سی این جی بحران حل کیلئے لانگ ٹرم پالیسی کی ضرورت

آج لوگوں کو سی این جی کے حصول کے لئے لوگوں کومیلوں لمبی لائن میں لگا ہوا دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ انیس سو ستانوئے میں جب حکومت سی این جی کے فروغ کے لئے عوام کو راغب کر رہی تھی اس وقت اس کے استعمال اور اس کی مقدار پر کوئی لانگ ٹرم پالیسی کیوں نہیں بنائی گئی کی آج تقریبا سولہ سال بعد ہی عوام کو اس وقت پالیسی نہ بنائے جانے کے انتہائی خطرناک نتائج کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے اگر اس وقت کی حکومت بھی آنے والے بحرانوں کو ذہن میں رکھتی تو آج یہ صورت حال نہ ہوتی لیکن ہمارے ہاں حکمران صرف اور صرف کمیشن کے چکر میں میں ہوتے ہیں وطن کی عزت اور ناموس کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ان کا بس چلے تو یہ اپنے منافع کی خاطر اس ملک کا سودا کرنے سے بھی گریز نہ کریں اب جبکہ سی این جی ایک عام آدمی کا ایندھن بن گیا ہے اچانک سے اس پر دسترس رکھنے والے مافیا کو یاد آیا کہ اس سے تو بہت سا مال کمایا جا سکتا ہے جیسا کہ اس سے پہلے آٹا ،چینی اور دیگر کئی ملکی مصنوعات کو مہنگا کرکے کمایا گیا تھا سو انھوں نے اس کو اتنا مہنگا کر دیا کہ عوام اس کو حاصل کرنے کے لئے ترسنے لگے سوال یہ ہے کہ اس وقت حکومت کہاں تھی جب ہر چیز کو سی این جی پر کنورٹ کیا جا رہا تھا حکومت کو نہیں پتا تھا کہ ہمارے گیس کے ذخائر محدود ہیں اور کل کو انھوں نے کم یا ختم بھی ہو جانا ہے لیکن یہاں ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر عمل کیا جاتا ہے کہ وقت گزارو آگے کی دیکھی جائے گی کچھ لوگوں کا خیال ہے حکومت میں بیٹھے ہوئے سرمایہ داروں نے ایل این جی اور ایل پی جی میں کمیشن کی خاطر یہ فیصلہ کیا ہے جبکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ گیس کہ یہ ذخائر کافی ہیں لیکن کچھ مخصوص عناصر اپنے مفادات کی خاطر عوام کو قرنامی کا بکرا بنا رہے ہیں اور اپنے کمیشن کی خاطر عوام کو ذلیل کرنے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں موجودہ حکومت نے مختلف شعبوں کو گیس کی فراہمی کے لیے اپنی نئی ترجیحاتی پالیسی کا اعلان کیا ہے جس میں اولین ترجیح گھریلو اور تجارتی صارفین کو جبکہ سب سے کم تر ترجیح گاڑیوں میں گیس کے استعمال کو دی گئی ہے جو کہ حیران کن ہے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے کے مطابق بجلی گھروں اور عام صنعت کو ترتیب وار دوسری اور تیسری ترجیح جبکہ سیمینٹ کو چوتھی اور سی این جی کو گیس کی فراہمی میں آخری ترجیح میں شامل کیا گیا ہے پاکستان میں گاڑیوں کو گیس فراہم کرنے والے سی این جی سٹیشنز کے مالکان کی تنظیم نے حکومتی فیصلے کو متعصب قرار دیتے ہوئے اْسے مسترد کیا ہے تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کریں گے کیونکہ یہ متعصبانہ فیصلہ ہے جو کہ کسی حد تک درست بھی ہے پاکستان کے نامور تجزیہ کار بھی حکومت کے اس فیصلے پر حیرانی ظاہر کی ہے کیونکہ کہ ہمیشہ سے پاکستان میں سیمینٹ کی صنعت کو آخری ترجیح قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس صنعت میں متبادل کے طور پر کوئلہ بھی استعمال ہوسکتا ہے لیکن اب کی بار شاید سیمنٹ ساز اداروں نے حکومت سے کوئی مک مکا کر لیا جو کہ سی این جی والے نہ کر سکے ہوں گے سی این جی سے جہاں شہریوں کو پٹرول اور ڈیزل کے مہنگے نرخوں کی نسبت سستا ایندھن فراہم ہوتا ہے وہاں ماحولیاتی آلودگی سے بچنے میں بھی مدد ملتی ہے انیس سو ستانوے میں جب گاڑیوں میں گیس استعمال کرنے کی پالیسی کو فروغ دیا گیا اس وقت کراچی ،لاہور اور راولپنڈی جیسے شہروں کی میں فضا آلودگی بہت زیادہ ریکارڈ کی گئی تھی جبکہ آج کراچی ،لاہور راولپنڈی میں فضائی آلودگی کی صورتحال بہتر ہے تو وہ سی این جی کی وجہ سے ہے اور اب کے فیصلے سے صورتحال خراب ہوگی اورماحول کی خرابی کا باعث بنے گی پاکستان میں پیٹرولیم امور سے متعلق وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر عاصم حسین کہتے رہے ہیں کہ گیس پیدا کرنے کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا ستائیسواں بڑا ملک ہے جبکہ گاڑیوں میں گیس استعمال کرنے کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک ہے ان کے بقول ’دنیا گیس پر صنعتیں چلاتی ہے اور ہم گاڑیوں میں گیس جلاتے ہیں لیکن پاکستان میں سی این جی ایسوسی ایشن کے سربراہ حکومت کے اس موقف کو مسترد کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سینتیس لاکھ گاڑیوں میں گیس کے استعمال کی وجہ سے ماحولیاتی خرابی پر قابو پایا گیا ہے ہم نے چار سو ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ہے حکومت اب اسے ڈبونا چاہتی ہے جو عوام سے ظلم ہے‘ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کا ’سی این جی سیکٹر کے خلاف متعصبانہ رویہ ہے اور اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس شعبے کو نو سو ساٹھ روپے جبکہ صنعتوں کو پانچ سو دس روپے میں گیس ملتی ہے پاکستان پیٹرولیم انسٹی ٹیوٹ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سنہ دو ہزار پچیس تک گیس کی قلت پچھہتر فیصد ہوسکتی ہے کیونکہ گیس کی پیداوار میں کمی ہوگی اِس وقت پاکستان میں گیس کی پیداوار تقریباً چار ارب کیوبک فٹ ہے جو سنہ دو ہزار پچیس میں ایک ارب کیوبک فٹ رہ جائے گی اور اگر حکومت نے گیس کی چوری روکنے اور گیس درآمد کرنے کا فوری انتظام کرنے کا انتظام نہیں کیا تو گیس کا بحران بد سے بدتر ہوتا جائے گاجو کہ مہنگائی کا ایک ایسا طوفان لانے کا پیش خیمہ ہو گا جس سے ملکی معیشت کا برا حال ہو سکتا ہے کیونکہ آج کل مال برداری کے لئے اور پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے گاڑیوں میں سی این جی استعمال کی جا رہی ہے اور اگر اب دوبارہ سے گاڑیوں کو پیٹرول یا ڈیزل پر کنورٹ کیا گیا تو اس سے ناصرف ٹرانسپورٹرز کو نقصان ہو گا بلکہ ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا سبب بھی بنے گا اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ پیٹریولیم کے شعبے کی افادیت کودیکھتے ہوئے اس کی بھاگ دوڑ کسی غیر جانبدار شخص کو دی جائے جو بہتر سے بہتر پالیسی بنائے اگر ایسا نہ ہو سکا تو کمیشن مافیا عوام کی جیبوں پر یوں ہی ڈاکہ ڈالتے رہیں گئے اور عوام ماضی کی طرح لتتے رہیں گئے اور اگر اس بحران پر قابو پانا ہے تو جب تک نئے زخائر یا ایران سے گیس درامد کرنے کامنصوبہ مکمل نہیں ہو جاتا نئے گیس کنکشن چاہے وہ گھریلو ہوں یا صنعتی پر پابندی ہونی چائے تاکہ جاری بحران کو اور زیادہ شدید ہونے سے بچایا جائے اور پاک ایران گیس منصوبے کو اور زیادہ تیز کیا جائے تاکہ اس بحران پر قابو پایا جا سکے ۔
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 227319 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More