تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی

دہلی (دسمبر) میں سنیما دیکھ کر واپس اپنے مرد دوست کے ساتھ گھر واپس ہونے والی نوجوان لڑکی کی عصمت ریزی پھر اس کی حسرت ناک موت نے غیر ذمہ دار اور سنسنی پھیلانے کے متلاشی ذرائع ابلاغ (خاص طور پر ٹی وی چینلز) نے سارے ملک کو ایک طرح سے ہلاکر رکھ دیا تھا۔ تمام اہم مسائل کو بالائے طاق رکھ دیا گیا تھا۔ اب چند دنوں سے یہ معاملہ کچھ ٹھنڈا ہوا ہے تو اس واقعہ (جس کی وجہ مشرقی اقدار و روایات کو پامال کرتے ہوئے مغرب کی اندھی تقلید کے سوا کچھ نہیں ہے) کا نتیجہ یہ بھی ہوا ہے کہ اسلامی معاشرہ کی خوبیاں سامنے آئی ہیں بغیر اسلام کا نام لیے بغیر اسلامی معاشرہ کی دونوں جنس پر عائد کردہ پابندیوں لوگوں نے بیان کیں گوکہ ان لوگوں کی بات پر فوری توجہ نہیں دی گئی بلکہ ایک طرح سے مسترد کردیا گیا اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو وہ طبقہ ہے جو ’’مادر پدرآزاد معاشرہ کا قائل ہے جو ان آزادیوں (ہمارے نزدیک عیاشیوں) سے دستبردار ہونا پسند نہیں کرتا ہے جو مغرب سے خاص طور پر مشرقی تہذیب کا اثر ختم کرنے کے لئے درآمد کی گئیں ہیں یا دوسری جانب وہ لوگ ہیں جن کو یہ خطرہ نظر آتا ہے کہ ان شرائط و پابندیوں کے نفاذ سے اسلامی معاشرے و طرز زندگی کی چھاپ ان پر نمایاں ہوگی اور اس سے اسلام کا فروغ ہوسکے گا حالانکہ ہم نے خود دیکھا ہے کہ آج سے (40تا45) سال قبل تک نچلے متوسط طبقے کے مسلمان گھروں میں ہی نہیں ہندو گھرانوں کی خواتین بھی پردہ نہ کرنے کے باوجود بھی غیر مردوں سے آزادانہ میل جول سے احتراز کرتی تھیں۔ چاچی اور موسی کہہ کر مخاطب کی جانے والی ماں کی سہیلیاں بھی لڑکوں کے سامنے سرڈھانپنا ضروری خیال کرتی تھیں لیکن ان خواتین کے بارے میں مسلمان عورتوں کی نقل کرنے کی بات کوئی نہیں کہتا تھا کیونکہ ذہن فرقہ پرستی اور اور اسلاموفوبیاسے متاثر نہ تھے۔

ان اسلامی سزاؤں کو جو بربریت کی علامت سمجھی جاتی تھیں اب ناگوار محسوس نہیں ہوتی ہیں بلکہ زانی کیلئے سزائے موت کا مطالبہ کرنے والے وہی لوگ ہیں جو سزائے موت کو برخواست کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔

آر ایس ایس کے رہنماؤں کے علاوہ بعض دوسرے ہندو مذہبی رہنماؤں نے بھی خواتین کے طرز زندگی پر اعتراض کرتے ہوئے ان کے طور طریقوں کو بدلنے کا مطالبہ کیا یا اس لڑکی کے طور طریقوں پر اعتراض کرتے ہوئے اس لڑکی کی بربادی میں اس کو بھی شریک بتایا آر ایس ایس کے صدر اور دوسرے مذہبی رہنماؤں کے عورتوں پر اعتراضات اور مشوروں پر بھی بڑا ہنگامہ اٹھا جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ اس ملک میں سچ اور کھری باتوں کو لوگ سننے کے بھی روادار نہیں ہیں۔

ملک پر مغربی اثرات تو خاصے عرصے پھیل رہے تھے لیکن ان کے فروغ میں میڈیا کا اثر بھی ظاہر ہے لیکن اس کو فروغ دینے اور ان کو برقرار رکھنے میں عالمی صیہونیت اور اسرائیل کے ذرائع ابلاغ پر اثرات نے کھل کر اثر دکھایا بلکہ دیکھا جارہا ہے کہ اس کی چمک دمک نے لوگوں کو مسحور کررکھا ہے اس لیے اسلامی تہذیب نہیں بلکہ ہندوستانی تہذیب کے احیاء کی بات کرنے والے کو نشانہ بنانا ضروری سمجھ لیا گیا ہے۔

اس واقعہ کے بعد کرپشن کے خلاف مہم چلانے والے انا ہزارے، بابا رام دیو اور سب سے زیادہ سرگرم عمل کجریوال اور ان کی عام آدمی پارٹی نہ جانے منظر نامہ سے کیسے اور کہاں؟ غائب ہوگئی حالانکہ کرپشن جوں کا توں برقرار ہے بلکہ اور بھی کئی تحریکات نہ جانے کہاں غائب ہوگئیں۔ ہم قارئین کو یاد دلادیں کہ پاکستان میں طالبان کی مخالف بلکہ اسلامی اقدار و تعلیمات کی مخالف بدنام زمانہ امریکی ایجنٹ ملالہ یوسف زئی پر طالبانی حملہ کے ڈڑامے کے بعد پاکستان میں بھی مخالف امریکہ، حکومت اور ڈرون حملے بند کروانے کی تحریکیں بھی منظر نامہ سے غائب ہوگئی تھیں گویا اصلی اور عوامی تحریکوں کو ختم کرنے کے لئے مصنوعی اور جعلی واقعات پر مصنوعی اور جعلی تحریکوں کا سہارا لینا کامیاب ثابت ہوتا ہے۔

اس واقعہ کے بعد اس بات کی بلکہ کم سے کم اتنی توقع رکھی جاسکتی ہے کہ تمام مغرب زدہ گھرانوں میں نہ سہی تاہم زیادہ تر گھرانوں میں لڑکیوں کی بے جا آزادی پر قدغن ضرور لگے گی آج سے تقریباً بارہ تا پندرہ سال قبل تک لڑکیوں اور خواتین میں مغربی لباس جینز ٹی شرٹس اور بغیر آستین والے کرتوں ، شرٹس اور بلوز کا رواج کم تھا بیشتر غیر مسلم لڑکیوں بھی ’’شریفانہ‘‘ طرز کا لباس شرٹس شلوار مع دو پٹوں کے استعمال کرتی تھیں اب تو مسلمان لڑکیاں بھی نہ صرف دوپٹے سے آزاد ہیں بلکہ جینز وغیرہ پہن کر بے غیرتی وہ بے شری کا شکار ہیں۔ ہر قسم کے سنسر اور پابندیوں سے آزاد ٹی وی چینلزنے معاشرہ میں بڑی گند پھیلائی ہے سب سے پہلا اصلاحی قدم یہ اٹھانا چاہئے کہ ٹی وی چینلز پر ویسا ہی سنسر لگانا چاہئے جو 1970ء تک یا اس کے چند سال بعد تک فلمی دنیا پر تھا ان ٹی وی چینلز نے عورتوں کو یہ تاثر دیا ہے کہ عورت کا پہلا فرض خود کو خوب صورت بنانے و دکھانے کی کوشش، میک اپ، عمدہ لباس اور ہر قسم کا فیشن کرنا محبت کرنا، ساس نندوں سے لڑنا میاں کو اپنے حسن و بے شرمی و بے حجابی سے مسحور کھنا ہے۔ سنسر کی پابندیاں لگاکر ان برائیوں کو مٹانے کی موثر کوشش ضروری ہے ورنہ ہمارے ٹی وی چینلز معاشرتی خرابیوں میں اضافہ کا موجب بنے رہیں گے۔

آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے شادی کو ’’معاہدہ‘‘ قرار دیا تو اس وقت بلاشبہ شادی کے حوالے سے اسلامی تعلیمات و احکام ان کے ذہن میں ہوں گے۔ شادی کی بنیاد نکاح ہے اور نکاح کو عربی میں بلکہ شرعی اصطلاح میں ’’عقد‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس عقد یا معاہدہ کو بھی کہا جاتا ہے اس لیے شادی کا تصور شوہر اور بیوی کے مابین معاہد ہے اس لیے رجسٹرار کے دفتر کی ’’سیول میریج‘‘ عقد کے بغیر جائز شادی نہیں ہے۔ ہندووں کے ایک اور مذہبی رہنما مدورائی مٹھ کے سربراہ آدھینم نے ہندو خواتین کو مشورہ دیا کہ وہ بھی مسلمان خواتین کی طرح پردہ کریں۔ غرض کہ معاشرتی زندگی اور خواتین کی قابو سے باہر ہوتی ہوئی آزادی (جو بے راہ روی کی طرف گامزن ہے) پر روک لگانے کی ضرورت کا ذکر ہویا زنا کے مجرم کو سخت سزا دینے کی بات ہو۔ تمام تجاویز پر اسلامی تعلیمات کا پرتو نظر آتا ہے۔ یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ اسلام ایک ایسے معاشرہ کی تشکیل چاہتا ہے جو بے راہ روی، بے شرمی، بے حجابی اور فحاشی سے پاک ہو جبکہ یہودی یا اسرائیل ایک ایسے معاشرہ کا حامی ہیں جو بے راہ روی، بے حجابی بے شرمی اور فحاشی کا علمبردار ہو کیونکہ آج کل زندگی کے ہر شعبہ میں خاص طور پر ذرائع ابلاغ پر صیہونیت اور اسرائیل کا زور ہے غلبہ ہے اور میڈیا نے فرض کرلیا ہے کہ اس کو ملک اور سماج کے ہر مسئلہ پر پالیسی (حکمت عملی) کا تعین کرنا چاہئے اس لیے جس کسی نے زبان کھولی اس پر میڈیا کے معترضین اعتراضات کردیتے ہیں ہندوؤں کے مذہب کے پنڈتوں اور گروصاحبان اور پیشواؤں کو تک بخشا نہیں جارہا ہے اب ہندوستانی خواتین اپنے دیسی لباس کو اپنا لیں گی پھر درآمد شدہ مغربی اور یہودی کمپنیوں نے لباس کو ن خریدے گا؟ جدید فیشن کے لباسوں اور میک اپ و فیشن کی اشیاء کی فروخت کے لئے اتنا بڑا مارکٹ کھونا کوئی نہیں چاہے گا اس لیے عام معاشرتی طور طریقوں پر اعتراض کرنے والوں کی بولتی بند کی جارہی ہے۔

حکومت ہند کو بھی اپنے خلاف تحریکات کو روکنے اور مخالف حکومت رجحان کو ختم کرنے کے لئے اس قسم کے مسائل اور میڈیا کی تشہیر و پروپگنڈے سے دلچسپی ہے بلکہ وہ اس کی ہمت افزائی کرتی ہے اور اس کا نتیجہ حکومت ہند کے حق میں جارہا ہے۔

زنا کے ہر قسم کے و اقعہ کی سزا اسلام میں موت نہیں ہے۔ پہل اور اہم چیز تو یہ ہے کہ واقعہ زنا کے عینی شاہدین کی ضرورت اور شرائط قتل کے عینی شاہدین کے لئے درکار شرائط سے زیادہ سخت ہیں دوسرے زنا کے مرتکب شادی شدہ و غیر شادی شدہ کیلئے سزا الگ ہے شادی شدہ کو سنگسار اور غیر شادی شدہ کو کوڑوں کی سزا مقر ر ہے۔ زنا کے ملزم کو آسانی سے موت کی سزا نہیں دی جاسکتی ہے۔

ان تمام واقعات زنا جو ’’دہلی زنا واقعہ ‘‘کے بعد سامنے آئے ہیں ان کے تناظر میں زنا کے واقعات کی وجوہات معاشرے کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسلاموفوبیا کے زور کے باوجود دین اسلام کی حقانیت اور اسلام کے شرعی قوانین اور اسلامی نظام حیات کے اصولوں کی خوبیاں کھل کر سامنے آئی ہے اور جوبات کہتے ہوئے لوگ خلوت میں بھی ڈرتے تھے اب برسر عام و برملاکہہ رہے ہیں خاص طور پر عورت کی آزادی اور عورتوں کے رہن سہن اور طرز زندگی پر ہونے والے کھلے اعتراضات سے ثابت ہورہا ہے کہ اسلامی قانون ہرگز دقیانوسی نہیں ہیں بلکہ یہ ہر زمانے، ہر دور اور ہر معاشرے کے لئے نہ صرف قابل عمل ہیں بلکہ انتہائی مفید اور دور رس نتائج کے حامل ہیں۔ دوسری طرف مغربی معاشرہ کی اقدار و روایات کے کھوکھلے پان کااظہار ہوگیا ہے۔ یو ان ریڈلی نامی برطانوی صحافی و حشی ، جنگلی، بربریت کے علمبردار ظالم اور خونی طالبات کی قید سے آزاد ہوکر آزاد فضاؤں میں جاکر 2003ء میں مشرف بہ اسلام ہوکر دولت ایمان سے مالا مال ہوکر اسلامی شرعیت کے پابند اصحاب کو وحشی اور جنگلی کہنے والوں کے منہ پر بھرپور طمانچہ رسید کرتی ہے اس کو تشہیر و اہمیت دینے سے گریز کرنے والوں میں مغرب کے ساتھ حکومت ہند بھی شامل ہے۔ جب ہی اس کو 2010ء اور 2011ء میں ہندوستان آنے کا ویزا نہیں دیا گیا گویا مغرب کی خاتون سے اسلام کے مخالف خوف زدہ ہیں۔
’’پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے ‘‘
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 184774 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.