آج ہر چہار جانب سے مسلمانوں کے
مسائل کا حل تعلیم میں بتایا جا رہا ہے ۔کوئی بھی دانشور یا سیاسی لیڈر
مسلمانوں کو صرف تعلیم حاصل کرنے کی تلقین کر رہے ہیں اور بانگ درا کہہ رہے
ہیں کہ اگر مسلمان تعلیم یافتہ ہو جائیں گے تو ان کے سارے مسائل ‘خود بخود
حل ہو جائیں گے ۔مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ جو لوگ مسلمانوں کے مرض کا علاج
جدید تعلیم اور تہذیب جدید ،نئی ٹکنالوجی اور اقتصادی حالات کی اصلاح اور
سیاسی حقوق کے حصول کو سمجھ رہے ہیں دراصل وہ غلطی پر ہیں اور اب بھی جو
ایسا سمجھ رہے ہیں وہ غلطی کر رہے ہیں ۔بخدا اگر مسلمانوں کا ہر فرد پی ایچ
ڈی ،وکیل،ڈاکٹر اور انجینئر ہو جائے ،دولت و شروت سے مالا مال ہو جائے ،مغربی
فیشن روشن خیال سے از سر تا بقدم آراستہ ہو جائے ،اور حکومت کے تمام عہدے
اور کونسلوں کی تمام نشستیں مسلمانوں ہی کو مل جائیں ،مگر ان کے دل میں
نفاق کا مرض ہو ،وہ فرض کو فرض نہ سمجھیں ،وہ نافرمانی ،سرکشی اور بے
ضابطگی کے خوگر رہیں ،روشن خیالی اور سیکولر بننے کیلئے اپنے بچیوں کی
شادیاں غیر مذہب میں کرنے لگے تو اس پستی اور ذلت و کمزوری میں اُس وقت بھی
مبتالا رہیں گے جس میں وہ آج مبتلا ہیں،تعلیم ،فیشن ،روشن خیالی ،دولت اور
حکومت کوئی چیز ان کواس گڑھے سے نہیں نکال سکتی جس میں وہ اپنی سیرت اور
اپنے اخلاق کی وجہ سے گر گئے ہیں ۔اگر ترقی کرنی ہے اور ایک طاقت ور باعزت
قوم بننا ہے تو سب سے پہلے مسلمانوں میں ایمان اور اطاعت امر کے اوصاف پیدا
کریں کیونکہ اس کے بغیر نہ ہمارے افراد میں بل پیدا ہو سکتا ہے اور نہ
ہماری قوم میں نظم پیدا ہو سکتا ہے اور نہ ہماری اجتماعی قوت اتنی زبردست
ہو سکتی ہے کہ ہم دنیا میں سر بلند ہو سکیں ۔ایک منتشر قوم جس کے افراد کی
اخلاقی اور معنوی حالت خراب ہو،جس کی زندگی میں دورنگی پائی جاتی ہو وہ
کبھی اس قابل نہیں ہو سکتی کہ دنیا کی منظم اور مضبوط قوموں کے مقابلہ میں
سر اٹھا سکیں ۔پھوس کا انبار خواہ کتنا ہی بڑا ہو ،کبھی قلعہ نہیں بن سکتا
،مٹی کے گروندھے چاہے جتنا بڑا ہو اس میں رہائش اختیار نہیں کی جا سکتی ،جمہوریت
کی مانند صرف سروں کو شمار کیا جا سکتا ہے تولا نہیں جا سکتا ہے ،لہذا
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم شمار نہیں کئے جائیں بلکہ تولے جائیں ۔ |