عزت نفس

 ”سر ڈرائیور بھی انسان ہوتا ہے،اس کی بھی عزت نفس ہے“ اس کی گفتگو نے میری توجہ حاصل کر لی۔میں نے اپنی ساری توجہ سڑک پر دائیں بائیں دیکھنے کی بجائے اس کی گفتگو پر کر لی۔”بے شک کوئی امیر ہو یا غریب،افسر ہو یا غلام سب کی عزت ہوتی ہے“ میں نے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اپنا چہرہ اپنے ساتھ گاڑی چلانے والے دفتر کے ڈرائیو ر کیطرف کر لیا۔میں نوید کو ذاتی طور پرکئی سالوں سے جانتا ہوں،یہ ڈرائیو ر اپنی زندگی کی محنت کے 42ویں سال میں تھا۔اس کی تین جوان بیٹیاں اور دو چھوٹے بیٹے ہیں۔اس سے میرے دو ذاتی رشتے بھی تھے ایک تو یہ میرے منجھلے بھائی کے ساتھ کرکٹ کھیلتا تھا اور اپنی جوانی کے وقت علاقہ کا بہترین باﺅلر بھی مانا جاتا تھا۔دوسرا یہ کہ نوید اور ہمارا خاندان تقریباً 15سال سے ایک ہی محلہ میں آباد رہے،ایک علاقہ میں یا محلہ میں رہنا بھی ایک بہت بڑا تعلق ہوتا ہے۔اتنے دیرینہ تعلقات نے مجھے نوید کی سچ گوئی،ایمانداری اور دیانتداری کا قائل بنا دیا۔زندگی میں کئی اپ ڈاﺅن ہوتے ہیں مگر مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی نوید نے مجھ سے پچاس یا سو روپیہ بھی ادھا رمانگا ہو۔یہ شخص انتہائی غیرت مند اور انا پرست بھی تھا۔

لیکن اس کی سنائی گئی داستان نے مجھے اپنی زندگی کے تمام دکھ سکھ بھلا دیئے اور انسانی تذلیل کی حقیقتوں اور نام نہاد افسری شاہی سے آشکارا کر دیا۔میرے دل سے اس وقت یہی صدا نکلی کہ اللہ تعالیٰ میری طرح کے ہر ملازم کی عزت نفس کو اپنی امان میں رکھے اور نام نہاد بے ایمان اور راشی افسران کو غارت کرے( آمین)۔ میں نوید کے محض تین سنانے والے واقعات کو قارئین کے سامنے اس لئے لکھنا چاہوں گا کہ آئندہ شاید کوئی صاحب قدرت اس قسم کے گناہ اور ظلم سے باز آجائے ،ہر کسی کو چاہیئے کہ وہ چاہے افسر ہو یا ماتحت اپنی اپنی جگہ رہ کر اپنا کام درست کرے کسی اور کے کام میں خواہ مخواہ مداخلت نہ کرے اور نہ ہی کسی کے ساتھ ہتک آمیز رویہ رکھے ،اپنے اپنے Domainمیں رہنے سے ہر کسی کی سروس اور زندگی خوشحال ہو جاتی ہے۔

اس کے ایک اعلیٰ افسر جس کا وہ ڈرائیور تھا اس کو ”بہن۔۔چ۔۔۔د“ کی گالی دینے کی عادت تھی اور یہ عادت آج بھی قائم و دائم ہے۔گالی دینا ایک ناپسندیدہ اور غیر فطری کام ہے جس سے نہ صرف ہمارا مذہب بلکہ زندگی کا ہر فرد ناپسند کرتا ہے۔اس کے بقول پانچ سال تک نوید کو یہی گالی کئی بار سہنا پڑی۔اس میں نوید کے بقول تین مواقع ایسے آئے کہ نوید کو اپنے اعلیٰ افسر سے گستاخی کرنے کی بہ ضرورت مجبوری نوبت آئی۔اس کے تینوں واقعات بہت ہی معنی خیز اور سبق آموز ہیں جن کا تذکرہ تھوڑے سے دبے لفظوں میں ضروری ہے۔

میرے مشاہدے کے مطابق بظاہر اس کا افسر پانچ وقت کا نمازی ہے لیکن شاید اس ”بہن۔۔۔چ۔۔۔۔د“ کی گالی کی وجہ سے اس کی نمازیں اور کردارغارت ہونے کا خدشہ بھی موجود ہے۔ایک دفعہ جب نوید اس کے ساتھ لانگ ڈرائیو پرتھا اور اسے گاڑی چلاتے دو گھنٹے گزرے تھے تو نوید کے بقول اس نے جیسے ہی نوید کو”بہن۔۔۔چ۔۔۔۔د“ کہ کر غصہ میں یہ کہا کہ گاڑی آہستہ چلاﺅ تو نوید کو غیرت آ گئی اور نوید نے سڑک کنارے گاڑی روک کے کہا کہ ”صاحب آپ گاڑی سے نیچے اتریں اور اب میں آپ کو گالی کا مزہ چکھاتا ہوں۔اگرآپ نہ اترے تو میں آپ سمیت گاڑی کو کسی دوسری گاڑی میں مار کے اپنا بھی خاتمہ کرلوں گا۔۔“۔۔۔نوید کے بقول اس کے صاحب کی باپردہ اور متقی بیگم کو مداخلت کرنا پڑی اور اس نے منت سماجت کرکے بیچ بچاﺅ کرایا اور کہا کہ”نوید۔۔۔چھوڑو یہ مجھے بھی ایسی ہی گالیاں نکالتا ہے۔۔اس کو معاف کرو۔۔۔“نوید نے اس پر غصے میں یہی جواب دیا کہ ”آپ اس کی بیگم ہیں۔۔آپ بے شک برداشت کریں۔۔۔میں یہ برداشت نہیں کر سکتا۔۔“

دوسری دفعہ جب نوید کا بچہ صبح سویرے گھر کی چھت سے گر کر قریب المرگ ہو گیا تو اس نے جلدی سے اپنے بیٹے کو قریبی ہاسپٹل پہنچایااور صاحب کو دفتر پہنچا کر ساری صورت حال بتا کر ہاسپٹل جانے کی اجازت مانگی اور کہا کہ ”صاحب۔۔اب میرے بیٹے کا سیریس آپریشن ہے اور میرے دستخط کرنے پر ہی آپریشن ہو گا ورنہ نہیں۔۔اس لئے مجھے فوراً ہاسپٹل جانا ہوگا براہ مہربانی آپ مجھے چھٹی عنایت کر دیں۔“ تو اس پر بھی صاحب نے”مجھے یہی گالی دی اور کہا کہ”میرے فلاں فلاں کام کر کے جا سکتے ہو ورنہ ویسے جانے کی صورت میں اپنی نوکری کی فکر کرو۔۔واپسی پر نوکری نہیں ہوگی“۔۔۔اس گالی اور دھمکی پر نوید نے بھی اپنے ”صاحب“ کو کھری کھری سنائیں اور اس سے سینئر آفیسر کو اعتماد میں لیکر بچے کے ہاسپٹل جا پہنچا۔۔۔

تیسری دفعہ جب وہ اپنے صاحب کو اس کی بیٹی کے ساتھ لیکر ایک پہاڑی پر گاڑی چلا رہا تھا تو اس کے صاحب نے حسب روایت بکواس شروع کردی اور کہا کہ ”تمہیں گاڑی چلانا ہی نہیں آتی دیکھو میری بیٹی کو قے ہو رہی ہے یہ سب تمہاری مستی ہے۔۔۔۔۔۔“اس گالی کے بعد نوید نے اسے جواباً برا بھلا کہا اور اسے اپنی گندی زبان بند رکھنے کی تلقین کی اور کہ پہاڑی پر گاڑی پہلے یا دوسرے گیئر میں ہی چلتی ہے آپ کو اگر پسند نہیں تو آپ اتر جائیں۔

”ممتاز صاحب کیا بتائیں نوکری کتنی مشکل ہوتی ہے یہ کوئی پھولوں کی سیج نہیں ۔۔۔بچوں کے لئے سب کچھ سہنا پڑتا تھا۔۔۔ہم غریب لوگ نہ تو کاروبار کر سکتے ہیں اور نہ ہی overageہونے کی وجہ سے کوئی اور ملازمت ڈھونڈ سکتے ہیں اور اب تو ساری عمر اسی ادارے کی نذر ہوگئی ہے۔“نوید کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے لیکن میں اپنے آنسوﺅں کو اس سے چھپانے کے باوجود بھی نہ چھپا سکا۔لعنت ہو ایسے ہر افسر پر جو اپنے ماتحت کو انسان نہیں سمجھتا۔لعنت ہو ہر اس حاکم پر جو محکوم کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔لعنت ہو ایسے ہر آدمی پر جو اپنی طاقت کو کمزور انسانوں پر آزماتا ہے۔لعنت ہو ایسی سیاست پر جس سے انسانوں کی ہتک اور بے عزتی کا اندیشہ ہو۔لعنت ہوایسی زندگی پر جس کی وجہ سے دوسروں کا جینا محال ہو۔عزت نفس تو سب کی ہوتی ہے ہمیں کسی کی عزت نفس پر ہرگز ہرگز حملہ نہیں کرناچاہیئے کیونکہ دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے سے اپنی پگڑی سر پر نہیں رہتی۔ملازمت تو پرائی ہوتی ہے۔ترقی تنرلی،عزت ذلت اللہ کی طرف سے ہے۔ہمیشہ برتر اور لافانی رہنے والی صرف اللہ کی ذات ہے ،انسان تو کچھ بھی نہیں۔پرائم منسٹر اور پریذیڈنٹ تک کو ایک دن ریٹائرڈ ہو کر گھر جانا ہوتا ہے۔پھر ساری پروٹول ختم ہو جاتی ہیں اور حرام کمائی ہوئی کمائی سے پلی ہوئی اولاد پل پل جینا محال کرتی ہے اور پھر جب آخری سفر روانگی ہوتی ہے تواللہ معاف کرے جنازے کے لئے لوگ بھی نہیں ہوتے۔لوگ تو اس کے لئے آتے ہیں جو لوگوں کے لیا جیا ہو۔۔کیوں صاحب جی اب بھی وقت ہے کہ آپ یا آپ جیسے ہر کسی کوگالی دینا یا ”بہن۔۔۔۔چ۔۔۔۔د“ کہنا چھوڑ دیں اور اللہ سے توبہ کریں۔
Mumtaz Amir Ranjha
About the Author: Mumtaz Amir Ranjha Read More Articles by Mumtaz Amir Ranjha: 90 Articles with 66379 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.