جنازے اور دھرنے

کوئٹہ میں گزشتہ روز بم دھماکے کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے پچاسی افراد کی تدفین کاشرعی عمل معطل کرکے دھرنا دیدیا گیا ۔احتجاج کرنے والے یقینا شدید غم و غصے میں ہیں۔لیکن کیا مرنے والوں کو فوری سپردخاک نہیں کرنا کوئی اچھا عمل ہے؟بلوچستان کے دارلحکومت میں جنوری کی 11تاریخ کو بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا لاشیں بھی تعداد میں اتنی ہی یعنی 85تھی اور ان کا تعلق بھی ہزارہ برادری سے تھا ،بعدازاں احتجاج کرنے والوں کے مطالبات پر بلوچستان کی حکومت کو معطل کرکے گورنر راج نافذ کردیا گیا حالانکہ مطالبہ بلوچستان کو فوج کے حوالے کرنے کا تھا۔

ملک کی حالت اس قدر بگڑی ہوئی ہے کہ یہاں کے لوگوں کا جینا محال ہوگیاہے کراچی ، کوئٹہ اور پشاور تو ایسے شہر بن گئے ہیں جہاں کسی روز کچھ نہ ہو تو معجزہ تصور کیا جانے لگا ہے ۔لیکن انتہائی افسوسناک بات یہ ہوگئی ہے کہ اب لاشوں کے ساتھ احتجاج کرنا ایک روایت بنتا جارہا ہے۔ لاشوں کے ساتھ احتجاجی دھرنا وطن عزیز میں کوئی نئی بات نہیں ۔لیکن ایک ساتھ درجنوں لاشوں کو لیکر سڑک پر بیٹھ جانے کا سلسلہ نیا ہے۔کراچی اور دیگر شہروں میں ماضی قریب میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے بھی اس طرح کے احتجاج کی مثالیں موجود ہیں۔یقینا لاشوں کے ساتھ دھرنا کی روایت ان سے ہی پروان چڑھی ہے۔اس روایت کو فوری روکنے کی اشد ضرورت ہے۔اس کے نتیجے میں ہم کچھ حاصل کرنے کے بجائے گنوارہے ہیں۔اس طرح کے اعمال سے ہم اپنی دنیا اور آخرت کو ازخود تباہ کررہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئٹہ، پشاور اور کراچی میں جو کچھ انسانوں کے ساتھ ہورہا ہے وہ قابل مذمت ہے۔لیکن ہم بحیثیت مسلمان بحیثیت انسان ازخود جو کچھ غیر اسلامی افعال کے مرتکب ہورہے ہیں وہ بھی کسی طور پر درست نہیں ہے۔

پیر کو صبح جاگنے کے بعد لاشوں کی تدفین نہ کیئے جانے کی خبر نے میرے ضمیر کو جھنجوڑ ڈالا۔خرابی صحت کے باوجود میں صرف اس ہی فکر میں مبتلا ہوگیا کہ ہماری قوم کیا کررہی ہے؟۔انہیں کس طرح روکا جائے اور کن جملوں سے ان کو سمجھا جائے کہ ” خدا کے لیے لاشوں کی بے حرمتی نہ کی جائے“ ان ہی سوچوں میں اللہ نے میرا دماغ مفتی امام دین کی جانب موڑ دیا اور میں نے ان سے موبائل فون پر رابطہ کیا۔ڈاکٹرمفتی امام دین کا تعلق دارالعلوم کراچی کورنگی سے ہے ان دنوں وہ دارالعلوم سے الحاق شدہ جامع مسجد مدرسہ بیت المکرم سے منسلک ہیں ۔میںنے ان سے پوچھا ” مفتی صاحب لاشوں کو دفنانے کے بجائے انہیں سامنے رکھ کر احتجاج کرنے کے بڑھتے ہوئے سلسلے پر ہمارا دین کیا کہتا ہے؟“۔یہ سلسلہ ہر لحاظ سے غلط اور مکروہ فعل ہے۔ اسلام میں اس کی اجازت نہیں ہے انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا۔ مفتی صاحب نے مزید کہا کہ اللہ نے فرمایا ہے کہ جب تم میں سے کسی کا انتقال ہوجائے تو اسے غسل و کفن کے بعد نماز جنازہ پڑھاکرسپرد خاک کردیا جائے اور اس میں جلدی کی جائے۔انہوں نے بتایا کہ جنازہ یا جنازوں کو کو لیکر گھومنا یا کسی جگہ رکھ کر بیٹھ جانا اللہ کے حکم کی نافرمانی ہے۔اللہ کے حکم کی نافرمانی پر اللہ خوش نہیں ہوتا بلکہ ناراض ہوجاتا ہے ۔ ہم سب کو اللہ کی ناراضگی سے بچنا چاہئے ۔انہوں کہا کہ جب اللہ ناراض ہو تو عذاب نازل ہوتا ہے۔ہمارے ملک میں جو کچھ ہورہا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی خلاف ورزیوں کا نتیجہ ہے ۔ہمیں زیادہ سے زیادہ توبہ کرنا اور استغفار کا ورد کرنا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ احتجاج کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں ،اس لیے دوسرے طریقے اپنائے جائیں ،کسی کو بھی مرنے والے کے جسم کو قبر سے باہر رکھ کر کر احتجاج کرنے کا حق نہیں ہے ۔

مفتی امام دین کی بات سو فیصد حق اور سچ ہے، لوگوں کو اپنے جذبات کو کنٹرول کرنا چاہئے ۔ ذرا غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ ملک میں ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکوں جیسی دہشت گردی کی کارروائیاں ” ایک تیر سے دو شکار “ کے مترادف ہیں ۔ دہشت گردی کے واقعات سے ایک طرف تو ملک بھر خصوصا کراچی ، پشاور اور کوئٹہ میں خوف وہراس بڑھتا جارہا ہے تو دوسری طرف اسلام اور پاکستان بدنام ہورہا ہے۔ان کارروائیوں میں یقینا اسلام دشمن غیر ملکی قوتوں کا ہاتھ براہ راست ہے ۔جن کا مقصد ایک طرف تو اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا دوسری طرف لوگوں کو یہ باور کرانا ہے کہ دو قومی نظریہ یا اسلام کے نام پر پاکستان کے قیام کا فیصلہ غلط تھا۔

ایسے میں جنازوں کی تدفین کے بجائے انہیں سامنے رکھ کر احتجاج کرنے کے واقعات اسلامی احکامات کی کھلم کھلا نفی اور ان کا مذاق اڑانے کے مترادف نہیں تو اور پھر کیا ہے؟ اس عمل سے شیطان اوراس کو ماننے والے مسلسل خوش ہورہے ہیںلیکن ہم غم وغصے کی جذباتی کیفیت میں صحیح اور غلط کی تمیز ہی بھول چکے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ آخر دہشت گردی کے زیادہ واقعات ان شہروں یا علاقوں ہی میں کیوں ہورہے ہیں جہاں لادین، لبرل اور اعتدال پسند حکومتی پارٹیوں کا غلبہ ہے پھر بھی وہ ان واقعات کی روک تھا م میںمسلسل ناکام ہے کیوں؟جبکہ دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک و زخمی اور متاثر ہونے والوں کی اکثریت معصوم اور بے گناہ لوگوں کی ہوتی ہے اور ان کا تعلق مسلمانوں کے گروپ سے ہوتا ہے۔

ذرا سوچئے اور بہت غور کیجئے شائد کسی نتیجے پر ہم پہنچ جائیں۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 165826 views I'm Journalist. .. View More