ہر ذی شعور مسلمان کے ذہن میں
اکثر وبیشتر یہ سوال جنم لیتا ہے کہ نجانے کب تک ہم اہل حق ہونے کے باوجود
اہل باطل سے اپنی زندگی کی بھیک مانگتے رہیں گے؟ ظالموں کے رحم و کرم پر
سہم سہم کر اور ایڑیاں رگڑرگڑ کر اپنی زندگی کے دن گنتے رہیں گے؟ ہر طرف
وہی کچھ ہورہا ہے جو ہم نہیں چاہتے اور جو ہم چاہتے ہیں وہ ہو نہیں
رہا۔بلکہ اس کے ہونے کی امید بھی معدوم ہے۔ کہیں امریکا کی اجارہ داری اور
کہیں اسرائیل کا ظلم و ستم جاری۔جب سے آنکھ کھولی ہے، چار سو خون مسلم ہی
ارزاں دیکھا۔ افغانستان میں زیر ستم مسلمان، برما میں قتل عام مسلمان کا،
عراق میں مرتا ہے تو مسلمان۔ فلسطین، کشمیر، چیچنیا و بوسنیا سمیت دنیا کے
کونے کونے میں مسلمان ہی ظلم کی چکی میں پس رہا ہے۔ یہی بے چارہ پنجہ کفر
میں جکڑا ہے۔یہ سب کچھ آخر کیوں ہو رہا ہے؟
یاد رکھیں! ہم خود ہی قصوروار اور ان حالات کے ذمہ دار ہیں ۔ہم صرف آہ و
بکا کرتے ہیں کہ ہم پر ظلم ہورہا ہے، ہمارے خلاف سازش کی جارہی ہے۔ ہم صرف
ظلم سہتے ہیں اور شور مچاتے ہیں۔ ایک عرصے سے ہم اپنی مظلومیت کا نوحہ الاپ
رہے ہیں ۔ یوں پوری دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش میں ہیں کہ خدارا مان
لو کہ ہم مظلوم ہیں! لیکن اہل قوت ہم کو مظلوم مانتے ہوئے بھی ہم پر رحم
نہیں کرتے۔
ذرا سوچیے! آج تک کبھی دنیا میں ایسا بھی ہوا ہے کہ کسی ظالم نے مظلوم کو
مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنے کی وجہ سے چھوڑ دیا ہو۔ ایسا ہر گز نہیں ہوا اور
نہ ہی یہ دنیا کا ضابطہ و قانون ہی ہے۔بلکہ اس طرح تو ظالم کو ظلم کرنے کا
مزید موقع ملتا ہے کیونکہ وہ جان لیتا ہے کہ میرا مدمقابل خود اپنی کمزوری
کا اقرار کررہا ہے، یہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ ظالم مظلوم کی بے بسی کو
دیکھ کر اس پر ظلم کا شکنجہ اور کس دیتا ہے۔ اسے پتا ہوتا ہے کہ یہ صرف
لوگوں سے مدد کی اپیل کرے گا، لیکن اپنی حفاظت کی کوئی سبیل کرنے کو تیار
نہیں۔ جو خود ہی اپناتحفظ نہ کرسکے کوئی ،دوسرا اسے تحفظ کیسے دے گا؟
یہ دنیا تو دارالاسباب ہے۔ یہاں تو جو کرو گے وہی ملے گا۔ جو بوؤ گے اسی کا
پھل دنیا میں کاٹو گے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کرو کچھ نہ اور امید رکھو عزت سے
زندگی گزارنے کی۔ آج اگر ہم دنیا میں کسی بھی قوم کی حکمرانی دیکھتے ہیں
تویہ ان کی محنتوں کا صلہ ہے ،جو انہیں دنیا میں ہی مل چکا ہے۔ امریکا،
برطانیہ، بھارت، چین اور دوسرے کئی ممالک آج دنیا کی کنجی اپنے قبضے میں
کرنے کو ہیں۔ کیا ہم اس مقام تک نہیں پہنچ سکتے؟ اکھاڑا تو خالی ہے۔ ہر ایک
کو اجازت ہے کہ آئے اور اپنی قوت، عقلمندی اور صلاحیتوں کا مظاہرہ کرے،اپنے
مدمقابل کو پچھاڑ دے۔ ہم بھی میدان مار سکتے ہیں اور دشمن بھی۔جو عقلمندی،
محنت اور جستجو کے ساتھ کام کرتا ہے یقیناً کامیابی اس کے قدم چومتی ہے۔
دشمن نے عقل کو استعمال کر کے محنت کو اپنا شعار ٹھہرایا۔ سو سال پہلے آج
کے دن کے لیے سوچا، لا ئحہ عمل طے کیااور کام شروع کردیا۔ جو وسائل ان کے
پاس دستیاب تھے ان کو کام میں لے آئے۔ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو اس میں
کھپا دیا۔ آج وہ اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ ہم پر حکمرانی کر سکیں۔ حالانکہ
ہمارے پاس بھی وسائل کی کوئی کمی نہیں۔ شاید ہمارے پاس وسائل ان سے کئی گنا
زیادہ ہوں۔ ہم نے سو سال بعد کے لیے تو کیا سوچنا تھا، آج کے دن کے لیے بھی
نہیں سوچا۔زندگی کے تمام شعبوں پر کفار کی حکمرانی ہے۔ہم نے کسی بھی میدان
میں ترقی کرنے کی کوشش نہیں کی۔ہم اپنے سیاسی نظام، عائلی نظام،تعلیمی نظام
،اقتصادی نظام اور مذہبی نظام تک کو مستحکم نہ کرسکے۔ہر برائی کو ہم نے جگہ
دی۔ہم اغیار کی پیروی اچھی صفات میں نہیں کرتے بلکہ بری چیزوں میں کرتے
ہیں۔ اسی لیے ہم سر جھکا کر بھی نہیں جی سکتے کیونکہ ہم اسی قابل ہیں۔
ساری دنیا میں مسلمان ہی آپس میں دست وگریباں نظر آتے ہیں۔ افغانستان،
عراق، شام اور کئی دوسرے ممالک کا تو کہنا ہی کیا۔ مصر میں ایک مضبوط
اسلامی حکومت مستحکم ہونے کی امید بندھی تھی،وہاں بھی مسلمان ہی اس حکومت
کو گرانے کے درپے ہیں۔بھارت، امریکا،برطانیہ اور چین غیر مسلم ممالک ہےں
لیکن وہاں لوگ نماز بغیر کسی پہرے کے پڑھتے ہیں لیکن ہمارے اسلامی ممالک
اتنے مظلوم ہےں کہ یہاں تو مسلمان مسجد کے اندر بھی محفوظ نہیں۔ مسلمان ہی
مسلمان کو قتل کررہے ہیں۔ مخالف فرقے و مسلک کے علماءکو قتل کیا جارہا ہے۔
یہ سب کچھ مسلمان ممالک میں ہوتا ہے۔ کیا کراچی جیسا اندھا ظلم بھی کسی غیر
مسلم ملک میں ہوتا ہے؟ یہ کس کا قصور ہے؟ ان حالات کے ہوتے ہوئے ہم کس طرح
کامیاب ہوسکتے ہیں؟ دشمن کا تو کام ہی یہ ہے کہ وہ سازشیں کرے۔ افسوس تو
خود پر ہے کہ ہم صرف دشمن کو برا بھلا کہنے سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ کوئی
منصوبہ بندی کرتے ہیں نہ ہی کسی منصوبہ بندی پر عمل کرتے ہیں۔ہم اچھی بات
کو بھی محض اس وجہ سے ٹھکرا دیتے ہیں کہ وہ بات ہمارے مخالف نے کہی ہے۔جبکہ
امریکا جیسے غیر مسلم ملکوں میں قوم کے لیے کام کیا جاتا ہے، چاہے حکومتیں
جتنی بھی بدل جائیں لیکن پالیسیاں نہیں بدلتیں، اسی لیے وہ لوگ دنیا میں
ترقی کر رہے ہیں۔
آج بھی وقت ہے جو بن پڑتا ہے، کرلیا جائے۔ ورنہ زندگی کی بھیک مانگنے والوں
کو کبھی بھیک نہیں ملتی اور نہ کبھی ملی ہے۔ اگر زندگی کو زندگی کے طریقے
پر گزارنا چاہتے ہیں تو اسلاف کی طرح بھرپور کوشش کرنا ہوگی۔پوری محنت،
جستجو اور بیدار مغزی سے کام کرنا ہوگا۔ ہاتھ پہ ہاتھ دھرکے بیٹھے رہنے سے
کچھ نہیں ہوگا۔ آپ جنگ بدر کو ہی دیکھ لیں۔ اللہ کے سب سے محبوب نبی اگر
چاہتے تو اللہ تعالٰی سے صرف دعا کرتے تو دشمن کا ستیا ناس ہو جاتا لیکن
عادت خداوندی یہ نہیں ہے۔ اللہ نے دنیا کے تمام تر معاملات کو اسباب کے
ساتھ جوڑ دیا ہے۔ آپ علیہ السلام ایک ہزار کے مقابلے میں تین سو تیرہ
جانثاروں کو لے کرمیدان میں اترے،آٹھ تلوریں تھیں، ان کو بھی لے آئے۔ دو
گھوڑے تھے وہ بھی ہمراہ لیے۔ جاں نثاروں سے مشورہ کیا کہ ان حالات میں کیا
کرنا چاہیے؟ منصوبہ بندی کی، لائحہ عمل طے کیا، میدان کا معائنہ کیا۔ اسباب
کے درجے میں جو آپ علیہ السلام سے ہو سکا وہ کیا۔ پھر سجدے میں سر رکھ کر
کہا :”یا اللہ! جو ہمارے بس میں تھا وہ ہم نے کرلیا۔ اب فتح دینا آپ کا کام
ہے۔“ پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ اللہ تعالی نے فتح مبین عطا کی۔
آج اگر فلسطین کے معصوم بچوں کو اسرائیل خاک و خون میں لت پت کرتا ہے۔
امریکی طیارے افغانستان و وزیرستان پر بم برساتے ہیں۔ بھارت کشمیر میں
مسلمان عوام کو درندگی کا نشانہ بناتا ہے.... تو ہم صرف یہ کہتے ہیں اللہ
تعالی سے دعا کرو کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو ظلم سے چھٹکارا مل جائے۔ ہم
صرف ذکراوردعا کے ذریعے کامیاب ہونا چاہتے ہیں۔ ان سب چیزوں کی برکت و
فضیلت اپنی جگہ لیکن سوچنا یہ ہے کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی
ایسے ہی نہ کرسکتے تھے؟ لیکن امت کو یہ بتانے کے لیے کہ اگر دنیا میں
سراٹھا کر جینا چاہتے ہو تو یہ صرف دعاﺅں سے ممکن نہیں، اس کے لیے سرتوڑ
کوشش کرنا ہوگی۔ اسی طرح آپ کو حکمرانی مل سکتی ہے ،ورنہ دشمن ہر میدان پر
قابض ہو جائے گااور تم حسرت کی آہیں بھرتے رہ جاﺅ گے۔ واویلا کرنے سے کبھی
کسی کو عزت نہیں ملی۔ عزت و قوت حاصل کرنے کے لیے سرتوڑ کوشش کی جاتی ہے۔
اپنی حالت خود بدلنا پڑتی ہے۔کوئی دوسرا کسی کی حالت نہیں بدلا کرتا،خدا
بھی انہی لوگوں کی حالت بدلتے ہیں جو اپنی حالت کی خود فکر کرتے ہیں
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال اپنی حالت کے بدل جانے کا |