حکمران اور پولیس معاشرتی بگاڑ میں حصہ دار

ایک دفعہ ایک بادشاہ نے ایک محنت کش کے گدھوں کو ایک قطار میں چلتے دیکھامحنت کش کو بلایا اور پوچھا یہ کس طرح سیدھے چلتے ہیں محنت کش نے کہا جو لائن توڑتا ہے اس کو سزا دیتا ہوں بادشاہ بولا میرے ملک میں امن و امان ٹھیک کر سکتے ہومحنت کش نے حامی بھر لی اور بادشاہ کیساتھ چل پڑادارالحکومت پہنچتے ہی عدالت لگا لی‘ چور کا مقدمہ آیا تو چور کو ہاتھ کاٹنے کی سزا دی جلاد نے وزیراعظم کی طرف اشارہ کیا کہ چور کو انکی سرپرستی حاصل ہے محنت کش نے پھر حکم دیا چور کا ہاتھ کاٹا جائے وزیراعظم سمجھا شاید جج کو پیغام کی صحیح سمجھ نہیں آئی وہ آگے بڑھا محنت کش کے کان میں کہا کہ یہ اپنا آدمی ہے محنت کش نے بطور جج فیصلے کا اعلان کیا چور کا ہاتھ کاٹا جائے اور وزیراعظم کی زبان کاٹ دی جائے بادشاہ نے فیصلہ پر عمل کرایا آگ و خون کی لپیٹ میں آئے ہوئے ملک میں ایک فیصلہ سے ہی مکمل امن قائم ہو گیااگر گنہگار کی سفارش کرنیوالی زبان کاٹ دی جائے اگر اپنوں کی سرپرستی چھوڑ دی جائے اگر مخالفین کو پھنسانے کی سیاسی چالیں بند کر دی جائیں تو گولیاں بھی بند ہو جائیں گی اور قتل و غارت بھی رک جائیگا امن بھی قائم ہو جائے گا۔اس کہانی کا آپ کو سنانے کا مقصد یہ کہ کہ آج کل ہمارے ملک کے حالات بھی ایسے ہی ہیں ہر طرف آگ و خون کا کھیل جاری ہے دہشت گردی ،مہنگائی ،بے روزگاری،امن و امان کی ناقص صورت حال کی وجہ سے عوام کا جینا دو بھر ہو چکا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں قانون صرف غریب کے لئے ہے جبکہ امیراپنی دولت کے بل بوتے پربڑی آسانی سے اسے خریدلیتے ہیں جس کی بڑی مثالیں حالیہ رونماء ہونے والے واقعات ہیں کراچی جو کہ پاکستان کا معاشی حب ہے اور پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے وہاں پر ہر روز کئی گھرانوں کے چراغ گل ہو رہے ہیں ہر روز پانچ دس آدمی ایسے مار دیے جاتے ہیں کہ جیسے انسان کی کوئی قدر ہی نہ ہو جبکہ وہاں کی حکمران جماعتیں جن میں سب ہی جماعتیں شامل ہیں ایسے مزے سے سو رہی ہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو یہ سب کیا ہے ؟یہ سب ان حکمران ٹولے کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے ملک میں امن و امان قائم رکھنا،جرائم کو ختم کرنا اور عوام کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرنا ہر حکومت کا اولین فریضہ ہے سابقہ حکومتوں سے لے کر موجودہ حکومت تک امن و امان کی ناقص صورتحال اور پولیس مظالم کیخلاف عوام اور میڈیا نے بہت واویلا مچایامگر ہر حکومت پولیس کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتی رہی اور مزے کی بات یہ ہے کہ پولیس خود ان کے ہاتھوں کھلونا بننے کے لئے تیار نظر آتی ہے جس سے پولیس بے راہ روی کا شکار ہوئی اور اپنی من مانیاں اور کارروائیاں کرنے میں فخر محسوس کرنے لگی ہے جرائم کی شرح میں اس قدر ہولناک اضافہ ہوا کہ جسے سن کر جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے جسکا ذکر میڈیا اور اعلی عدالتیں انتہائی دکھ اور کرب کے ساتھ کر تی رہتی ہیں پولیس والوں نے بھی کرپشن رشوت کی لعنت زدہ تالاب میں شرم و حیا کی وردی اتار کر بے حیائی کا لنگوٹ پہن کر خود کو غیر موسم میں تر و تازہ رکھا پولیس کی وردی کی احیاء قانون کا احترام قانون کی پاسداری شہریوں کے جان و مال کا تحفظ اب اتنے بڑے معاشرے میں خورد بین سے بھی نظر نہیں آتا یہ تھانیدار اور عام سپاہی آج لاکھوں کی جائیداد کے مالک بنے ہوئے ہیں وہاں اعلی ترین عہدیداروں نے بھی جھوٹے مقدمات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرانے کی زحمت گوارہ نہیں کی پولیس کے اعلی افسران کا کہنا ہے کہ تھانوں میں 90%مقدمات جھوٹے درج ہوتے ہیں جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ معاشرے کی بگاڑ میں سب سے زیادہ حصہ پولیس کا ہے جس کی تازہ مثال کراچی میں ہونے والے قتل کے کیس میں پولیس سرجن کی جانب سے ملزم کی عمر کو کم ثابت کرنا اور بعد ازاں میڈیکل رپورٹ میں اس کی عمر زیادہ ہو جانے جیسے واقعات پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں لیکن یہ پولیس ہمارے ہاں ہی اتنی بدنام اور بری کیوں ہے ؟ یہ کسی نے نہیں سوچا جبکہ اس کے برعکس دوسرے ممالک کی پولیس کا رویہ عوام کے ساتھ دوستانہ ہوتا ہے اور وہاں کرپشن کی شکایات بھی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں اس کی بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے کارکنوں کو پولیس میں کھپانا ہے تاکہ وہ مشکل وقت میں اپنی جماعتوں کا ساتھ دے سکیں ہمارے ہاں پولیس جو جھوٹے مقدمے درج کرتی ہے ان جھوٹے مقدمات میں غریب اور شریف شہریوں کی تذلیل اور پیسے کا ضیاع اور کربناک ذہن لئے لوگ نہ صرف معاشی بدحالی میں ڈوب کر انتہا پسندی کی طرف راغب ہوتے ہیں بلکہ پولیس کے رویے سے ان کی باقی زندگی جیلوں کی نظر ہو جاتی ہے اعلی حکام زمینی حقائق سے بھی یقیناََ بے خبر نہیں ہونگے کیونکہ جب بھی کوئی پولیس کا افیسر کسی وجہ سے معطل ہوتا ہے تو یہی یہی اعلیٰ فسران ہی ان کو بے گناہ قرار دے کر دوبارہ معاشرے کے بگاڑ میں حصہ ڈالنے کے لئے بجوا دیتے ہیں چہرے اور نظام بدلنے سے نہیں بلکہ پولیس والے اپنی ذہنیت بدل کر ہی لوگوں کو تحفظ فراہم کر سکتے ہیں جھوٹے مقدمات کی آڑ میں مخصوص مفادات رکھنے والے عناصر کس طرح پولیس کے گلے میں لعنت کا طوق ڈال کر مظلوم لوگوں کو بدنام کر کے ذلیل و خوار کر رہے ہیں جھوٹے مقدمات میں حالات وہ نہیں ہوتے جو نظر آتے ہیں اصلیت کا پتہ بھی پولیس کو ہوتا ہے مگر پیسے کی چمک پولیس کو اندھا کر دیتی ہے اوپر کی کمائی کھانے سے انکی زبان گنگ اور کان بہرے ہو جاتے ہیں وقت گزرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اصل معاملہ کیا تھا اس بات پر کسی کو حیرت زدہ نہیں ہونا چاہیئے پنجاب میں خادم اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ جرائم کی شرح میں نمایاں کمی کی جائے سب سے پہلے خادم اعلی نے انکی تنخواہوں میں اضافہ کیا تاکہ پولیس معاشی فکر سے آزاد ہو کر جرائم اور جرائم پیشہ افراد کی سرکوبی کیلئے ہمہ تن گوش ہو کر کام کرے جس کے بعد وہ اچھے نتائج کی توقع کر رہے تھے لیکن سب بے سود ہوا اس بات کا برملا اظہار وزیراعلی ٰ نے خود بھی کیا کہ پولیس کی تنخواہوں میں کیا جانے والا اضافہ ان کو سیدھے راستے پر لانے میں مدد گار ثابت نہیں ہو سکا پولیس کی من مانیوں ،بے ضابطگیوں، رشوت اور ناقص کارکردگی کے باوجود خادم اعلی کے حوصلے پست نہیں ہوئے انہوں نے اپنی بہترین حکمت عملی اور اپنے ساتھیوں کی مشاورت سے ایسے اعلی افسران کا انتخاب عمل میں لا کر امن و امان کی بہتر صورتحال اور جرائم کی شرح میں نمایاں کمی کی جو کوشش کی ہے یہ ایک خوش آئند اقدام ہے اور جب تک ہماری صفوں میں شامل کالی بھیڑوں کو باہر نہیں نکالا جائے گا اور ان کے ہاتھ اور زبانیں نہیں کاٹی جائیں گی اس وقت تک حقیقی معانوں معاشرے میں حقیقی امن قائم نہیں ہو سکتا آخر میں حضرت علیؓ کا قول نقل کر رہا ہوں کہ ایک ملحد معاشرہ تو ہو سکتا ہے کہ تباہی سے بچ جائے پر وہ معاشرہ تباہ ہونے سے نہیں بچ سکتا کہ جہاں انصاف ناپید ہو جائے اس بات کے تناظر میں اعلیٰ حکام کو ایسے عملی اقدامات کرنے چاہئیں جہاں غریب مظلوموں کی آواز ان تک آسانی سے پہنچ سکے اور اگر معاشرے کو بگاڑ سے بچانا ہے تو پولیس جیسے انتظامی محکموں میں بھرتیوں کو میرٹ کے ترازو میں تولنا ہو گا دوسری صورت میں احسان کے بدلے احسان جیسے فارمولے معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتے رہیں گے اور ان کو روکنا ممکن نہ رہے گا ۔
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 227036 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More