آج مسلمانوں کا کوئی بھی خیر
خواہ یا دانشور مسلمانوں کی ترقی کا راز معاشی ،اقتصادی ،تعلیمی اعتبار سے
مضبوط ہونا پتا تے ہیں ۔اور حکومت سے وقت سے ریزرویشن کا مطالبہ در مطالبہ
کیا جا رہا ہے ۔لیکن کانگریس حکومت کے دور میں تو سابق وزیر اعظم جواہر لال
نہرونے مسلمانوں کے ریزرویشن کو ختم کر دیا ہے اور صرف ختم نہیں بلکہ یہ
بھی شرط لگادی ہے کہ اگر ایک مسلمان نائی یا دھوبی کو ریزرویشن چاہئے تو
اسے پہلے مرتد ہونا پڑے گا گویا کہ ایک دھوبی ،نائی وغیرہ اگر ہندو ہے تو
ریزرویشن سے فیضیاب ہو گا اگر مسلم ہے تو وہ اس سے محروم رہے گا ۔جبکہ
انگریز ی حکومت نے 1933میں ریزرویشن کا نفاذ کیا تھا جس میں ہر پسماندہ
برادری کو ریزرویشن ملتا تھا وہ چاہئے ہندو ہوں یا پھر مسلمان ۔لیکن کیا
ریزرویشن اور معاشی اعتبار سے مضبوط ہونے میں ہی مسلمانوں کی ترقی کا راز
مضمر ہے ؟اگر ایسا ہے تو غلط ہے ایسا سوچنے والوں کو ابھی تک یہی خبر نہیں
ہے کہ عزت اور طاقت کا مدار دراصل کس چیز پر ہے ؟محض دولت ترقی اور نوکری
ہر گز وہ چیز نہیں ہے جو کسی قوم کو معزز اور طاقت ور بناتی ہو ۔مسلمانوں
کا ایک ایک فرد اگر لکھ پتی اور کروڑ پتی بن جائے مگر اس میں کردار کی طاقت
نہ ہو تو یقین جانئے کہ دنیا میں ہماری کوئی عزت نہیں ہوگی ۔جو آج ہمارے
ساتھ ہو رہا ہے وہ کردار اور اخلاقی زوال کی وجہ سے ہی ہو رہا ہے ۔
بخلاف اس کے اگر مسلمانوں میں درحقیقت اسلامی سیرت موجود ہو،صادق اور امین
ہو ،لالچ اور خوف سے پاک ہو،اپنے اصول میں سخت اور معاملات میں کھرے ہو،حق
کو حق اور فرض کو فرض سمجھنے والے ہو،حرام و حلال کی تمیز کو ہر حال میں
ملحوظ رکھنے والے ہو،اور اتنی اخلاقی قوت موجود ہو کہ کسی نقصان ڈر اور کسی
فائدے کی لالچ حق پرستی سے نہ ہٹا سکے اور کسی قیمت پر ہمارا ایمان نہ
خریدا جا سکے تو بخدا دنیا میں ہماری ساکھ قائم ہو جائے گی ۔دلوں میں
مسلمانوں کی عزت بیٹھ جائے گی ۔ہماری باتوں کا وزن کروڑ پتی کی پوری دولت
سے زیادہ ہوگا ۔ہم جھونپڑیوں میں رہ کر او ر بوسیدہ کپڑے پہن کر بھی دولت
کدوں میں رہنے والوں سے زیادہ احترام کی نظر سے دیکھیں جائیں گے ۔اور ہماری
قوم کو ایسی طاقت نصیب ہوگی جس کو کبھی نیچا دکھایا نہیں جا سکتا ہے ۔عہد
صحابہ ؓ کے مسلمان کس قدر معاشی اعتبار سے مفلس تھے،جھونپڑیوں اور خیموں
میں رہنے والے تہذیب کی شان و شوکت سے نا آشنا ،نہ ان کے پاس لباس درست،نہ
غذا درست اور نہ ہتھیار سے لیس تھے ،مگر ان کی جو دھاک اور ساکھ دنیا میں
تھی وہ آج تک کسی قوم کو نصیب نہ سکی ۔
ان کے پاس دولت نہیں تھی مگر کردار اور اخلاق کی طاقت تھی جس نے دنیا میں
اپنی عزت اور عظمت کا سکہ بٹھا دیا تھا ۔لیکن افسوس کہ اس کے بعد والوں میں
دولت بھی آئی شان وشوکت اور حکومت بھی آئی لیکن کوئی چیز بھی ان کو وہ عزت
اور طاقت فراہم نہ کر سکی جو کیریکٹر اور اخلاق کا بد ل ہو ۔
اس لئے آج مسلمانوں کیلئے جو سب سے ضروری اور اہم ہے وہ کردار سازی اخلاق
حسنہ میں پوشیدہ ہے بخدا اگر ہمارا کردار درست ہو گیا تو پوری دنیا میں پھر
سے اسلام کا سورج طلوع ہوگا ۔بقول علامہ اقبال
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں |