اسلام امان،سلامتی اور کشادگی ہے

 کوئٹہ میں مری آباد کی خوبصورت روشنیاں کوئٹہ کی رات کو انتہائی دلکش منظر عطا کرتی ہیں لیکن پاکستان کے دشمنوں کو نہ تو اس ملک کے امن سے کوئی غرض ہے نہ اس کے حُسن سے ۔ مری آباد جو کوئٹہ میں آباد ہزارہ برادری کا مرکز ہے اور اس قبیلے کے زیادہ تر لوگ اسی جگہ آباد ہیں اور صدیوں سے آباد ہیں پھر اب ان کے خلاف نسل کشی کی مہم کیوں چلنی شروع ہوئی۔ڈیڑھ ماہ کے اندر اندر دو بار ان پر کھلم کھلا دو بڑے حملے کیے گئے ہیں اور یہ صرف دو ہی حملے نہیں تھے بلکہ چار چھ لوگوں کا مر جانا تو ایک معمول ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کیوں وہ کون ہے جو یہ سب کر رہا ہے وہ کس مذہب کے ماننے والے ہیں اور کون سے فرقے کے پیروکار ہیں جو کسی فرقے کو نہیں بخش رہے اور کوئی شہر ان سے محفوظ نہیں پورا پاکستان ان کی زد میں ہے لیکن ہزارہ برادری کو جس طرح نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ بربریت کی بد ترین مثال ہے کہ ایک برادری کو یوںقتل کیا جا رہا ہے جیسے وہ اس زمین کے بیٹے ہی نہ ہوں یا مسلمان نہ ہوں۔ اسلام تو کافر کو بھی کسی مسلمان مملکت میں مکمل حفاظت دیتا ہے تو پھر یہ کون سا اسلام ہے جس کے یہ حملے کرنے والے دعوے دار ہیں ۔ دشمن تو اپنا کام کر رہا ہے کیوں کہ وہ دشمن ہے لیکن ہماری حکومت کہاں سو رہی ہے ،ہماری ایجنسیاں کیا کر رہی ہیں اورہمارے ادارے کس خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں کہ دہشت گرد ہر روپ میں ملک میں دندنا تے پھر رہے ہیں کیا یہ سب صدیوں پرانے وقتوں میں رہ رہے ہیں، ان کے زمانے میں کیا کوئی جدید مشنری ہے نہ جدید تکنیک جو ان دہشت گردوں کو ڈھونڈ سکے یا نیک نیتی کی کمی ہے جو وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہے ہمارے سیاسی رہنما جو خود کو عوام کا نمائندہ کہتے ہیں اور اس بات کا علان کرتے نہیں تھکتے کہ ان کی جڑیں عوام میں ہیں وہ آخر کیوں اس فساد کی جڑ تک نہیں پہنچ پاتے کہ یہ کہاں سے پھو ٹتا ہے،طالبان کہاں سے پیدا ہوئے جو پورے ملک اور قوم کو واجب القتل سمجھتے ہیں اس لیے نہیں کہ ان کے مذہب میں فرق ہے بلکہ اس لیے کہ ان کے نکتہئ نظر میں تفاوت ہے اور لشکر جھنگوی کا کہاں سے ظہور ہوا جو ان ہزارہ مسلمان پاکستانیوں کو قابل گردن زدنی سمجھتے ہیں جن کا مذہب تو اسلام ہی ہے لیکن فرقہ جدا ہے کیا خدا نے ساری انسانیت کو ایک مذہب و مسلک پر پیدا کیا ہے اگر اُس نے ایسا نہیں کیا تو ہم ایسا کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔ فرقہ واریت کے جنّ کی زنجیروں کو جس طرح کھولا جا رہا ہے وہ عام لوگوں اور ملک و قوم کے لئے تو خطرناک ہے ہی لیکن ان سب سے بڑھ کر وہ خود اسلام کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس مذہب نے تو کافر کو بھی لکم دینکم ولی یدین کہہ کر جینے اور اپنے مذہب پر چلنے دیا ہے تو ہم سب تو مسلمان ہیں ۔میرے سنی ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ شیعہ کو کافر سمجھوںیا کسی کے شیعہ ہونے کا ہرگز یہ معنی نہیں کہ وہ میرے مسلک کو غلط قرار دے ۔

فرقہ واریت کی فضائ پیدا کی جا رہی ہے اور بلیم گیم مسلسل جاری ہے چاہے اس میں حقیقت ہے یا نہیں لیکن ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ ہو رہی ۔رانا ثنائ اللہ اور رحمن ملک زد میں بھی ہیں اور ایک دوسرے پر الزامات لگانے میں بھی پیش پیش ہیں وہ سچے ہیں یا جھوٹے یہ بات اتنی اہم نہیں ہے جتنی یہ کہ آخر یہ سب ہو کیوں رہا ہے کیا ہم دشمن کو خوش نہیں کر رہے۔ ہزارہ برادری بھی اس زمین پر اتنا ہی حق رکھتی ہے جتنا کوئی بھی دوسرا پاکستانی۔

اس وقت ملک دہشت گردی، بیرونی سازشوں اور اس کے نتیجے میں معاشی، صنعتی اور کاروباری بحرانوں کے جس بھنور میں پھنسا ہو ا ہے اس لمحے عوام کا اتحاد اور اتفاق کسی بھی دوسری چیز سے زیادہ اہم ہونا چاہیے اور جب ہم خوش قسمتی سے ایک ایسے مذہب سے بھی تعلق رکھتے ہوں جو ایک بے گنا ہ انسان کے خون کو پوری انسانیت کا خون قرار دیتا ہے اور اس میںکسی مذہب ، کسی مسلک ، کسی فرقے اور علاقے کی تخصیص بھی نہیں تو پھر آخر ایسا کون سا عنصر ہے جو ہمیں فرقہ واریت کی جنگ میں دھکیل رہا ہے اگر بقول وزیر داخلہ یہ اندرونی عناصر ہیں تو ابھی تک حکومت کی گرفت میں کیوں نہیں آئے اور اگر بیرونی ہیں تو ہم انہیں ایسا کرنے سے روک کیوں نہیں پا رہے اگر پیسہ باہر سے آرہا ہے تو کیسے،کیا ہماری حکومت سو رہی ہے یا اسے اپنی سیاسی ریشہ دوانیوں سے فرصت نہیں ہے۔ مسئلہ جو بھی ہے ملک اس وقت مشکل حالات سے گزر رہا ہے اور اگر فرقہ واریت کے اس دیو کو آزادی مل گئی تو پھر اس کو قابو کرنا مشکل ہو گا آخر یہی شیعہ اور سنی ایک دوسرے سے رشتے تک کرتے کرتے ایک دوسرے کے دشمن اور خون کے پیاسے کیسے ہو جاتے ہیں۔ کیا دنیا میں مختلف مذاہب کے لوگ بھی ایک ہی محلے میں نہیں رہتے تو پھر ہم ایک ہی مذہب کے لوگ ایک ملک میں کیوں نہیں رہ سکتے ۔ حکومت اور عوام کو احساس کرنا ہو گا کہ یہ سب کچھ کسی بڑی سازش کا حصہ ہے آخر کیسے آٹھ سو اور ہزار کلو بارود بن جاتا ہے کیسے خود کش بمباروں تک پہنچتا ہے اور کیسے کسی ٹینکر، گاڑی یا ٹرک میں لاد کر ایک حساس علاقے تک پہنچا دیا جاتا ہے ۔یہ وقت ایک دوسرے پر الزامات لگانے کا نہیں بلکہ اصل مجرم تک پہنچنے کا اور اس پر ہاتھ ڈالنے کا ہے اگر یہ مجرم اتنے شقی القلب ہیں کہ کبھی یہ فرقے کے نام پر قتل کرتے ہیں ، کبھی علاقے کے نام پر اور کبھی طالبان کی صورت میں صرف نکتہئ نظر کے نام پر تو پھر یہ بھی کسی رحم کے حق دار نہیں ۔ یہاں یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے حساس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھیں اور ہماری ذمہ دار وزارتیں بھی، اگر انہیں حملے کی خبر ہو جاتی ہے چلئے مانا کہ مقام اور وقت کا تعین مشکل ہے لیکن جب ایک شہر کے بارے میں اطلاع آجاتی ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ اس شہر میں حساس مقامات کون کون سے ہیں تو کیا تب بھی حفاظت نا ممکن ہوتی ہے ہاں ایسا اس لیے مشکل ہو جاتا ہو گا کہ ہماری پولیس جو وی آئی پیز کی حفاظت پر لگی ہو ئی ہے اس کے پاس اتنی نفری بچتی ہی نہیں کہ عوام کی حفاظت کرے ۔یہاں حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہو گا اور اسے پورا بھی کرنا ہوگا۔ معاشرے میں قناعت اور شکر گزاری بھی پیدا کرنا ہو گی تا کہ لوگ پیسے کی خاطر انسانی جان کو یوں قتل نہ کرتے پھریں، علمائ کو مذہب کی صحیح روح بھی اُجاگر کرنا ہو گی اور لوگوں کو بتانا ہوگا کہ اسلام امان ہے ، سلامتی ہے اور یہ کشادہ دل بھی ہے ۔ہم اٹھارہ کروڑ کی طاقت کی بات تو کرتے ہیں اس اٹھارہ کروڑ کے ہجوم بیکراں کو قوم اور طاقت بنانا بھی ہوگا جس دن ہم نے اسلام کی کشادگی کو دل سے محسوس کر لیا اور اٹھارہ کروڑ کو طاقت بنا لیا تو ہم بڑی آسانی سے فرقہ واریت اور دہشت گردی پر قابو پا لیں گے پھرنہ کوئی کسی راہگیر کی لاش کو روئے گا کہ وہ بم دھماکے کا نشانہ بنا نہ کوئی لاش شیعہ ہو گی نہ سنی وہ مسلمان یا انسان ہو گی اور بس۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 518818 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.