ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

تھکے ہارے سکول سے آتے ہی بیٹے نے ماں سے کہاں ممی کھانا لگادیںبہت بھوک لگی ہے ....!”بیٹا گیس نہیں ہے“ اچھا تو جلدی سے ہیٹر پر پکا لیں....! ”بیٹا بجلی بھی نہیں ہے“ اچھا تو ڈرائیور سے کہیں مجھے باہر ہوٹل پر لیجاکرکھلالائے....!”بیٹا آپ کے پاپا آج اِس لیے آٹو رکشہ میں آفس گئے ہیں کہ کار میں CNGنہیں ہے“اچھا بھائی سے کہیں کہ موٹر سائکل پرمیرے ساتھ چلا جائے....!”بیٹا ڈبل سواری پر پابندی ہے “اچھا تو مما ایسا کریں اپنا موبائل فون دیں میں پیزا منگوالیتا ہوں....!”بیٹا جانی موبائل سروس بھی آف ہے“بیٹا پیٹ کی آگ کو پانی سے بجھاتے ہوئے”مما پاکستان میں کچھ بچا بھی ہے “ ماں نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا....!”ہاں بیٹا اُمید“اور اب اِسی پر دنیا قائم ہے۔کیوں کہ شیکسپیئر نے کہا تھا کہ ”مصیبت زدہ کا واحد سہارا اُمید ہوتا ہے“۔

انا پرستی اور بظاہری شان وشوکت کی صورت اپنے سر پر ہم نے خود مشکلات کی پگڑی سجائی ہے۔اب اِ س پگڑی کو ٹکائے رکھیں تو چکرا سے جاتے ہیں اور اگر اُتار پھینکیں تو بظاہر عزت ٹکے کی نہیں رہتی ۔آخر سفید پوشی اور رکھ رکھاﺅ بھی تو قابلِ احترام جاندار ہیں ۔جاندار میں نے اس لیے کہا کہ یہ بھی دیکھو دیکھی اپنی نسل میں اضافہ کرتے ہیں۔آخر ہم نے اپنی زندگی کو چند بظاہری و دنیاوی آسائیشوں کے ہاتھ سود پر کیوں دے چھوڑا ہے اِس سود کا اصل تو دور بہت دور کی بات ہم تو قبر کے دیدار تک اِس کا بیاج ہی ادا نہ کر پائیں گے۔اِن بظاہری ،دنیاوی آرائیشوں و آسائیشوں نے نوجوانوں کی رگوں میں موجود حب الوطنی اور ادب واحترام کے لہو کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا ہے مگر بیاج اور اصل ابھی تک پہلے سے نہ صرف جوان ہے بلکہ صحتمند بھی دوگنا نظر آتا ہے۔

چیئر مین پی ٹی اے کے موبائل فون کے نائٹ پیکیجز پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ درست ہے یا غلط ....؟ اِس بات سے میری کوئی شراکت داری نہیں میں تو اپنی کم علمی صلاحیتوں کے باعث اور ناقص سوچ کو مدِ نظر رکھ کر صرف اِس ہی فیصلے تک پہنچا ہوں کہ چیئر مین پی ٹی اے کی اِس پابندی کے بعد نوجوان لڑکے اور لڑکیاں چند راتوں کی بےتابی کے بعد پھر سے پُر سکون خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ سکیں گے۔اِس طرح نوجوانوں کی ”گُڈ مارننگ “ نہ صرف گزشتہ کی طرح صحتمند ہو جائے گی بلکہ لب ولہجہ اور چہرے پربھی خوشگور تاثر پیدا ہوگا۔یوں اذانِ فجر کا احترام کرتے ہوئے موبائل فون آف کرکے سونے کی بجائے اذان کے احترام میں بیداری اور دوبارہ سے نمازِ فجر کا سلسلہ چلنے کی اُمید کی جاسکتی ہے۔

موبائل کمپنیوں نے اپنا موقف بیان کیا ہے کہ ہمسایہ ممالک سمیت دنیا بھر میں بھی تو نائٹ پیکیجز استعمال کیے جا رہے ہیں....؟تو دوسرے ممالک میں تو اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے یہاں تک کہ حرام اور حلال دونوں بغل گیر ہوئے بیٹھے ہیں ۔انہوں نے تو چند دنیاوی ،بظاہری لذتوں اور فانی ڈالروں کے عوض نہ صرف حوا کی بیٹی کی عصمت کی نمائش لگا رکھی ہے بلکہ اِیسے ہی پیکیجز کے ذریعے نوجوان نسل کو حِرس جیسی خطرناک بیماری میں مبتلا کر کے رکھ دیا ہے۔نائٹ کلبوں میں سرے عام اور ڈھول کی تھاپ پے چرچہ کر کے نمایاں عیاشی کرنے کی اب کیا ضرورت ہے؟ کیا یہ نائٹ پیکیجز ”ہوم ڈلیوی سروس “ نہیں ،گھر بیٹھے بنا نمائش کیے اِن پیکیجز کے ذریعے آدھی رات کو آنکھوں کی روشنی تیز ہو جاتی ہے۔نیندیں جاگ جاتی ہیں۔تاریکی اور اندھیرے میں بنا سورج کے چاند کی انگلی تھام کے دِ ن نکلتا ہے ۔رات بھر لب ہلتے ہیں اور سوچ و لفظ عیاشی کرتے ہیں۔

بے شک یہ نائٹ پیکیجز نہ صرف نوجوانوں کی صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں بلکہ اُن میں اعصابی اور نظر کی کمزوری کے ساتھ ساتھ چڑچڑا پن بھی کوٹ کوٹ کر بھر رہے تھے۔جب تک ہمیں خود اپنی حالت پر رحم نہیں آئے گا تب تک حملے ہوتے رہیں گے۔کِسی بھی قوم کی ترقی کا دارومدار اُس قوم کی نوجوانیت،مثبت سوچ اور حکمتِ عملی پر منحصر ہے۔نوجوان نسل ہی ملک و قوم کا کل اثاثہ ہوتے ہیں۔ہر نوجوان خواں وہ مرد ہے یا عورت اُسے اللہ پاک نے سوچنے سمجھے کی صلاحیت سے مالامال کیا ہے۔اِن فنکارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ہم خود کو آئینہ کیوں نہیں دکھاتے....؟بنا حادثوں کے معزور و مفلوج کیوں بن گئے ہیں....؟کِی دانا کا قول ہے کہ”ضرورتوں کو کم کرکے انسان زندگی کی ننانوے فیصد بوجھل ذمہ داریوں سے نجات حاصل کر کے آزادی کی زندگی بسر کر سکتا ہے“۔بلاشبہ آزاد وہی ہے جو خواہشات کا غلام نہیں ہے۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

پتھر کے دور کے انسان سے کانسی کے دور کے انسان نے جینا سیکھا،اور کانسی کے دور کے انسان سے لوہے کے دور کے انسان نے۔انہوں نے ہمیں جینا سیکھایا اور وہ خود بھی بھر پور زندگی جی کر گئے۔ اُن میں سے تو کوئی بھی بظاہری مشکلات کا شکار نظر نہیں آیا ۔پھر ہم کیوں ؟ ہم بھی تو اُن سے ہی گوشت پوست کے انسان ہیںپھر ہم نے خود ہی خودپر کچھ آسائشیں مسلط کر کے اُن ہی دنیاوی لذتوں کے مُرید کیسے بن گئے؟اِن سب کا رموٹ کنڑول تو ہمارے ہاتھ میں تھا یہ ایسی کونسی غیبی طاقت ہے جِس نے ہمارے ہاتھ سے کنڑول چھین کر ہماری ہی ایجادات کے سپرد کر کے تماشائی منظر پیش کر دیا ہے۔بلاشہ حالات اگر اچھے نہیں رہتے تو بُرے بھی ہر گز نہیں ٹکتے۔ہمیں خود اپنے جینے کے ڈھنگ کو ماحول و حالات میں ڈھالنا ہوگا ۔اپنے احساسات ،تجربات،خواہشات وخیالات پر خود حکومت کرنا ہوگی اُن کے تابع ہوکر رہے تو ایسے زمیں بوس ہوں گے کہ دھنستے ہی چلے جائیں گے۔جوخواہشات کا غلام ہے وہ عمربھرکا قیدی ہے ،آزادی سے اُس کا کوئی واسطہ نہیں۔کِسی دانشور کا قول ہے کہ”خواہشات کے جنگل میں اس طرح نہ کھوجانا کہ واپسی کا راستہ بھول جاﺅ“۔

حکومتی فیصلوں کو ہمیشہ منفی ہی نہیں کبھی مثبت انداز میں بھی تو دیکھا جاسکتا ہے ۔مخصوص تہواروں پر موبائل سروس بند کرنابلا شبہ کِسی صورت ذاتی مفاد نہیں۔ماضی کی غلطیوں کو دھرانے والے نہ صرف اندھے بلکہ بہرے اور گونگے بھی ہوتے ہیں۔ ہمیں کبھی بھی کِسی پر بھی تنقید کرنے سے پہلے خود پر نظر سانی کرنا ہوگی ،خودکی نفسیات وسوچ کو بدلنا ہوگا۔موجودہ دور کی ہر ایجاد کو ہم نے نہ صرف نفسات پر حاوی کر لیا ہے نلکہ اپنے نفس کے تابع بھی ہوگئے ہیں ۔چند دھائیوں قبل تو ہم کِسی مخصوص شے کے غلام نہ تھے۔ہمیں ہر حالات سے رشتہ قائم کرنا ہوگا ،ہر موسم انجوائے کرنے کا گُر سیکھنا پڑے گا۔خلیل جبران نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ ”قابلِ رحم ہے وہ قوم جو باتوں کی حد تک نفسانی خواہشات پر لعنت بھیجے لیکن عملی طور پر خواہشاتِ نفسانی کا شکار بن جائے “۔

بیج میں ہاتھ ڈال کر درخت یا پھل ہر گز نہیں نکالا جاسکتا ،کچھ صبر مسلط کر دیئے جاتے ہیں۔اگر ہمارا کوئی بہت ہی پیارا ،عزیز،دلرُبا اللہ تعالیٰ کو پیارا ، انجہانی ہوجائے تو ہم اُس پر بھی تو منوں مٹی ڈال کر صبر کر ہی لیتے ہیں تو پھر اِن چند وقتی اور بظاہری آنکھ مچولی کھیلتی مصیبتوں سے پریشانی گود لینے کا کیا مقصد ؟بے شک دورِ حاضر میں امیر ،امیر سے امیر تر اور غریب ،غریب سے غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔مگر کڑوا سچ یہ ہی ہے کہ ہم صبر کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں ۔اب موٹر سائیکل پر پابندی لگے یاموبائل فونز پر ،گیس بند ہو یا بجلی ،CNGنہ ملے یا پانی،ہم کیا کر لیں گے، اور اب تک کیا کر لیا ہے ؟کچھ نہیں ....ہاں کر سکتے ہیں اگرتو صبر کریں اور دِلوں سے نفرتیں نکال کر ایک ہو جائیں ۔یا پھر متحد ہو جائیں ، ایک ہو جائیں اور اپنے حق کیلئے ایسا منجمد ہوں کہ سیسہ پلائی دیوار بھی کیا ہو”اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے.... پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے“یا پھر صرف صبر۔فیصلہ اور سوچ کسی کی جاگیر نہیںآگے آپ خود بہت ذہین اور سمجھدار ہیں۔بلاشبہ زندہ لوگ اپنی دنیا آپ پیدا کرتے ہیں۔
Muhammad Ali Rana
About the Author: Muhammad Ali Rana Read More Articles by Muhammad Ali Rana: 51 Articles with 41397 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.