ہمارے پڑوسی خاتون کو اس کے شوہر
نے تشدد کرکے گھر سے نکال دیااور اب وہ ہمارے گھر میں والدہ کیساتھ بیٹھی
رورو کر کہہ رہی تھی کہ ماں باپ میرے نہیں بھائی کو خبر کرنہیں سکتی اب میں
کیا کرو ں یہ باتیں میری بیگم نے مجھے گھر میں داخل ہوتے ہوئے بتائی - میں
دفتر سے پہنچتے ہی گھر میں داخل ہوکر والد ہ کیساتھ بیٹھتا ہوں آج گھر میں
داخل ہونے کے بعد والدہ کمرے میں نہیں تھی سو میں نے اپنی بیگم سے والدہ کا
پوچھا تو بیگم نے بتا دیا کہ پڑوسی خاتون روتے ہوئے آئی تھی اور والدہ ان
کے ساتھ بات چیت کررہی ہیں شائد ان کے ساتھ گھر بھی جائے خیر آدھ گھنٹے بعد
والدہ سے بات ہوئی تو پتہ چلا کہ ان کے شوہر کو کسی پڑوسی نے گلہ کیا کہ آپ
کی بیگم نے گھر میں گندگی ڈالنے پر ان کے بچوں کو کوئی بات کہہ دی جس پر
خاتون کے شوہر نے بیوی کو تشدد کا نشانہ بنایا گیااور بعد میں گھر سے صبح
ہی باہر نکال دیا کہ میرے گھر سے باہر نکل جائو وہ خاتون مار کھانے کے بعد
اپنی رشتہ داروں کے گھر گئی تھی اور پھر رات کو اپنے گھر واپس آگئی - لیکن
شوہر اس کو گھر کا دروازہ کھول نہیں رہا تھا اسی باعث وہ ہمارے گھر آگئی
اور بعد میں میری والدہ نے اس کے ساتھ گھر جا کر اس کے شوہر کو باتیں سنائی
جس پر وہ اپنی بیوی کو گھر لے گیا اور میری والدہ گھر آگئی -
والدہ نے آتے ہی رونا شروع کردیا کہ بیٹیوں کی قسمت ہی ایسی ہوتی ہیں لوگ
سمجھتے ہیں کہ ہم بیٹیوں کو برا سمجھتے ہیں حالانکہ بیٹیوں کو برا کوئی
نہیں سمجھتا لیکن ہم ان کی قسمت سے ڈرتے ہیں- کہ خدانخواستہ اگر ایسا ویسا
کچھ ہوگیا تو پھرہر کوئی ماں باپ کو مورد الزام ٹھہراتا ہے اور اب جب شادی
ہوجاتی ہے تو پھر اس طرح کے حالات سے ڈر لگتا ہے میں نے اپنی والدہ کو بتا
دیا کہ اچھے اور برے ہر جگہ ہوتے ہیں اور جاہلوں کی طرح مارنے سے کچھ نہیں
ہوتا لیکن کچھ مردوں کے عقل پر پردے پڑے ہوتے ہیں-اگر وہ یہ سوچ لیں کہ جس
طرح وہ کسی اور کی بیٹی جو اس کی بیوی ہوتی ہے کیساتھ غلط رویہ تشدد جیسے
اقدامات کرتا ہے اگر اس کی اپنی بیٹی کیساتھ خدانخواستہ ایسا ہو تو پھر
کیسے محسوس ہوگا شائد یہی سوچ کر ہم جیسے لوگوں کے عقل کا م کرے - یہ ایک
روز کا واقعہ ہے جسے میں نے آپ کیساتھ شیئر کیا آپ روزانہ اخبار دیکھیں تو
نصف درجن کے قریب خبریں روزانہ ہر اخبار میں عورتوں پر تشدد کی لگی ہوتی
ہیں حیرت انگیز طور پر ان میں زیادہ تر واقعات شہروں میں ہونیوالے واقعات
کی زیادہ ہوتی ہیں گائوں کے حوالے سے ان میں خواتین کی قتل کی خبریں چھپتی
ہیں-ان میں ایسی خبریں بھی ہوتی ہیں جو کہیں پر ریکارڈ/رجسٹرڈ ہی نہیں ہوتی
اور خواتین پرگھریلو تشدد کے واقعات رونما ہوتے ہیں- زیادہ تر خواتین اپنے
ساتھ ہونیوالے برے سلوک/تشدد کے واقعات اپنے والدین کو اس ڈر سے نہیں بتاتی
کہ اس طرح ان کے گھر برباد نہ ہوجائے کیونکہ ہمارے معاشرے میں اگر اس طرح
بات سامنے آجائے تو پھر لوگوں میں دشمنیاں پیدا ہوتی ہیں اور خواتین کی
کوشش ہوتی ہے کہ ایسے واقعات کا پتہ ان کے میکے کو نہ چلے تاکہ ان کے گھر
برباد نہ ہو-گھریلو تشدد مشترک چیز ہے جو نچلے طبقے سے لیکر متوسط طبقے اور
اعلی طبقے کے لوگوں میں بھی عام ہے-
ہمارے معاشرے میں لوگ یہ سمجھتے ہیں عورتوں پر گھریلو تشدد کے واقعات صرف
نچلے طبقے یا متوسط طبقے میں زیادہ ہوتے ہیں لیکن یہ واحد چیز ہے جو ہر
طبقے کے لوگوں میں مشترک ہے بڑے بڑے تعلیم یافتہ افراد / خاندان میں بھی
بہووں کیساتھ غیر انسانی سلوک یاان پر تشدد کے واقعات رونما ہوتے ہیں اور
یہ ریکارڈ پر ہے کہ پشاو رہی میں ایک بہت بڑے خاندان کے مرد اپنے گھر والوں
پر تشدد کیا کرتے تھے جس کی اطلاع ان خواتین کے کے گھر والوں کو ہوئی تو
گھر والوں نے کوشش کی کہ حالات کنٹرول میں رہے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں
ہوا اور ان بہادر مردوں نے اپنی بیویوں کو طلاق دیدی اور پھر یہ شہر بھی
چھوڑ دیا- حالانکہ ان کی خواتین کا کوئی قصور نہیں تھا لیکن اپنی غلطی کی
سزا انہوں نے خواتین کو دی -غربت روزگار مہنگائی جہیز بیٹی یا بیٹا نہ ہونے
جیسے چھوٹے چھوٹے مسائل سے ہم لوگ اپنی گھروںکو جہنم بنا رہے ہیں-کچھ عرصہ
قبل ایک مقامی غیر سرکاری ادارے میں خواتین پر تشدد کے واقعات اور بیٹوں
اور بیٹیوں کے حوالے سے پروگرام ہوا جس قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے
کچھ لوگوں نے کہا کہ ہمارے حالات بہت حد تک تبدیل ہو گئے ہیں اوراب عورتوں
پر تشدد جیسے واقعات نہیں ہورہے اور ہم لوگ بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح نہیں
دیتیں - ان کی باتیں بھی کسی حد تک ٹھیک ہے لیکن اتنی بہتری نہیں آئی جتنی
کہ ہونی چاہئیے لوگوں میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے آگاہی بڑھ گئی ہیں
لیکن ان کی حالت پر کوئی فرق نہیں پڑا -اسی پروگرام میں شریک ایک خاتو ن کے
بقول اگر خواتین اپنی زبان پر قابو پائیں تو شائد ان پر ہونیوالے تشدد کے
واقعات میں کمی ہو ان میں بات میں بھی کسی حد تک وزن ہے کہ گھریلو تشدد کے
واقعات میں کچھ قصو ر خواتین کا بھی ہوسکتا ہے لیکن پشتو مثل کے بقول جو
کام زبان سے ہوسکتا ہے اسے ہاتھ یا چھڑی سے کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے -
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں پر ایک سال سے چودہ سال کی عمر کی
لڑکیاں آبادی کی چودہ فیصد پندرہ سے 64 سال کی عمر کی 53 فیصد اور 65سال سے
زائد سال کی عمر میںچار فیصد خواتین رہائش پذیر ہیں تعلیم جیسے شعبے میں
خواتین کی نمائندگی 42 فیصد ہے جنوری تا جولائی 2012 ء میں غیر سرکاری
ادارے کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں خواتین پر تشددکے واقعات سب سے زیادہ
1375 جبکہ سندھ میں 878 خیبر پختونخواہ میں 527 جبکہ بلوچستان میں یہ
واقعات 352ریکارڈ کئے گئے تھے یہ ایک سال قبل کے واقعات تھے اس میں مسلسل
اضافہ ہورہا ہے سال 2000سے 2012 تک ریکارڈ کئے گئے واقعات کے مطابق گھریلو
تشدد کاروکاری ریپ جلانے اغوائیگی زبردستی کی شادی اور پولیس تشدد جیسے
واقعات خواتین میں مسلسل بڑھ رہے ہیں - کسی زمانے میں قبائلی علاقوں میں
خواتین کی بے حرمتی اور بے عزتی کے واقعات نہیں ہوتے تھے لیکن اب ان علاقوں
میں بھی اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہورہاہے اور انہیں نشانہ بنایا جاتا ہے
جس کی واضح مثال خیبر ایجنسی کے مختلف علاقوں میں خواتین کی ہلاکتوں اور
انہیں نشانہ بنانے کے مسلسل واقعات ہیں- |