محبت ہی سے پائی ہے شفاءبیمار
قوموں نے ۔۔۔ کیِا ہے اپنے بختِ خفتاکوبیدار قوموں نے
ایک نہ ایک دن تاریخ کو اپنا فیصلہ صادر کرنا ہوتا ہے۔ قوموں کے عروج و
زوال کی داستانوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ جن ترقی پذیر اور زوال پذیرقوموں
نے ہمت وحوصلہ سے کام لیا، اپنی منزل کا تعین کیا پھر صبر،خلوص نیت اور
استقامت کے ساتھ محنت کی تو نہ صرف اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کیا بلکہ
دُنیا میں اپنا آپ منوایا۔موجودہ دور میں چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
ساتویں سے چودیں صدی عیسوی تک چین کا شمار ترقی یافتہ اقوام میں ہوتا تھا۔
اٹھارویں صدی میں چین کومرکزی ایشیاءمیں واضح برتری حاصل تھی۔ اُنیسویں صدی
میں یورپ نے سنٹرل ایشیاءکی طرف پیش قدمی کی تو چین نے مزاحمتی انداز
اپنانے کے ساتھ ساتھ دُنیا کے ساتھ تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینا شروع
کیا۔ریشم اور مصالحہ جات کے بدلے ہسپانیہ، برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ
تجارت شروع کی تو اس دوران افیون کھلے عام بکنے لگی۔
شنگ بادشاہ نے چین کو نشئہ کی لعنت سے بچانے کے لئے افیون بیچنے کے کاروبار
پر پابندی لگا ئی تو اُس وقت کی استعماری اور سامراجی طاقتوں نے چین کو
پہلے خانہ جنگی میں مبتلا کر کے افیم کے کاروبار کو عام کیا پھر براہِ راست
جنگ مسلط کردی اور ہانگ کانگ پر قبضہ کرلیا۔ایک وقت ایسا آیا کہ چین جیسی
محنتی قوم افیون کے نشہءمیں مبتلا ہو گئی۔ افیون کی کثرت نے ایسی تباہی
پھیلائی جسے کوئی نہ روک سکا۔ جس سے غربت اور بے روزگاری وبا بن کر پورے
ملک میں پھیل گئی اور چین کی پہچان سویا ہوا دیو بن کر رہ گئی۔چینی دوشیزاﺅں
کو برُدہ فروشوں کے ذریعہ سے امریکی سرمایہ کاروں کے آگے فروخت کردیا جاتا
اور مرد بیگار کیمپوں میں غلامی کرتے۔ پہاڑ کاٹ کر راستہ بناتے ، اسی
مجبوری اور بے کسی کی حالت میں جان دے دیتے۔
چین نے خانہ جنگی، باہمی اختلاف کو ترک کیا کم علمی، جہالت اور بیکاری جو
تما م برائیوں کی جڑ ہے سے چھٹکا رہ حاصل کرنے کی ٹھان لی۔ حالات کا رونا
رونے کی بجائے سوزِ یقین سے سرشار ہوکر اُمید، تعلیم اورنرم انقلاب کے
ذریعہ نئی منزل کا تعین کیا۔ چین نے حصول منزل کے لئے آباﺅ اجداد کی
پسماندگی کو پاﺅں کی زنجیر نہیں بننے دیا۔ چین نے مشکل اور کٹھن حالات کے
سامنے ہتھیارڈالنے کی بجائے ہمت ،حوصلہ،خلوص، لگن اور سخت محنت سے اپنا
کھویا ہو ا مقام اور مرتبہ حاصل کیا ۔چین نے دُنیا پر ثابت کر دیا کہ بڑائی،
عظمت اوردُنیا میں سپرپاور کا اعزاز خون بہانے، طاقت کے بل بوتے پردوسرے
ممالک کے وسائل پرنا حق قبضہ کرنے اوردوسروں کے امن سکون کو برباد کرنے میں
نہیںہے ۔بلکہ یہ مرتبہ محنت، محبت ،فلاحِ انسانیت کے کاموں، کمزور ملکوں
اور قوموں کی مدد کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ چین نے اپنے عمل سے امریکہ
بہادرجیسے عالمی سلامتی کے ٹھکیداروں کوپیغام دیا کہ، پہلے تم خود تو امن
اورآتشی کو اپنا شیوہ بناﺅپھرخودبخود پورے عالم میں امن اور سکون قائم ہو
جائے گا۔
چین نے پہلے اپنے آپ کو مضبوط کیا کیونکہ چین نے اس حقیقت کو پالیا تھا کہ
قوموں کو حق، طاقت کے بغیر نہیں ملتا ۔ اگر چین کمزور رہتا تو آج تک صرف
اپنا حق مانگتا رہتا اور برطانیہ کبھی چین کوہانگ کانگ واپس نہ کرتا۔ یہ
چین کی طاقت ہی تھی جس نے برطانیہ کو معاہدے پر عملدرآمد پر مجبور کیا۔چین
نے ایسا راستہ اختیا رکیا جو جنگ کے ذریعے حاصل ہونے والی بربادی اور
بدنامی سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کا موجب بنا۔آج عالمی بہادر ہونے کا دعویٰ
کرنے اور پورے عالم میں(دہشت گردی کے ذریعے) امن قائم کرنے کا داعی خود
اپنی کرنسی کے مقابلے میں چینی کرنسی کی قدر کم رکھنے کے لئے منتیں کرتا ہے
اور اپنے بڑے بڑے منصوبوں کی تکمیل کے لئے جاپان، جرمنی،اسپین ، فرانس کے
مقابلے میں چین کواہمیت دینے پر مجبور اور بے بس دکھائی دیتا ہے۔
چین اس وقت دُنیا کی سب سے تیز رفتار ترقی کرتی ہوئی معیشت ہے۔ سب سے زیادہ
برآمدات کے باوجود مزید غیرملکی زرِ مبادلہ کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔چین
بیرونِ ملک وسیع پیمانہ پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ آج چینی
زبان دُنیا میں سب سے زیادہ بولی جانی والی زبان ہے۔دُنیا بھر سے طالب علم
چینی زبان سیکھنے کے لئے چین اورہانگ کانگ کا رُخ کر رہے ہیں۔چین ہمارا سب
سے بڑا اور مخلص دوست ہے۔ چین نے ہمیشہ ایک سچے دوست کی حیثیت سے مشورہ
دیاکہ کشمیر کے موقف پر قائم رہتے ہوئے پاکستان کو اپنے تمام ہمسایہ ممالک
کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے ہوگے ۔
پاکستان نے جب ایٹمی دھماکے کئے اور اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے شدید
مشکلات اور زرِ مبادلہ کا بحران پیدا ہو گیا تو چین نے ہمیشہ کی طرح اس
مشکل اور کڑے وقت میںبھی بغیر کسی درخواست کے۰۰۵ ملین ڈالر کی امداد کی۔آج
موجودہ دہشت گردی کے حالات میںبھی چینی ماہرین مختلف منصوبوں پر کام کررہے
ہیں۔چینی انجینئرزاور ورکروں کی ہلاکتوں اور اغوا کے باوجود عظیم چین کہتا
ہے کہ ہم ہر حال میں پاکستانی عوام کے ساتھ ہیں ۔ہمیںمعلوم ہے کہ یہ
وارداتیں پاکستانی عوام کے دُشمن کررہے ہیں۔
اپنے دوست ملک چین سے ترقی اور عزت کا طریقہ سیکھتے ہوئے علاقائی، گروہی،
ذاتی ترجیحات کے لئے عرض پاک کو اپنے شہریوں کے لہوسے رنگنے کی بجائے
متوازن نقطہ نظر کے تحت وطن کے مفادات کو ترجیح دینی ہوگی۔ہمارے ملک میں
دستیاب خام مال، معدنی وسائل اور زرعی پیداوار کو بڑھانا ہوگا۔
اُجاڑا ہے تمیز ملت، آئین نے قوموں کو ۔ مرے اہلِ وطن کے دل میںکچھ فکر ِوطن
بھی ہے ؟
نوجوان نسل کی فکر کو ایک راستے پراور ایک منزل کی طرف لے جانے کے لئے
چھوٹے، بڑے شہروں سے وسیع و عریض دیہی علاقوں تک حب الوطنی، اتحاد، ملکی
آئین اور قوانین کی پاسداری کے لئے مستقل بنیادوںپر تبلیغ ، ترغیب کے
اقدامات کرنے ہونگے۔ سکول، کالج، یونیورسٹی مساجد، مدارس، مذہبی، روحانی ہر
طبقہ فکراور ہر سطح پر 1947 کی طرز پر قومی تحریک کے ذریعہ سے ایسا ماحول
پیدا کریں جو نوجوان نسل کو مزید انتشاراور موجودہ سخت حالات کے سامنے
ہتھیار ڈالنے سے بچائے اور نوجوان نسل کے اس اضطراب کو ایک طاقت بنا کر
مثبت تبدیلی کی طرف پیش رفت میں مددگار ثابت ہو۔
مرا رونا نہیں ، رونا ہے یہ سارے گلشن کا وہ گُل ہوںمیں، خزاں ہر گُل کی ہے
گویا خزاں مری
اے رب العزت ہمارے گناہوں کو معاف فرما اور ہمارے ملک پاکستان سمیت پُورے
عالمِ اسلام میں امن سکون عطاءفرما آمین ثم آمین یارب العالمین۔
اللَّھُمَّ الرحَم اُمَّةَ مُحمَّدِِرَحمَةََعَامَة ً ۔ اللَّھُمَّ اَصلِح
اُمَّةَ محمدِِ |