بت پرستی شاید ہمارے خمیر میں
شامل ہے۔ کوشش کے باوجود آج تک ہم اس خامی پر قابو نہیں پا سکے۔ ہندوؤں کے
ساتھ رہتے ہوئے اُن کی بہت سی عادتیں اور بہت سے رسم و رواج ہم نے بھی اپنا
لیے ہیں۔ پاکستان وجود میں نہ آتا تو شاید یہ عادتیں جن میں بہت حد تک کمی
گئی ہے شاید پہلے سے بھی سوا ہو جاتیں۔ تقسیم کے پہلے کے حالات پر نظر
ڈالیں تو بہت عجیب عجیب سی چیزیں نظر آتی ہیں۔ ایک چھوٹے سے قصبے میں ایک
صاحب رہتے تھے۔ شادی کی رسومات انجام دینا اُن کا پیشہ اور کام تھا۔ قصبے
کا ایک ہندو اُن کے پاس آیا کہ مہاراج شام کو بھائی کی شادی ہے۔ پھیرے
دلانے کا کام آپ کو کرنا ہے۔ وقت پر موصوف پنڈت کے حلئیے میں منڈپ پر موجود
تھے۔ پھیرے دلائے ۔ رسوم ادا کیں اور گھر لوٹ آئے۔ اگلی صبح ایک مسلمان
تشریف لے آئے۔ مولوی صاحب بیٹے کا نکاح ہے۔ آپ نے پڑھوانا ہے۔ دوپہر کو
اچکن پہنے مولوی کے حلئیے میں وہاں موجود تھے۔ نکاح پڑھوایا ، دعا کی اور
واپس چلے آئے۔ ہندو تھے کہ مسلمان کچھ پتہ نہیں۔ مگر تمام ویدوں اورا
پشندوں کا علم تھا۔ قرآن کی تمام دعائیں یاد تھیں۔ ہندوﺅں اور مسلمانوں کی
تمام رسوم سے واقف تھے۔ تقسیم سے پہلے پورے برصغیر کے بہت سے چھوٹے چھوٹے
قصبوں میں ایسے لوگ موجود تھے جو ضرورت کے مطابق ہندو یا مسلمان کا روپ
دھار لیتے تھے مگر کوئی نہیں جانتا کہ اُن کا اپنا مذہب یا مسلک کیا تھا۔
اسماعیلہ فرقے کی خوجہ شاخ کے لوگ بہت سی ہندو رسموں کو اپنائے رہے۔یہ لوگ
اسلام قبول کرنے سے پہلے لوہا نہ راجپوت تھے۔ ان کے پیر صدر الدین حضرت آدم
اور حضرت علی کو وشنو کا اوتار سمجھتے تھے اور اُن کے نزدیک حضرت محمد مہیش
کا دوسرا نام تھا۔ اسماعیلیوں کا ایک فرقہ امام شاہی جو آغا خان کو نہیں
مانتا تھا ہندوؤں کے رسم و رواج اور معمولات کی مکمل پیروی کرتا تھا۔ اُن
کا سر دار ہمیشہ ہندوہوتا تھا جسے وہ ”کاکا“ کہتے۔ یہ لوگ برصغیر کے مغربی
ساحلوں پر آباد تھے۔ مغربی ساحلوں پر دوسری انتہائی خوشحال اور دولت مند
مسلمان قوم بوہروں کی ہے جس نے بھی ہندو رسم و رواج پوری طرح اپنائے رکھے۔
اگرچہ بوہرے بہت سے معاملات میں عام مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ راسخ
مسلمان ہیں ۔ وہ ہندوﺅں کے ہاتھ کا کھانا یا اُن کے دھوئے ہوئے کپڑے پہننا
پسند نہیں کرتے مگر دیوالی کاتہوار مناتے رہے۔ قانون وراثت، سود اور دیگر
کاروباری معامات میں ہندو طریقہ کار پر عمل کرتے رہے۔ چیف الیکشن کمشنر
جناب فخر الدین جی ابراہیم کا تعلق بھی بوہرا فرقے سے ہے۔
برصغیر کی تقسیم سے قبل ہندوؤں اور مسلمانوں کی جو راسخ العقیدہ تحریکیں
چلیں اور جن کا مقصد لوگوں کو اُن کے اپنے عقیدے کے بارے میں آگہی دینا اور
دوسروں کے رسم و رواج سے نجات دلانا تھا۔ اُن تحریکوں کے نتیجے میں ایسے
تمام فرقے جنہوں نے دوسروں کے رسم و رواج اپنائے ہوئے تھے بالآخر ڈھیر ہو
گئے اور اُن لوگوں نے دونوں مذہبوں میں سے کسی ایک کو قبول کر لیا۔ اب
پاکستان میں بسنے والے ایسے تمام لوگ مسلمان ہیں جبکہ بھارت میں بسنے والوں
میں ہر دو مذاہب کے لوگ شامل ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہ کا بیان ہے کہ کچھ مسلمان حضرت علی اور حضرت فاطمہ کی
تقریب نکاح کا جشن مناتے ہیں اور اُسے کرشن اوررادھا کے بیاہ کی تقریب کے
مثل قرار دیتے ہیں اُن کے خیال میں محرم کے موقع پر ہونے والے مظاہروں میں
بھی کچھ تقریبات ہندوﺅں کی تقریبات سے اخذ کی گئی ہیں۔ یہ تو خیر چند باتیں
تھیں مگر برصغیر میں اتحاد مذہب کے داعیوں نے بہت سی رسوم، بہت سے رواج اور
بہت سے معمولات کو ایک مذہب سے دوسرے میں اس طرح گڈ مڈ کیا کہ عجیب سی
صورتحال نظر آتی ہے۔ پاکستان یقینا رب العزت کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے کہ
ہم بہت سی ہندو رسومات سے نجات پا گئے ہیں۔ مگر ابھی بہت سی ایسی چیزیں ہیں
جن سے نجات پانا شاید ہمارے بس میں نہیں۔
بت پرستی شاید ہمارے خمیر میں شامل ہے۔ کوشش کے باوجود آج تک ہم اس خامی پر
قابو نہیں پا سکے۔ ہماری سیاست تو خالص بت پرستی ہے۔ لوگوں نے چند لیڈروں
کے بت تراش لیے ہیں اور اُنہیں اُن بتوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ الیکشن
میں لوگ اپنے حلقے کے امیدواروں کو ایک کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے سیاستدان
کے بت کی پرستش کرتے ہیں اس کے نامز امیدوار کو چاہے وہ کتناہی رسہ گیر،
بدمعاش اور کرپٹ ہی کیوں نہ ہو، ووٹ دینا پسند کرتے ہیں۔ گو بعد میں اپنے
فیصلے پر پچھتاتے ہیں لیکن شاید تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ ہم تاریخ
سے کچھ نہیں سیکھتے۔ ہمار المیہ یہی ہے کہ ہم اپنے تراشے ہوئے بتوں سے نجات
نہیں پا سکتے اور ہمارے وہ تراشے ہوئے بت نمائندگی کے لیے ایسے امیدوار
لاتے ہیں جو اپنے یا اپنے بتوں کے مفادات کے لیے کام کرتے ہیں جبکہ عوامی
نمائندگی کے حوالے سے یہ لوگ پوری طرح گونگے بہرے ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن
اگر امیدوار ں کے حوالے سے جانچ پڑتال کی مدت بڑھا کر کم از کم ایک ماہ کر
دے اور عام ووٹر کو اختیار دے کہ اگر اُس امیدوار کے بارے میں اُس کے پاس
اُس کی غیر اخلاقی او مجرمانہ حرکتوں کا کوئی حوالہ ہو تو ثبوت کے ساتھ پیش
کرے اور کمیشن اُس کے بارے میں فوری جائزہ لے کر فیصلہ کرے تو یقینا بہتری
کی صورت نکل آئے گی۔
بت پرستی ہمارے خمیر میں شامل ہے کوشش کے باوجود آج تک ہم اس خامی پر قابو
نہیں پا سکے۔ہماری نوجوان نسل نے شو بز کے نمایاں فنکاروں کے بت تراش رکھے
ہیں۔ شوبز کی دنیا بھی عجیب ہے نوجوانوں کو اس میں بڑی جاذبیت نظر آتی ہے۔
بچے اور بچیاں اپنے پسندیدہ گلوکاروں ، اداکاروں اور فنکاروں کے بت تراشتے
ہیں اور اُن کے پرستار بن جاتے ہیں۔ اُن کی طرف کھینچے چلے جاتے ہیں۔ بلا
شبہ اُن میں کچھ لوگ اتنہائی اچھے ہیں مگر بدکردار، غلیظ اور مکروہ لوگوں
کی بھی کمی نہیں۔میں نے بہت سے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو گلیمر کی تلاش
میں ان مکروہ اور غلیظ لوگوں کے ہاتھوں برباد ہوتے دیکھا۔ حال ہی میں ایک
انتہائی پارسا اور نیک نظر آنے والے شوبز کے شخص کے ہاتھوں ایک بچی کی
بربادی کے بارے میں میں نے لکھا تھا۔ مگر چونکہ بچی اُس نیک نام فنکار کی
بت پرستی کی شکار تھی اور کچھ اُسے عزت کا خوف بھی تھا چنانچہ اپنے ساتھ
ہونے والے ظلم کو چپ چاپ سہہ گئی۔
بت پرستی ہمارے خمیر میں شامل ہے۔ کوشش کے باوجود آج تک ہم اپنی اس خامی پر
قابو نہیں پا سکے۔ حیران کن حد تک بت پرستی صحافی حضرات میں دیکھی جا رہی
ہے۔ صحافی جن بتوں کی پرستش کرتے ہیں۔ اُن کی تعریف میں زمین اور آسمان کے
قلابے ملا دیتے ہیں، سچ لکھنا جو صحافی کا ایمان ہوتا ہے۔ اب مفقود ہوتا جا
رہا ہے۔پوری طرح سچ لکھنے والے موجود ہیں مگر اُنہیں کوئی پوچھتا نہیں۔
کوئی پسند نہیں کرتا۔ صحافی نے جس بت کی پرستش اپنائی۔ اُسی معیار سے اُس
کا اپنا سچ ہے وہ اُسی سچ کو اجاگر کرتا ہے۔ شاید معاشرے میں زندہ رہنے کے
لیے یہ اُس کی مجبوری ہے۔ وہ صحافی جو بت پرست نہیں خدا پرست ہیں جنہیں
کوئی لالچ نہیں ، کوئی حرص نہیں۔ تھوڑے پریشان ضرور ہیں کہ اُنہیں وہ
پذیرائی نہیں ملتی جس کے وہ مستحق ہیں مگر الحمداللہ وہ مطمئن ہیں۔ سچ
لکھتے ہیں سچ کہتے ہیں اس یقین کے ساتھ کہ بت پرستی کا یہ دور دائمی نہیں۔
بہت جلد یہ دور ختم ہو گا کیونکہ لوگ سچ لکھنا اور سچ سننا ہی پسند کرتے
ہیں۔ |