آخری مہلت

عدل وانصاف جل تھل ہوگیا ‘شرم وحیاءجاتی رہی ‘اقدار وحمیت اور غیرت ہوا ہوگئی ‘اخلاقی پستیاں انتہاﺅں کو چھونے لگیں‘ظلم وجبر اور تشدد معاشرے میں رچ بس گیا‘کرپشن ‘دھونس اوردھاندلی قوم کی پہچان بن گئی ‘انتشار اورخلفشار ہر گھر کی عادت بن گیا‘اتحاد واتفاق پار ہ پارہ ہوگیا ‘خون ریزی جیسے المناک حادثات روزکامعمول بن گئے‘انسانی جان بال سے زیادہ سستی کردی گئی ‘قوم کی لگام تھامنے والے بے شعور ،بے حمیت اور ہوس زرکے عادی بے ضمیر لوگ مفاد پرستی کی آڑ میں بند ربانٹ کرنے کی رُت کو دوام بخشنے لگے، اور آ ئے روز گرتی پڑتی گھِسی پٹی حکومتی دیوار کو سہار ا دینے کی خاطر ”میدان کارزرا “میں کودنے اور مطلب پرستی اور” کھسیانی بلی پنجہ نوچے “جیسے تماشے دکھانے لگے۔ کیا پاکستان انہی گھناﺅنی سازشوںکے مسکن کے طور پراور مظلوم انسانیت کی مقتل گاہ کے لیے حاصل کیا گیا تھا؟ کیااتحاد ،ایمان ،یقین اور تنظیم کا لشکر صرف مخالفین کو ڈرانے کے لیے بنایا گیا تھا؟کیا پینسٹھ سال قبل اپنی بقاءکی جنگ لڑنے والے ا س مفلوک الحال وطن میں شور ش کا یہ عالم تھا؟کیا فرنگی دور میں حسِّ انسانی اس قدر گری ہوئی تھی کہ درجنوں مردوں کودفنانے کے لیے مظلوم لواحقین سڑکوں پر رکھے انصاف کی بھیک مانگتے ہوں؟کیا سامراجی وحشت ناک دور میںامت کی خاطر زندگیاں لٹانے والے درویش صفت ملاﺅں کو دن دیہاڑے درندگی کا نشانہ بنایا جاتا تھا؟ کیا پینسٹھ سال قبل جب سائنس وٹیکنالوجی ابتدائی سانسیں لے رہی تھی اور تعلیم وتعلم اس قدر عام نہ تھی اس طرح عوام َان پڑھ لوگوں کے ہاتھوں کھلونہ بنتے تھے؟کیا انسانی حیات اس قدر سستی تھی کہ درجنوں افراد آئے روز قتل کردیے جاتے ہوں؟

نہیں ہر گزنہیں!تو پھر آج یہ سب کیوں ہورہا ہے؟کیا پینسٹھ سال کا چکر ان سب حالات کا قصوروار ہے؟ کیا یہ زمین پینسٹھ سال کے عرصے میں بدل گئی ہے ؟کیا ملکی پیداوار اور وسائل بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ختم ہوگئے ہیں؟ کیا ڈاکٹر عبدالقدیر جیسے ایماندار اور محب وطن لوگوں کو جنم دینے سے حوا کی بیٹیوں کی کوکھ بانجھ ہوگئیں ہیں؟نہیں بالکل نہیں! توآخر ان شورشوں کا ذمہ دار کون ہے؟ان سب حالات او ر واقعات کے ذمہ داریہاں بسنے والے خواب غفلت کے عادی باشندے ہیں!ارشاد ربانی اس کی بین دلیل ہے ”اللہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتے جو خود اپنی حالت نہ بدلے“۔گھر میں اگر گند گی پھیلی جائے تو اسے صاف کرنے کی ذمہ دار ی بھی گھر والوں ہی کی بنتی ہے،اگر غیروں سے صفائی کی آس رکھی جائے تو گندگی بجائے صاف ہونے کے مزید پھیل جائے گئی۔ یہی حال ارضِ پاک کا ہے،یہاں بسنے والے دنیا کے تیز ترین اذہان اس فلسفہ کو الٹی منطق سمجھ بیٹھے ہیں ‘جس سے بے تحاشا مسائل جنم لے رہے ہیں۔

خدائی قانون ہے کہ ہر انسان کو اور ہر قوم کو سمجھنے کے لیے ،سدھرنے کے لیے مہلت اور ڈھیل ملتی ہے، اس سے بروقت استفادہ نہ کرنے والی قومیں ہمیشہ ذلت ورسوائی برداشت کرتی ہیں۔امت محمدیہ ﷺسے پیشتر نشان ِعبرت بننے والی طاقتور قومیں بزبانِ قرآن اپنی رسوائی پر آج بھی نوحہ کناں ہیں۔دنیا کی ساڑھے پانچ ہزار سالہ تاریخ بھی ترقی یا فتہ قوموں کے زوال کے اسباب مہلت او ر ڈھیل کی ناقدری بتاتی ہے۔ماضی قریب میں سوویت یونین بھی اسی ڈھیل کی ناقدر ی کی وجہ سے نشان عبرت بنا اور اب امریکی سامراج بھی یہی تاریخ رقم کرنے والا ہے( انشاءاللہ )۔پاکستانی قوم کئی بار اس مہلت کی ناقدری کرچکی ہے اور اس کی کچھ نہ کچھ سزا بھی آمروں کی آمریت کی صورت میںبھگت چکی ہے،مگر یہ ڈھیل ہر بار دراز ہونے والی نہیں ۔ گزشتہ پا نچ سالہ جمہوری دور بھی بطور مہلت عطیہ خداوندی تھے،جس کی ناقدری کی سزا متذکرہ مسائل کی صور ت میں پوری قوم بھگت رہی ہے اور نہ جانے مزید کیا کچھ جھیلنا پڑے گا؟

اسی مہلت کا نتیجہ ہے کہ پاکستانی تاریخ میں پہلی بار کوئی حکومت پانچ جمہور ی سالوں کی تاریخ رقم کررہی ہے ،جس پر تقریبا بیس دن بعد مہر ثبت ہو جائے گی ۔ان پانچ سالہ ایام ِمہلت میں قوم نے کیا کچھ سیکھا اور کیا کچھ پایا وہ سب کے سامنے ہے ،جس پر ہر منصف مزاج آدمی یہی کہے گا کہ یہ پانچ سال آخری مہلت تھے ،ان میںجو انتشار اور خلفشارپھیلا اس سے پہلے کبھی نہ تھا ۔اورحقیقت بھی یہی ہے کہ پاکستان اپنی آزادی کے دن سے آج تک بجائے آگے بڑھنے کے پیچھے کی طرف جارہا ہے،پی آئی اے ،ریلوے ،اسٹیل مل ،اورملکی خزانہ کا سہار ا بننے والے صنعتی کارخانے زندگی کی جنگ لڑرہے ہیں ،افراط زر اور تفریط زر کی شرح بلندیوں کو چھورہی ہے،اور کرپشن ،بددیانتی لوٹ کھسوٹ اورجہالت کی لیپا پوتی کے ذریعہ غریب کے منہ سے نوالہ تک چھیننے پر مقابلہ بازیاں ہورہی ہیں،آخر کس کس شعبے کی کمزوریاں اورخامیاں لکھی اوربیان کی جائیں؟کس کس برائی کا رونا رویاجائے ؟سب کچھ ہر ایک کے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہے ،مگر پھر بھی نہ جانے کیوں عوام خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں؟اگر یہ حالات فرانس میں رونما ہوتے تو کب کا انقلاب آچکاہوتاہے،کب تک عوام اپنے خون پسینے سے پلنے والے مردہ دل حکمرانوں کو کیفر کردار تک پہنچا چکے ہوتے؟اگر مفتی عبدالمجید دین پور ی اورمولنا اسلم شیخوپور ی جیسے قوم کے سرمائے کو اس طرح بے دردی سے تیونس یا مصر میں لوٹا جاتا تو کب تک مجرم عبرتناک انجام تک پہنچ چکے ہوتے ؟۔لیکن افسوس صد افسوس!حکمرانوں کی طرح قوم بھی بے حس ہوچکی ہے ،جو ہر بار ایک ہی سور ا خ سے بار بار ڈسی جارہی ہے،جب کہ فرمان نبوی ﷺ تو یہ ہے کہ” مومن ایک سور اخ سے بار بار ڈسانہیں جا سکتا“۔

وقت اب بھی عوام کو پکار پکار سدھرنے کی دہائیاں دے رہاہے اور خدائی ڈھیل بھی جھنجھوڑجھنجھوڑ کر کہ رہی ہے کہ یہ آخری مہلت ہے ،سنبھل جاﺅاوراپنے اور ملک کے اصل مجرموں اور دہشتگردوں کے خلاف متحد ہوجاﺅ!اس سے پہلے کہ دیرہوجائے ا ورپھر پچھتانے پر کف ِافسوس ملنا پڑے ۔اس مہلت سے صحیح معنوں میںفائدہ خواب غفلت سے بیدار ی ، ہمت اورخود کو بدلنے سے ہوگا‘کیوں کہ یہ بات اٹل ہے کہ” اللہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتے جو خود اپنی حالت نہ بدلے“پس سنورنے کے لیے اور حالات کا دھار ا پلٹنے کے لیے یہ آخری مہلت ہے ۔”فااعتبرو یا اولی الابصار“ (اے بصیرت والو تم عبرت پکڑو)۔
Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 45 Articles with 38239 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.