مقام رحمۃ للعالمین ﷺ

اللہ تعالیٰ نے سرورکائنات ﷺ کی شان اقدس میں فرمایا ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ﴿سورۃ الانبیاء:107﴾
ترجمہ:اور﴿اے پیغمبر!﴾ ہم نے تمہیں سارے جہانوں کے لئے رحمت ہی رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
اس آیت مبارکہ میں نبی کریم ﷺ کی شان کے ایک ایسے امتیازی پہلو کو بتلایا گیا ہے جو آپ کی پوری سیرت طیبہ اور تمام تعلیمات کے اصل مزاج اور روح پر حاوی ہے، اگر اس پہلو کو نظر انداز کردیاجائے تو سیرت طیبہ کے مطالعے میں بھی انسان ٹھوکریں کھاتا ہے اور اُس سیرت طیبہ سے عملی رہنمائی لینے میں بھی انسان بہت سی فکری بے اعتدالیوں کی وجہ سے غلط فہمیوں کا شکار بن جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے،مگر یہ رحمت ہر طبقے کویکساں نہیں پہنچتی بلکہ اُس کی استعداد اور صلاحیت کے بقدر حاصل ہوتی ہے۔ آج کی محفل میں اسی ’’رحمت‘‘ کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

نبی کریم ﷺ کی رحمت کے دو پہلو ہیں:
ا: آپ کے وجود اور ذات مقدسہ کی رحمت وبرکات
۲: آپ کی لائی ہوئی تعلیمات اور منصبِ رسالت کی رحمت وبرکات
ذات مقدسہ کی رحمت:
آپ کے وجود اور ذات مقدسہ کی رحمت وبرکات کے بہت سے واقعات ہیں جو سیرت کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں۔ مثلاًبچپن میں حضرت حلیمہ سعدیہ جب آپ کو اپنے ساتھ لے کر گئیں تو ان کوقسما قسم کی برکات حاصل ہوئیں،غزوہ خندق میںحضرت جابر(رض) کی طرف سے دعوت کے موقع پر قلیل کھانے کا کثیر اَفراد کو کفایت کرجانا، ایک غزوے میں آپ ﷺ کی انگلیوں سے پانی کاجاری ہوجانا، ہجرت کے سفرمیں آپ کے ہاتھ کی برکت سے خشک تھنوں والی بکری کے تھنوں کادودھ سے لبریز ہوجانا، غزوہ بدر میں ایک صحابی کولکڑی کی چھڑی عطافرمائی تو وہ تلوار بن گئی، آپ کے لعاب مبارک کی برکت سے صحابہ کی تکالیف کادور ہوجانا ، الغرض اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں جن سے آپ کی ذات اطہر کے مبارک اور رحمت ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ اس وقت اس پہلو کی تفصیل میں جانا مقصود نہیں ، اس لئے صرف اشارات کردیئے ہیں، تفصیل دیکھنے کے لئے سیرت کی کتابوں کے سیکڑوں صفحات آپ کے منتظر ہیں۔یاد رہے کہ رحمت کایہ پہلو تمام جہانوں کے لئے ہے۔ خاص طور سے اگر حضرت نانوتوی قدس سرہ کی طرف منسوب یہ اشعار سامنے رکھے جائیں تو بات آسانی سے سمجھ جائیں گے:
سب سے پہلے مشیت کے انوار سے
نقش روئے محمد بنایا گیا
پھر اُسی نقش سے مانگ کر روشنی
بزم کون ومکاں کو سجایا گیا

رسالت محمدیہ کی رحمت:
رحمت کایہ پہلو اصل مقصود ہے اور اس کا تعلق مکلف مخلوق کے دو گروہوں کے ساتھ ہیں، ایک گروہ اہل ایمان کا ہے اور دوسرا گروہ کفار ومنافقین ہیں اور آیت کے اَلفاظ سے بھی یہی پہلو زیادہ نمایاں ہے۔
نبی کریم ﷺ کی بعثت سے قبل پوری دنیا کفروشرک اور ظلم وستم کی اندھیر نگری بنی ہوئی تھی، انسانیت اپنے خالق ومالک اور معبود حقیقی سے روگرداں ہوکر بت پرستی اور بددینی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبی سسک رہی تھی، کہیں بھی آوازہ حق بلند کرنے والا کوئی نہ تھا، پوری دنیا میں ہدایت گم تھی، حق کے نشان مٹ چکے تھے،توحیدباری تعالیٰ کے آثاربت پرستی کی رسوم میں دب چکے تھے،آسمانی ادیان کوتحریف وتبدیل کی کاٹ سے مسخ کردیاگیاتھا اور تمام انسانیت ہلاکت کے کنارے تباہ ہونے کو دوڑتی جارہی تھی اور کوئی نہ تھا جو اس انسانیت کو دین حق کی پہچان کراتا اور پورے عالم کو ہلاکت کے گڑھوں میں گرنے سے کھینچ کھینچ کرروکتا، ایسے میں اللہ تعالیٰ نے نبوت کے آفتاب عالَم تاب محمد رسول اللہ ﷺ کے خاتم النبیین اور رحمۃ للعالمین بنا کرمبعوث فرمایا، اور ان کے بارے میں اعلان کیا:
انا ارسلناک شاہدا.یعنی اے نبی ہم نے آپ کو شاہد بنا کربھیجا ، آپ حق کے تمام گوشوں کے شاہدبھی ہیں اور اسے غالب کرنے والے بھی ہیں۔

نبی کریم ﷺ کی آمد کے وقت پوری دنیا کا نقشہ کیا تھا؟
ایک طرف فارس میں ساسانی سلطنت کا رعب ودبدبہ تھا، یہ سلطنت آگ پرست مجوسیوں کے قبضے میں تھی، اس سلطنت کی حدود ایران، کرمان، خراسان، سیستان، آذربائیجان، السواد، الجزیرہ﴿عراق﴾ اور کردستان وغیرہ بڑے بڑے علاقوں تک پھیلی ہوئیں تھیں۔ ان تمام علاقوں کے ناموں پر ذرا ایک بار پھر غور کیجئے اور اندازہ لگائیے کہ کرہ ارضی کے اتنے وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے علاقے میں کوئی ایک فرد بشر بھی نہ تھاجو رب تعالیٰ کی توحید سے آشنا ہوبلکہ یہ سب توحید سے ناآشنا اور آگ پرستی جیسے خلاف عقل اور بیوقوفانہ عقیدے پر جمے ہوئے تھے۔

دوسری طرف رومی، بازنطینی سلطنت کے جھنڈے لہرا رہے تھے، اس کی حدود میں ترکی کے وسیع تر علاقوں کے علاوہ ایشائے کوچک، شام، فلسطین، مصر، انطاکیہ، حلب، حمص، دمشق، بیروت، طرابلس، قلزم، یروشلم، اسکندریہ، ایلہ اور قیصاریہ وغیرہ کے علاقے شامل تھے، اس کادارالحکومت اٹلی تھا، یہ سلطنت عیسائیت کے پیروکاروں کی تھی مگر اصل عیسائیت ان میں عرصہ ہوا ناپید ہوچکی تھی، اور اُس وقت ان کے پاس صرف عیسائیت کانام باقی تھا اور حقیقی تعلیمات تحریف کے خنجروں سے ذبح کی جاچکی تھیں، اسی لیے اس توحید والے مذہب میں بھی بجائے توحید کے تثلیت یعنی تین خدائوں کا عقیدہ بنیادی اہمیت اختیار کرچکاتھاجسے آج تک عیسائیت کے پیروکار اسلام دشمنی میں اختیار کیے ہوئے ہیں۔

تیسری طرف غسانیوں کی حکومت تھی جس کی حدود دریائے فرات سے لے کر جنوب مغرب میں ایلہ اور تبوک تک پھیلی ہوئی تھیں، اس کادارالحکومت شام کا شہر بُصریٰ تھا، یہاں کے حکمران بھی مسیحی تھے اور جس طرح دیگر عیسائی دین حق سے نابلد تھے یہی ان کا بھی حال تھا۔

چوتھی طرف یمن جو جزیرہ نمائے عرب کے جنوب مغربی حصے پر مشتمل ہے، یہاں زیادہ تر یہودی آباد تھے، اور یہ تو نہ صرف خود دین حق سے محروم تھے بلکہ عیسائیوں میں بگاڑ ڈالنے والے بھی بنیادی طور پر یہی تھے۔

اِدھر خود اندرون عرب بھی زیادہ تر قبائل خالص مشرک یا نرے جاہل اور وحشی ظالم تھے،شرک کی جوکیفیت ہے وہ اسی سے عیاں ہوجاتی ہے کہ انہوں نے توحید کے مرکز بیت اللہ کوبتوں سے بھررکھا تھا اور جو یہود کے قبائل آباد تھے وہ بھی اپنے دین حق میں تحریفات کرکے اسی محرَّف دین کو اپنی خواہشات کے تابع کرکے جی رہے تھے۔یہ اُس وقت کی پوری دنیا کی گمراہی اور دین حق سے دوری کاایک مختصر نقشہ ہے۔الغرض جس وقت سے دنیا کو وجود ملاتھا اس نے گمراہیوں کے ایسے ہیبت ناک سائے اور خالق کائنات سے بغاوت کے ایسے ہلاکت خیز طوفان کبھی نہ دیکھے تھے۔

ایسے میں تنہا ایک شخص نبی کریم ﷺ دین حق کے علمبرداربنا کر کھڑے کیے گئے اور آپ نے اس قوت کے ساتھ دین حق کا آوازہ بلند کیا کہ بالآخر دین حق کا پرچم بلند ہوگیااور نہ ماننے والوں کے ساتھ اس قوت کے ساتھ جہاد کیا کہ بالآخر کفر وشرک کے پجاریوں کو دین حق کے آگے جھکا کرچھوڑا۔امام ابن کثیر(رح) نے’’ آیتِ رحمۃ للعالمین‘‘ کی تفسیر میںحضرت جبیر بن مطعم(رض) کی اپنے والد کی روایت سے ایک طویل حدیث نقل فرمائی ہے جس کے آخر میں نبی کریم ﷺ کے یہ الفاظ موجود ہیں:
والذی نفسی بیدہ لاقاتلنھم ولاصلبنھم ولاہدینھم وھم کارھون، انی رحمۃ بعثنی اللہ ولایتوفانی حتیٰ یظہر اللہ دینہ، لی خمسۃ اسمائ انا محمد واحمد وانا الماحی الذی یمحو اللہ بی الکفروانا الحاشر الذی یحشر الناس علی قدمی وانا العاقب﴿تفسیر ابن کثیر﴾

اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری﴿محمد ﷺ کی﴾ جان ہے، میں ضروربالضرور ان کے ساتھ قتال کروں گا، ضروران کو قیدی بناوں گا اور انہیں ضروربالضرور ہدایت کی طرف لے کر آؤں گا اگرچہ یہ اُسے ناپسند کرنے والے ہوں، بے شک میں رحمت ہوں مجھے اللہ نے مبعوث کیا ہے اور اللہ تعالیٰ مجھے ہرگز موت نہ دیں گے جب تک اپنے دین کو غالب نہ کردیں۔ میرے پانچ نام ہیں: محمد، احمد،ماحی یعنی مٹانے والا، میرے ذریعے اللہ تعالی کفر کو مٹائیں گے اور میں حاشر ہوں یعنی تمام لوگوں کو میرے پیچھے میدان محشر میں جمع کیاجائے گا اور میں عاقب ہوں یعنی آخری نبی ہوں۔

اسی بات کوحضرت علامہ شبیراحمد عثمانی(رح) نے بھی بیان کیا ہے، تحریر فرماتے ہیں:
میں تو یہ کہتا ہوں کہ حضور کے عام اخلاق کے علاوہ جن کافروں پر آپ جہاد کرتے تھے وہ بھی مجموعہ عالم کے لئے سراسر رحمت تھا۔ کیوں کہ اُس کے ذریعہ سے اُس رحمت کبریٰ ﴿دینِ اسلام﴾ کی حفاظت ہوتی تھی جس کے آپ حامل بن کر آئے تھے اور بہت سے اندھے جو آنکھیں بنوانے سے بھاگتے تھے اس سلسلہ میں اُن کی آنکھوں میں بھی خواہ مخواہ﴿یعنی ان کے چاہنے اور نہ چاہنے کے باوجود بھی﴾ ایمان کی روشنی پہنچ جاتی تھی﴿اس کے بعد اوپر ذکرکی گئی حدیث کے الفاظ نقل کیے ہیں اور پھر لکھا ہے۔مدثر﴾ ان الفاظ سے آپ کے’’رحمۃ للعالمین‘‘ ہونے کامطلب زیادہ وسعت کے ساتھ سمجھ میں آسکتا ہے۔ ﴿تفسیر عثمانی﴾
حضرت عثمانی(رح) کی اس عبارت سے چار باتیں معلوم ہوئیں:﴿۱﴾ نبی کریم ﷺ کا لایاہواپورادین رحمتِ کبریٰ ہے۔﴿۲﴾ پھر اُس دین میں سے ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ خاص طور سے رحمت ہے کیوں کہ یہ اُس رحمت کبریٰ کا محافظ ہے اور اس کی برکت سے بہت سے نہ چاہنے والوں تک بھی دین وایمان کی روشنی پہنچ جاتی ہے اور وہ اُس رحمت کبریٰ سے فیض یاب ہوجاتے ہیں۔﴿۳﴾ گویا جہاد فی سبیل اللہ رحمتِ کبریٰ دین اسلام کامحافظ بھی ہے اور اس کی نشر و اشاعت کاوسیلہ بھی۔ ﴿۴﴾ جہاد فی سبیل اللہ کے اس مذکورہ فائدے کو پیش نظررکھنے سے ہی ’’مقامِ رحمۃ للعالمین‘‘ اپنی پوری وسعتوں کے ساتھ سمجھ آتا ہے اور اگر اس کوپیش نظر نہ رکھا جائے توپھر آپ کی ’’شانِ رحمۃ للعالمینی‘‘ کا مفہوم سمٹ کربہت محدود ہوجاتا ہے۔

ممکن ہے کہ یہ بات کسی کواجنبی اور انوکھی معلوم ہومگر یہ ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے، جس کاانکار کسی صورت بھی نہیں کیا جاسکتا۔ نبی کریم ﷺ کی ایک اور حدیث دیکھئے! اسی بات کو یوں سمجھایا جارہا ہے:
میری اس دعوت وہدایت کی مثال جس کے ساتھ مجھے دنیا میں بھیجا گیا ہے، ایسی ہے، جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی، جب اس کی روشنی گردوپیش میں پھیلی تو وہ پروانے اور کیڑے جو آگ پرگرا کرتے ہیں ہر طرف سے امنڈ کراس میں کودنے لگے اسی طرح تم آگ میں گرنا اور کودنا چاہتے ہو اور میں تمہاری کمر پکڑ پکڑ کر واپس کھینچتا اور اس سے بچاتاہوں۔﴿مشکوٰۃ:جلد۱،ص82﴾

یہ دونوں حدیثیں نبی کریم ﷺ کی ’’شان رحمۃ للعالمینی‘‘ کو خوب نمایاں کررہی اور اس رحمت کے صحیح تصور کوبھی بیان کررہی ہیں، جس کاخلاصہ دولفظوں میں یوں کہاجاسکتا ہے کہ: ہمارے نبی ﷺ کی دعوت بھی رحمت ہے اور جہاد وقتال بھی رحمت ہے کیوں کہ دونوں کامقصود انسانیت کومعبود حقیقی سے جوڑنا اوراُس کی بغاوت سے باز رکھنا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مشہور صحابی رسول ہیں، انہوں نے بھی نبی کریم ﷺ کی ’’رحمت‘‘کو بیان کیا ہے اورا ن کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:
ان اللہ بعثنی رحمۃ مھداۃ، بعثت برفع قوم وخفض آخرین﴿تفسیر ابن کثیر﴾
بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدیہ کی ہوئی رحمت بنا کرمبعوث کیا ہے، ﴿اس رحمت کی تفصیل یہ ہے کہ﴾ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک قوم کو سربلند کرنے کے لیے اور دوسروں کو پست کرنے کیلئے مبعوث کیا ہے۔
اس سے دوباتیں معلوم ہوئیں:﴿۱﴾ نبی کریم ﷺ کی رحمت مومنوں کے لیے بھی ہے اور اس کا ظہور اہل ایمان کی عزت وسربلندی کی شکل میں ہوتا ہے ﴿۲﴾ نبی کریم ﷺ کی رحمت کافروں کے لئے بھی ہے لیکن اس کاظہور ان کی پستی اور ذلت کی شکل میں ہوتا ہے۔

یہ ایسا ہی ہے جیسے سورج کے طلوع ہونے سے پوری کائنات جگمگا اٹھتی ہے اور ہر چیز روشن ہوجاتی ہے لیکن ہر چیز کی چمک اس کی اپنی حیثیت سے ہوتی ہے ، اسی سورج کی کرنیں جب صاف وشفاف آئینے پر یا کسی ہیرے اوریاقوت پر پڑتی ہیں تو ان کی چمک اور جگمگاہٹ کے نظارے بڑے دلفریب اور دل پسند ہوتے ہیں جبکہ وہی روشنی جب کسی سیاہ جلے ہوئے پتھر پر پڑتی ہے تو اس سے اس کی سیاہی مزید نکھر کر سامنے آجاتی ہے۔ اسی طرح جو خوش قسمت نبی کریم ﷺ کی دعوت کو قبول کر لیتے ہیں وہ نورایمان سے منور ہوجاتے ہیں اور انہیں دنیا اور آخرت کی عزتیں ملتی ہیں اورجو اس دعوت کو قبول نہیں کرتے تو اس سے ان کی تباہی پر مزید مہرتصدیق ثبت ہوجاتی ہے۔ظاہر ہے کہ اس صورت میں اس رحمت کی شان میں کوئی کمی نہیں اور نہ ہی یہ بات ’’ مقام رحمت للعالمین‘‘ کے خلاف ہے بلکہ یہ اس شخص کی اپنی بدبختی ہے جو اس پر غالب آگئی ہے اور اس نے اِس رحمت کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔

رحمت للعالمین ﷺ کی شانِ رحمت کا ایک پہلو اور بھی ہے جو حضرت عبداللہ بن عباس (رض)سے منقول ہے، جسے علامہ ابن کثیر(رح) نے نقل فرمایا ہے:
ھو عام فی حق من آمن و من لم یومن فمن آمن فھو رحمۃ لہ فی الدنیا و الآخرۃ ومن لم یومن فھو رحمۃ لہ فی الدنیا بتاخیرالعذاب عنھم ورفع المسخ، والخسف والاستئصال عنھم ﴿تفسیرالبغوی﴾

یہ ’’رحمت‘‘ سب کو ﴿یعنی مومن اور کافردونوں کو﴾شامل ہے، چنانچہ جو آپ ﷺ پر ایمان لے آیا تو آپ ﷺ اس کے لئے دنیا میں بھی رحمت ہیں اور آخرت میں بھی، اور جو آپ ﷺ پر ایمان نہ لایا تو اس کے لیے صرف دنیا میں رحمت ہیں۔ اور کافرکے لئے یہ رحمت تین باتوں میں ہے:﴿۱﴾اس سے فوری عذاب کوموخر کردیا گیا ﴿۲﴾ اُن کی شکلیں مسخ نہیں کی گئیں﴿۳﴾ اِن کافروں پر بالکلیہ ختم کردینے والا عذاب مسلط نہیں کیاگیا۔

تفسیر کا یہ مفہوم بھی بالکل واضح ہے، اور اس نے دونوں طبقوں کی حیثیت اور ان کوحاصل ہونے والی رحمت کے پہلوؤں کی صاف نشان دہی کردی ہے۔ جس کے مطابق آپ کی رحمت سے مومن بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور کافر بھی مگر دونوں کے استفادے میں فرق ہے:
۱: مومن جو فائدہ اور رحمت پاتا ہے اس کادائرہ کار صرف دنیا تک محدود نہیں بلکہ آخرت میں بھی وہ اس سے مستفید ہوتا ہے اور کافر صرف دنیا میں مستفید ہوتا ہے، وہ آخرت میں اس سے محروم رہے گا۔ آخرت کے لحاظ سے مومن اور کافر میں جو فرق ہے وہ تو بڑی حدتک واضح ہے جس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں مگر کیا دنیا میں کافر اور مومن کو جو رحمت ملتی ہے وہ برابر اور یکساں نوعیت کی ہے؟ یہ بات سمجھنے کی ہے۔ تو عرض یہ ہے کہ ہرگز نہیں! بلکہ دنیا میں جو دونوں کو رحمت ملتی ہے وہ بھی مختلف اور الگ الگ نوعیت کی ہے۔

مومن کیلئے دنیا میں رحمت:
نبی کریم ﷺ مومن کے لیے دنیا میں رحمت ہیں:﴿۱﴾اس وجہ سے کہ آپ کی برکت سے ایمان کی دولت ملی﴿۲﴾آپ کی برکت سے بنیادی عقائد توحید، رسالت اور آخرت کا شعور ملا﴿۳﴾ آپ کی برکت سے معرفت الٰہی کا راستہ ملا﴿۴﴾ آپ کی برکت سے اللہ تعالیٰ کے محبوب اور ناپسند یدہ اعمال وافعال اور اخلاق وصفات سے آگاہی ملی﴿۶﴾ آپ کی برکت سے جینے کا سلیقہ سیکھا﴿۷﴾ آپ کی برکت سے فیض ربانی پانے کی راہیں کھلیں﴿۸﴾ آپ کی برکت سے کامل انسانیت کانمونہ ملا﴿۹﴾آپ کی برکت سے زندگی کے ہر شعبے میں عدل وانصاف اور خیر وبرکت کی راہنما تعلیمات ملیں﴿10﴾ آپ کی برکت سے محبان الٰہی کو جان کانذرانہ پیش کرنے کاسلیقہ اور میدان ملا۔

مومن کے لیے آخرت میں رحمت:
نبی کریم ﷺ آخرت میں بھی مومن کے لئے رحمت ہیں:﴿۱﴾ آپ کی شفاعت ملے گی﴿۲﴾گناہوں کی معافی ہوگی ﴿۳﴾ جنت کے درجات کی بلندی ملے گی ﴿۴﴾حوض کوثر سے سیرابی نصیب ہوگی ﴿۳﴾جنت میں داخلہ ملے گا﴿۵﴾ آپ پر ایمان اور اتباع کے طفیل شفاعت کی اجازت ملے گی﴿۶﴾ عرش کاسایہ نصیب ہوگا﴿۷﴾ایک بہت بڑی تعداد کو بغیر حساب وکتاب جنت میں داخلہ ملے گا﴿۸﴾جہنم میں داخل ہوجانے کے باوجود بھی بہت سوں کو وہاں سے نجات کا پروانہ ملے گا﴿۹﴾آپ کی امت کے اعضائِ وضوئ قیامت کے دن چمکتے ہوں گے اور یہ ان کا خاص شعار اور پہچان ہوگی﴿10﴾اور جنت کی تمام نعمتیں بھی آپ پر ایمان اور آپ کی اتباع کی برکات کا ثمرہ ہوں گی۔

کافر کیلئے دنیا میں رحمت:
یاد رہے کہ کافر دو قسم کے ہیں: ایک تو وہ جو کچھ عرصہ کفر پر رہے مگر دعوتِ دین یامسلمانوں کے جہادکی وجہ سے ایمان لے آئے تو اس کے لیے بھی حضور ﷺ رحمت ہوئے کیوں کہ دین بھی آپ لائے اور اس دین کی دعوت اوراس کے لیے جہاد کرنا آپ ﷺ کی ہی وراثت ہے، چنانچہ اب یہ شخص تو مومنین کی فہرست میں داخل ہوگیا اور مزیداُن تمام رحمتوں کامستحق قرار پایاجو اہل ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ نے مقرر کی ہیں۔

دوسری قسم کافروں کی وہ ہے جو کفرہی کی حالت میں مرے ہوں اور انہوں نے ایمان قبول نہ کیاہو تو کیا ان کے لئے بھی نبی کریم ﷺ رحمت ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جی ہاں! ان کے لیے بھی رحمت ہیں لیکن صرف دنیا میں اور اس کی تفصیل میں چار بنیادی نکات ہیں:

۱: آپ ﷺ جو تعلیمات لے کر آئے، ان میں عبادات کے علاوہ اخلاق اور معیشت ومعاشرت کی بھی مکمل رہنمائی موجود ہے، چنانچہ بہت دفعہ وہ کفار اگرچہ آپ ﷺ کی تعلیمات میں سے ایمان اور عبادات وغیرہ سے متعلق ہدایات کو تو قبول نہیں کرتے مگر بہت سی اخلاقی اور معیشت ومعاشرت سے متعلقہ تعلیمات سے اپنے اپنے ذوق اور طبیعت کے موافق فوائدحاصل کرلیتے ہیں جیسا کہ آج بھی بہت سے مغربی ویورپی ممالک میں عدالتی اور حکومتی معاملات میں بہت سی اسلامی تعلیمات سے استفادہ کرکے اپنے قوانین وضع کیے گئے ہیں، اس طرح نبی کریم ﷺ ان کے لیے دنیا کے لحاظ سے رحمت ٹھہرے۔

۲:نبی کریم ﷺ جب تک دنیا میں رہے تو بہت دفعہ آپ کی دعائوں اور صبر وحوصلے کی وجہ سے کافروں پر عذاب نہ آیا،جیسا کہ طائف کے واقعے کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام اُن پر عذاب نازل کرنے کی مکمل تیاری کے ساتھ آئے تھے مگر نبی کریم ﷺ نے اسے منظور نہ فرمایا اور ان کے لیے ہدیات کی دعا فرمادی اور اس طرح وہ عذاب سے بچ گئے۔

۳:نبی کریم ﷺ نے یہ دعا فرمائی کہ میری امت کو مسخ کا عذاب نہ دیا جائے۔گزشتہ بہت سی قوموں میں ایسا ہوا کہ جب ان کی سرکشی حد سے تجاوز کر گئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی شکلیں مسخ کردی ۔مثلاً یہودیوں کی ایک قوم کو بندر بنادیا گیا ۔ آج بھی صدیاں گزرنے کے باوجود ان کفار کی حد سے بے پناہ تجاوزات کے باوجود اگر ان کی شکلیں مسخ نہیں کی گئیں اور وہ انسانوں کی طرح ہی جی رہے ہیں تو یہ بھی نبی کریم ﷺ کی دعا اور شان رحمۃ للعالمینی کا مظہر ہے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ یہ عذاب بالکل ختم نہیں کیاگیا بلکہ قیامت کے قریب جب کفار خالص بے حیائ جانوروں سے بھی بدتر ہوجائیں گے تو اس وقت ان پر یہ عذاب آئے گا اوران کی شکلیں مسخ ہوجائیں گی جیسا کہ علامات قیامت والی احادیث میں ان کی تفصیلات موجود ہیں۔

۴: گزشتہ کافر قوموں پر عذاب کی ایک کیفیت یہ بھی تھی کہ اُن پر ایسا عذاب نازل کیاجاتا جو اس قوم کو جڑ سے ختم کرکے ان کانام ونشان ہی مٹا دیتا مگر نبی کریم ﷺ کی دعا کی برکت سے ایسا عذاب آپ کی امت کے کافروں سے ہٹا دیا گیا ہے، اب ان پر ایسا عذاب تو نہ آئے گا البتہ جہاد وقتال کی شکل میں ان کی تنبیہ کے لیے ان پر عذاب کاکوڑا برستا رہے گا جس سے باقسمت لوگ ہدایت اور ایمان کی طرف آجائیں گے اورصرف بد قسمت کافر اپنی ضد اور ہٹ دھرمی میں مارے جائیں گے ۔اس طرح اِن کی شرارتوں سے زمین پاک ہوجاتی ہے اور اِن کی نافرمانیوں کی وجہ سے اللہ تعالی کے جو عمومی عذاب نازل ہوتے تھے وہ رُک جاتے ہیں۔
الغرض اگر نبی کریم ﷺ کی رحمت سے مسفید ہونا ہے تو آپ کی تعلیمات کواپنا ہوگا اور اگر آپ ﷺ کی رحمت کو محفوظ بنانا اور عام کرنا ہے تو جہاد کرنا ہوگاورنہ اس کے بغیر شان رحمۃ للعالمین کاتصور بھی ادھورا ہے اور اس کا فیض بھی ادھورا رہتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم ﷺ کی شان رحمۃ للعالمینی سے دنیا اور آخرت میں خوب خوب فیض یاب فرمائے اور آپ کی شان رحمۃ للعالمینی کے تحفظ اور اِتمام کے لیے دین حق کی دعوت اور جہاد فی سبیل اللہ کے لیے قبول فرمائے۔
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَ ھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّاب ﴿آمین﴾
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 340753 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.