12لاکھ ٹیکس چورو ں کی شناخت

تم قتل کروہو کہ کرامات کر وھو!

یہ ایک سانحہ سے کم نہیں کہ بے شمار معاملہ میں نیک دل اوربھولے بھالے انسان کی ذہنیت بدلنے لگی ہے ، ٹیکس کے معاملہ کو ہی لے لیں کہ بہت سے پاک طینت افراد اس کی چوری کو کوئی بڑا مسئلہ نہیں سمجھتے ہیں ، ان کے خیال کے مطابق حکومتی قانون کی خلاف ورزی یا حکومتی سرمایوں کی چوری کوئی بڑا جرم نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ بے شمار افراد ٹیکس چوری کو فن تصور کرتے ہیں اور یہ قبیح عمل انجام دینے میں ذرا بھی جھجھک محسوس نہیں کرتے ہیں ۔ 11فروری 2013کی ہی بات ہے ، ایک خبر نظر سے گزری ، پڑھ کر بہت افسوس ہوا اور معاشرہ کی ذہنیت پر یک گونہ حیرت بھی ۔ فائننس منسٹری کے حوالہ سے خبر تھی کہ محکمہ انکم ٹیکس نے 12لاکھ ایسے افراد کی شناخت کی ہے ، جو ٹیکس چوری میں ملوث ہیں ، 4.7کروڑ انفارمیشن ریکارڈ کے مطابق ان کی شناخت ہوئی ہے ، محکمہ نے یہ بھی کہا کہ ہے ’پین‘رکھنے والے کوئی 35,170کو ٹیکس کی اداائیگی کے تعلق سے خطوط ارسال کئے جائیں گے ۔

فی الواقع ٹیکس کی رقم ملکی فلاح و بہبود کے لئے بڑا سرمایہ ہے ، ظاہر ہے اس رقم کی حفاظت کرنا ملک کے تمام باشندگان کے لئے ضروری ہے ، ٹیکس دہندگان کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ نیک نیتی سے اس کی اداائیگی کریں اور حکومت و انتظامیہ اس سرمایہ کو ضائع ہونے سے بچائیں ، مگر بد قسمتی کی بات ہے دونوں کی کوتاہیوں سے اس کا سرمایہ ضائع ہونے لگا ہے ، ٹیکس دہندگان ،اس کی چوری کو فن تصور کرتے ہیں تو حکومتی افراد، اس کے سرمایوں کو ضائع کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے ، حالیہ ساڑھے تین سو کروڑ کا ہیلی کاپٹرگھوٹالہ تو درا صل اسی قبیل سے ہے ، اس پر مستزاد بسااوقات کارپوریٹ گھرانہ سے ملی بھگت کرکے حکام ٹیکس وصولی میں وہ کرشمہ کرتے ہیں ، جس کی اجازت معاشرہ دیتا ہے اور نہ ہی ملکی قانون ۔

12لاکھ ٹیکس چوروں کی شناخت توکرلی گئی ہے ، ظاہر ہے ان تمام کے نام یکساں طورپر سامنے نہیں آسکتے ہیں ، لیکن چند ایک نام ایسے ضرور ہیں ، جن کے تعلق سے معاشرہ میں نیک نامی کا شہرہ تھا ، ان سے لوگوں کی حد درجہ عقیدت تھی ، ایسے نامور افراد میں ایک واضح نام بابا رام دیو کا بھی ہے ، جن کی شناخت ایک یوگا گرو کے طور پر ہے ، مگر حالیہ دنوں رام دیو نے چند ایک ایسے کام کئے ، جن سے بعید از امکان نہیں کہ ان کی شبیہ مسخ ہوجائے ۔ پہلے تو انہوں نے حکومت مخالف فضا قائم کرنے کی کوشش کی، جس سے ایسا اندازہ ہوا کہ وہ بھی سیاست کی آلودگیوں سے متاثر ہوگئے ہیں ، سیاست کی نیرنگیاں انہیں اپنی طرف لبھانے لگی ہےں ، پھر انہوں نے یوگا کے پس پردہ سرما یہ کاری کو فروغ دینا شروع کردیا کہ کالادھن ’دھن‘انہیں بھی آلگی ، یہی وجہ ہے کہ ٹیکس چوری کے معاملہ میں بھی ماخوذ نظر آنے لگے ، نہ جانے کیوں آج کل متنازع بیان پر اتر آئے ہیں، مہاکمبھ میلے میں انہوں نے کہا کہ فیض آباد اوربنارس کا نام تبدیل کرکے علی الترتیب ایودھیا اورپریاگ رکھ دیا جائے ، ان کے اس بیان میں خواہ جوبھی مقاصد کارفرماہوں ، مگر فرقہ واریت کی بوآرہی ہے ، جس سے رام دیو کو کلی احتراز کرنا چاہئے ، ورنہ ان کی شخصیت مجروح ہوجائے گی ، یوگاگرو کا لبادہ تارتار ہوجائے گا اور فرقہ واریت کی کالک پت جائے گی ۔ یو گاگرو کے تمام ترکردار بالخصوص ٹیکس چوری پر انتہائی افسوس ہوتا ہے اور ایک افسانہ بھی ذہن میں گرد کرنے لگتا ہے ۔ اس کہانی کا مختصرا خلاصہ یہ ہے :’ منہ پر رام رام ، بغل میں چھری ‘یا قول وعمل میں تضاد ۔

فی الواقع اسی دو رنگی پنجرے میں ہندوستانی معاشرہ قید ہے ۔ اسی تناظر میں اس رپورٹ کا انکشاف ہونا بھی مضحکہ خیر ہے کہ غیر ممالک میں جمع کالادھن کی واپسی کی مہم چھیڑ نے والے یوگا گرو رام دیو خود مصیبت میں پھنس گئے ہیں ۔ بیرون ممالک میں سرمایہ جمع کرنے اور غیر قانونی طور پر سرمایہ کاری کرنے کی وجہ سے ان پر بھی کڑی نگاہ رکھی جائے گی ۔ اسی کے ساتھ ان کے زبردست کاروبار کے مدنظر 58کروڑ روپئے بطور ٹیکس اداکرنا لازم قرار دیا گیا ہے ، یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ انہوں نے 2009-10میں 120کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری کی ہے اور ان کے تما م ٹرسٹوں کی بھی تفتیش ہوگی ۔ کبھی یوگا گرو کو انکم ٹیکس کے معاملہ میں مستثنیٰ رکھا جاتا تھا ، مگر اب محکمہ انکم ٹیکس نے آیورویدک دوا کی خرید وفروخت کے تئیں58کروڑ روپئے ٹیکس ادا کرنے کا نوٹس انہیں بھیج دیا ہے ۔ بابا رام دیو اپنے ٹرسٹوں کے تحت رفاہی کام کروانے کا ڈھنڈورہ پیٹ رہے تھے ، تاکہ ٹیکس کی ادائے گی میں رعایت ملے ، مگر اب جبکہ یہ انکشاف ہوگیا کہ رفاہی کاموں سے زیادہ انہیں کاروباری سرگرمیوں میں دلچسپی ہے ، دھن کے بڑھانے میں یقین ہے تومحکمہ انکم ٹیکس نے انہیں نوٹس بھیج دیاہے ۔

صرف یہ کہنا مناسب نہیں ہوگاکہ بدعنوانی مخالف علم بلند کرنے کی وجہ سے یوگا گرو اس مصیبت میں پھنس گئے ، بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ ہر ایک کو اپنے کئے کا انجام بھگتنا پڑتا ہے ، آج نہیں تو کل یہ حقیقت واشگاف ہوتی ، ان کی سرمایہ کاری کی اصلیت عیاں ہوتی اور رفاعی کاموں کی آڑ میں جمع کئے جانے والے سرمایوں پر ٹیکس کا نفاذ ہوتا ۔ یہ بات تو دودوچارکی طرح عیاں ہے کہ بدعنوانی مخالف علم بلند کرنے سے ان کا زبردست فائدہ ہوا ہے ، عوامی مقبولیت بھی حاصل ہوئی ، ان کے عقیدت مندوں کا دائرہ بھی وسیع تر ہوا ۔ ظاہر با ت ہے کہ بدعنوانی کسی کا خاص مسئلہ نہیں ہے ، کسی صوبہ کا ایشو نہیں ہے ، کسی ایک ملک کا قضیہ نہیں ہے ، بلکہ یہ ایک عالمگیرمسئلہ ہے ، ہر شعبہ اس کی زد میں ہے ، ہرمیدان میں اس کا بول بالا ہے ، خاندانی سطح سے لے کر ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر یہ نمایاں ہے ۔ چنانچہ اس کے خلاف ہمت وجوانمردی سے آواز بلند کرنے والوں کی مقبولیت ہوگی ہی ، اس کی آواز کو ہرا یک اپنی آواز تصور کرے گا ، اس کی آواز پر لبیک کہنے والے ایک نہیں ہزا ر ہوں گے ، مگر ایسے اہم مسئلہ کو اپنی آوازسے قوت بخشنے والے بالفرض بد عنوان ہو ں، رشوت ستاں ہوںتو لو گوں کی عقیدت کا خون ہوجائے گا ، ا ن کی تحریک لرزہ براندام ہوجائے گی، اس کی آواز پست ہوجائے گی ، اس کی آواز سے آواز ملانے والے شرم وعار محسوس کریں گے ، کیونکہ انسانی فطرت تو یہی ہے ۔ رام دیوہو یا انا ہزارے، انہوں نے تو حکومت کو کس کے نشانہ ¿ تنقید بنایا ، ارباب سیاست کو ہدف ملامت بنایا ، سرمایہ داروںپر لعن وطعن کے تیر برسائے ، مگر کبھی اپنی پیشانی پر دمکتے داغ کو نہیں دیکھا ، دوسروں کی آنکھوں کا تنکا تو انہیں خوب نظر آیا مگر اپنی آنکھوں کا شہ تیر نہیں ۔ ملک گیر تحریک کو موثر بنانے کے لئے ضروری تھا کہ یہ دونوں بھی اپنے دامن پر لگے دھبوں کو صاف کرتے ۔

ملک گیر تحریک چلاکر بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے اقدامات کرنا کسی بھی ناحیہ سے غلط نہیں ہے ، بلکہ لائق داد ہے ، قابل تحسین ہے ۔ کیونکہ شراب جس طرح ’ام الخبائث ‘ہے ، اسی طرح بدعنوانی بھی ”ام الجرائم “ہے ۔ بالعموم شراب پینے کے بعد اوسان خطا ہوجاتے ہیں ، عقل ٹھکانے نہیں رہتی ہے ، بے خبری کے عالم میں شرابی خبیث سے خبیث ترین حرکت کربیٹھتا ہے ، بالکل اسی طرح بد عنوان ہر ناجائز کو جائز تصورکربیٹھتا ہے ، بدعنوان کو کسی کے مستقبل کی پرواہ ہوتی ہے اورنہ ہی کسی کے بھوک و پیاس کی ، کسی کے آشیانہ کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی کسی کی جان ومال کی ۔ چنانچہ بدعنوانی مخالف علم بلند کرنا خواہ کسی بھی سطح پر ہو معاشرتی ، ملکی اور سب سے بڑھ کر مذہبی نقطہ نظر سے بھی مستحسن ہے ۔ تاہم اس کے خا تمہ کے لئے بھی اٹھائے گئے قدم سے پہلے خود کا دیانتدار ہونا ضروری ہے ، حقارت آمیز لہجے ، بلاتحقیق وتفتیش کسی کو ہدف ملامت بنانے اور غیر ضروری دھما چوکڑی اورہڑبونگ سے کوئی تحریک موثر نہیں ہوتی ہے ۔

بابا رام دیو کو اپنی بدعنوانی کی طرف اب بھی توجہ نہیں ہورہی ہے ، صرف دوسروں پر ہی کیچڑ اچھال رہے ہیں ، بلا تفتیش نشانہ تنقید بنارہے ہیں ۔ چند دنوں قبل داؤد ابراہیم پر بھی الزام تراشی کی ہے کہ آئی پی ایل میں داؤد ابراہیم جیسے غنڈے کی سیا ہ دولت لگی ہوئی ہے ۔ راجستھان کے الور میں صحافیوں سے گفت وشنید کرتے ہوئے انہوں نے وزیر اعظم کو راست طور پر نشانہ بنا یاکہ جس وزیراعظم کی ناک کے نیچے 200لاکھ کروڑ کا گھوٹالہ ہوجائے ، وہ وزیرا عظم ایماندار ہے یا بے ایمان ، آپ خود سمجھ سکتے ہیں۔ رام دیو کو دوسروں کی ایمانداری کی پیمائش سے قبل خود اپنی بھی ایمانداری کا جائزہ لینا چاہئے تھا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا رفاہی کاموں کے پس پردہ سرمایہ کاری کرنا اورٹیکس ادا نہ کرنا ایمانداری کی دلیل ہے ؟کیا ٹیکس کی رقم رکھتے ہوئے ٹیکس ادا نہ کرنا دیانتداری کی مثال ہے ؟کیا اپنے عیوب کی پردہ پوشی اور دوسروں کی نقاب کشائی ہی شرافت کی دلیل ہے ؟کیا غیر معمولی تحریک چلانے والوں کے لئے دریدہ دہنی کا مظاہر ہ کرنا ضروری ہے ؟۔

بدعنوانی کوئی صرف سیاسی مسئلہ نہیں ہے ، بلکہ ہر شعبہ میں اس کا بول بالا ہے ، چنانچہ ہر سطح پر اس کے خاتمہ کے لئے ہر فرد اور ہر شعبہ کو آگے آنا چاہئے ، اورتو اور محکمہ انکم ٹیکس کو بھی ۔بدعنوانی کا فروغ اور کالے دھن کے جمع کرنے میں کسی نہ کسی حد تک اس محکمہ کا بھی دخل ہے ۔ بدعنوانی کے روک تھام میںملک وقوم کی بھلائی کا راز پوشیدہ ہے ، مثلاً ، غیر ممالک میں ہندوستانیوں کے جو سرمایہ ہے اسے واپس کرلیاجائے تو ہندوستان کا منظر نامہ ہی الگ ہوگا ۔

اندازہ کرنے والوں کا اندازہ ہے کہ چار سو لاکھ کروڑ کا کالا دھن اگر ملک واپس آجائے تو ہندوستان اقتصادیات میں نمبر1ہوسکتا ہے ، ہندوستانیوں کو بیس برسوں تک کسی قسم کا ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑے گا ، ایک ضلع کے حصہ میں60ہزار اور ہر گاو ¿ں کے حصہ میں 100کروڑ روپیہ آئے گا ، پٹرول 25 ،ڈیزل15، دال 20اور دودھ 6روپئے قیمت کے حساب سے ملیں گے ۔ ہر چہارجانب سے ہندوستان کی سرحدیں چین کی طرح مضبوط ہوجائیں گی ، ملک کے طول وعرض میں آکسفورڈ جیسی قابل قدر 1500یونیورسٹیاں قائم ہوسکتی ہےں ، پیرس کی طرح 28ہزار کلو میٹر تک ربڑ کی سڑکیں تیار ہو سکتی ہیں ، تقریبا ً 20ہزار اسپتال قائم ہوسکتے ہیں اور95کروڑ لوگوں کو رہائشی مکان دستیاب ہوجائے گا ۔

ظاہر بات ہے کہ اگر تمام سہولتیں دستیاب ہوجائیں تو ہندوستان جنت نشاں بن جائے گا ، چین وسکون کی فضا چھاجائے گی ، ہرہندوستانی اپنے پر فخر محسوس کرے گا ۔ یہ خواب اسی وقت شرمندہ تعبیر ہوسکتاہے ، جب کہ صد ق دل سے اپنے اپنے دل میں بدعنوانی مخالف تحریک چلائیں ۔ صرف دوسروں کو نشانہ تنقید بنانے اور بے پر کی اڑا کر سستی شہر ت کمانے سے کوئی فائدہ نہیں ۔ ملک کی حالت یوںہی دگرگوں رہے گی ، بے شمار افراد دانے دانے کو ترستے رہیں گے اوراہل ثروت محلوں میں داد عیش دیتے رہیں گے ۔

بہت خوشی کی بات ہے کہ محکمہ انکم ٹیکس نے بابارام دیو کے کالے کارنامے کو اجاگر کیا ہے اورانہیں 58کروڑ ٹیکس جمع کرنے کا نوٹس بھیج دیا ہے ، اسی طرح دیگر 12لاکھ ٹیکس چوروں کی شناخت کی ہے اور 35,170افراد کو ادائیگی ٹیکس کے لئے خطوط بھیجنے کی تیاری مکمل کرلی ہے۔ اب اس محکمہ کو اوربھی بیداری کاثبوت دینا چاہئے ، ان جیسے ٹیکس نہ ادا کرنے والوں پر نگاہ رکھنی چاہئے ، تاکہ بدعنوانی کا خاتمہ ہو اور ٹیکس کے سرمایوں سے دیگر بڑے کام ہوسکیں ۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 92579 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More