج صورت حال تبدیل ہو گئی ۔ آج عشق کا بر ملا
اور اعلی الاعلان اظہار کیا جاتا ہے بلکہ اس کے لیے ایک دن بھی متعین کر
دیا گیا جس دن بلا روک ٹوک کچھ بھی کیا جاسکتا ہے ۔ آج حقیقت یہ ہے کہ عشق
ٹائم پاسنگ اور شہو ت رسانی کے لیے کیا جاتا ہے۔اس کے تئیں تقدیس و تعظیم
کے جذبے نہیں ہوتے ۔یہی وجہ ہے کہ اس کے غلط نتا ئج سے دنیا والے آئے دن دو
چار ہوتے ہیں ۔بات بات پر عشق کر نے والوں میں بگاڑ ہوجاتا ہے اور نوبت
خودکشیوں کی ورداتوں تک پہنچ جاتی ہے۔ملک عزیز میں ہردن کو ئی نہ کو ئی
خودکشی کا واقعہ ضرور ہو تا ہے جس میں زیادہ تر عشق میں ناکامی خود کشی
کاسبب ہوتی ہے ۔یہی نہیں بلکہ سماج اور معاشرے میں ایسی ایسی برائیاں جنم
لیتی ہیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا‘عصمت دری کے واقعات‘خواتین کے
ساتھ چھیڑ چھاڑ کے معاملات ۔معصوموں کی عزت سے کھلواڑوغیرہ۔
واضح ہونا چا ہیے کہ عشق کو ئی ایسی ضرورت نہیں جس کے بنا انسان زندہ نہ رہ
سکے ۔عشق ایسی خوبی نہیں جو ہرحال میں ہو نی چا ہیے۔عشق کو ئی ایسا سودا
نہیں جس کے بنا آدمی کا گھر خالی ما نا جا ئے بلکہ سچا ئی یہ ہے کہ یہ اور
اِس جیسی خرافات مغرب کی دَین ہیں۔اس مغرب کی جس نے کبھی انسانیت کی تعمیر
کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ اس کا ہر منصوبہ اور پر و جیکٹ انسانیت کی تخریب
کے لیے ہوتا ہے۔آئے دن مغرب اور اس کے نمایندے ایسی ایسی واہیات ‘فحاشیاں
اور عریانت کے کام انجام دیتے ہیں جنھیں دیکھ کر سنجید ہ ذہن کے لوگوں کے
سر شرم سے جھک جاتے ہیں مگر مغرب پر ست لوگوں کے لیے وہ تو جیسے زندگی کا
پیغام ہوتی ہیں اوروہ اس کے عواقب و نتائج پر غور کیے بنا تقلید کر نے لگ
جاتے ہیں۔کچھ دن بعد ہی ان کی غلط روی اور اندھی چال عبرت ناک حالات سے
دوچار کر دیتی ہے مگر اس وقت کسی کے پاس سنبھلنے اور سدھرنے کا موقع نہیں
ہوتا۔
یوم عاشقاں یا ویلن ٹائن ڈے مغرب کی ایک ایسی ہی تخریب کاری ہے جسے ہماری
معصوم نسلوں کو تبا ہ کر نے لیے وجود میں لایا گیاہے۔کم عمری ہی میں نئی
نسل’’یوم عاشقاں ‘‘ کے چکر میں پڑکر اپنا قیمتی مستقبل بر باد کر لیتی ہے ۔اس
اندھی چال میں وہ اتنا آگے نکل جاتی ہے کہ پھر واپس ہی نہیں آتی۔نہ ماں باپ
کے بلانے پر نہ سماج و معاشرے کے بلانے پر بلکہ آج تو صورت حال یہ کہ ماں
باپ کے اعتراض کر نے یا روکنے ٹوکنے پر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے‘گویا
راہ سے روڑا ہٹا دیا جا تا ہے ۔ا یسے کتنے ہی واقعات رو زانہ اخباروں کی
زینت بنتے ہیں مگر آزاد خیالی کے نام پر انھیں دبا دیا جاتا ہے۔
احساس
آج حقیقت یہ ہے کہ عشق ٹائم پاسنگ اور شہو ت رسانی کے لیے کیا جاتا ہے۔اس
کے تئیں تقدیس و تعظیم کے جذبے نہیں ہوتے ۔یہی وجہ ہے کہ اس کے غلط نتا ئج
سے دنیا والے آئے دن دو چار ہوتے ہیں ۔بات بات پر عشق کر نے والوں میں بگاڑ
ہوجاتا ہے اور نوبت خودکشیوں کی ورداتوں تک پہنچ جاتی ہے۔ملک عزیز میں ہردن
کو ئی نہ کو ئی خودکشی کا واقعہ ضرور ہو تا ہے جس میں زیادہ تر عشق میں
ناکامی خود کشی کاسبب ہوتی ہے ۔یہی نہیں بلکہ سماج اور معاشرے میں ایسی
ایسی برائیاں جنم لیتی ہیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا‘عصمت دری کے
واقعات‘خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے معاملات ۔ معصوموں کی عزت سے
کھلواڑوغیرہ۔ |