بچے شرارتیں کرتے ہی اچھے لگتے
ہیں اور جب عمر بھی بقول سویٹ سیونٹین ہو تو پھر تو ہر چیز بہت زیادہ
خوبصورت لگتی ہیں اس عمر میں ہر ایک کو اپنا آپ ہیرو / ٹارزن ہی لگتا اور
سمجھتا ہے بھاگنے دوڑنے کو دل کرتا ہے اپنے آپ کو نمایاں اور الگ دیکھنے
دکھانے کو بھی دل کرتا ہے والدین کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بیٹا/ بیٹی
سب سے الگ اور نمایاں ہو خواہ وہ تعلیم کے شعبہ ہو یا دیگر شعبے - لیکن کچھ
ایسے بدقسمت بچے ہوتے ہیں جنہیں سویٹ سیونٹین میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا
ہے اور ان کے والدن اپنے بچوں کو دیکھ کرخون کے آنسو روتے ہیں یہی حال
پشاور کے نواحی علاقے بخشو پل کے رہائشی طالب علم اکرام اللہ کا بھی ہے
سترہ سالہ اکرام اللہ شرارتیں کیا کرتا وہ تو زندگی کی رنگینیاں دیکھنے سے
قبل ہی بسترکا ہوکر رہ گیا ہے ساتویں جماعت کا طالب علم سکول آنے کے بعد
اپنی علاقے میں واقع چھوٹی سی دکان پر بیٹھتا اور اپنے گھر والوں کی مدد
کررہا تھا لیکن ایک دن سکول آنے کے بعد اسے دکان میں بیٹھے بیٹھے گردوں کی
تکلیف ہوئی جسے ابتدائی طور پر معمولی جانا گیا تاہم حالت خراب ہونے پر اسے
پشاور کے ہسپتال منتقل کردیا گیا جسے بعد میں حیات آباد میں واقع سرکاری
کڈنی سنٹر میں بھجوایا گیا لیکن جب انسان غریب ہو اور پھر معاشرہ بھی
پاکستانی ہو تو پھر اسے پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا یہی حال اکرام اللہ کا
بھی ہوگیا مریضوں کی خدمت کا حلف اٹھانے والے ڈاکٹروں کی غفلت نے معصوم
طالب علم کو اس حال تک پہنچا دیا کہ اسے سٹریچر میں گھر لانا پڑا حالانکہ
وہ اپنے پائوں سے ہسپتال علاج کیلئے گیا تھا لیکن وہاں پر تعینات سرکاری
ڈاکٹر اس معصوم پر توجہ دینے کے بجائے ایک دوسرے کو ڈیوٹی کیلئے کہتے رہے
اور اکرام اللہ کی حالت بدتر ہوتی گئی اور اسے گھر بھجوا دیا گیا-
تین بہنوں اور تین بھائیوں پر مشتمل اسے گھرانے کا واحد کفیل اپنے بیٹے کی
حالت دیکھ کر بے وقت ہی بوڑھا ہوگیا ہے دوسرے بیٹے کی پیدائش پر اسے خوشی
تھی کہ اس ہاتھ بٹانے والا دوسرا بیٹا بھی آگیا ہے لیکن اب تو اس حالت میں
پہنچنے اور گھر پر بستر پر پڑا رہنے اور علاج نہ ہونے سے معصوم طالب علم کی
دماغی حالت بھی متاثر ہو کر رہ گئی ہیں جس کی بڑی وجہ اس کے جسم سے زہریلے
مواد خارج نہ ہونا ہے مثانے کی تکلیف تو اب اکرام اللہ کا مستقل مسئلہ بن
گیا ہے ،اپنے لخت جگر کے علاج کیلئے وزیروں اور مشیروں کے گھروں کی دہلیز
پرحاضری دیتے اکرام اللہ کے والد کے جوتے گھس گئے لیکن کسی نے اس کی
فریادسننے کی زحمت تک گوارانہ کی-اسی علاقے کا ممبر صوبائی اسمبلی جس کا
گھر بھی ایک کلومیٹر کے فاصلے پر اکرام اللہ کے گھر سے دور ہے اور آج کل تو
روٹی کپڑا اورمکان کا نعرہ لگانے والی پارٹی کا عہدیدار بھی ہے لیکن وہ
اکرام اللہ کے والد کی فریاد پر اتنا ہی کرہی سکتا ہے کہ غریب اکرام اللہ
کیلئے مراسلے تو بھیج سکتا ہے اس پر دستخط کرسکتا ہے لیکن چونکہ مسئلہ غریب
آدمی اور اس کے بیٹے کا ہے اس لئے اکرام اللہ کی قسمت میں ممبر صوبائی
اسمبلی سے لیکر سپیکراسمبلی سے لیکر صوبائی وزیر صحت کی طرف سے صرف دم
دلاسے اور وعدے ہیں جو 2011 سے جاری ہے لیکن یہ ایفاء ہوتے ہوئے دکھائی
نہیں دیتے-
معصوم طالب علم اکرام اللہ کے ہاتھوں نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا ہے جبکہ اس
کی زبان میں لکنت بھی آگئی ہے جو اس کے گھر والوں اور خصوصا بڑے بھائی
کیلئے بھی ایک بڑا امتحان ہے کیونکہ بڑے بھائی کی طرف دیکھنا اور ان سے
توقع رکھنا تو ہمارے معاشرے میں عام سی بات ہے لیکن معمولی نوکری میں بھائی
گھر والوں کے اخراجات پورے کرے چھوٹے بھائی کی علاج کیلئے کوششیں کرے یہ
بھی بہت بڑا امتحان ہے بیمار بھائی کیلئے بہت کچھ کرنے کی خواہش رکھنے کے
باوجود وسائل اتنے ہی ہیں کہ سر چھپانے کی کوشش میں پائوں نظر آتا ہے اور
پائوں چھپانے کی کوشش میں سر نظر آتا ہے ایسے میں بھائی بھی کیا کرے -اسلام
آباد کے ایک نجی ہسپتال میں اس معصوم طالب علم اکرام اللہ کے علاج کیلئے
ڈاکٹروں نے پانچ لاکھ روپے جمع کرنے کی ہدایت کی ہیں لیکن لیکن دووقت کی
روٹی کیلئے ترسنے والے اس خاندان کیلئے اتنی بڑی رقم کا بندوبست کرنا ممکن
ہی نہیں -ڈاکٹروں کی بے حسی سے اس حال کو پہنچنے والے اکرام اللہ کی خواہش
ہے کہ وہ عام بچوں کی طرف اپنے ہم عمر بچوں میں کھیلے کودے گلی میں جائے
اپنی کتابوں کا بستہ اٹھائے اس معصوم طالب علم کاکہنا ہے کہ میں نے ڈاکٹر
بننا ہے - جب راقم نے اس سے بات کی کوشش کی تو لکنت زدہ لہجے میں معصوم بچے
کا کہنا تھا کہ میں ڈاکٹر بننا چاہتا ہوں جس کی سمجھ تو اس وقت نہیں آئی
لیکن بڑے بھائی نے اپنے مریض چھوٹے بھائی کے دل کی بات کہہ ڈالی جب راقم نے
دوبارہ پوچھا کہ تمھارا حال تو ڈاکٹروں نے کیا ہے تو پھر کیا تم بھی ایسے
ہی ڈاکٹر بنو گے تو جواب میں وہ معصوم مسکرایا اور پھر لکنت زدہ لہجے میں
کہا کہ نہیں میں لوگوں کی خدمت صحیح معنوں میں کرونگا اورہر مریض کو دیکھنے
جایا کرونگا اس کی بات سن کر میں اس معصوم بچے کو دیکھتا رہ گیا-
یہ صرف ایک طالبعلم اکرام اللہ کی کہانی نہیں اس طرح کے کتنے ہی اکرام اللہ
جو اپنے غریب والدین کا آسرا ہے اس حالت کو پہنچ گئے ہیں اور اب حکومتی
امداد اور مخیر افراد کی توجہ کے طالب ہیں انہیں اس حالت میں پہنچانے والے
قصاب نما ڈاکٹروں سے پوچھ گچھ اور ان کی مدد تو اس ریاست کی ذمہ داری ہے جن
کے حکمران ہر وقت آئین کی رٹ ہر وقت لگاتے رہتے ہیں لیکن انہیں آئین صرف
اپنے لئے ہی نظر آتا ہے آئین نے بحیثیت حکمرانوں کی جوفرائض ان پر عائد کئے
ہیں انہیں وہ یاد نہیں یہ فرائض انہی کے تیار کردہ آئین کے تحت ہیں جس کی
بھی خلاف ورزی ہورہی ہیں جبکہ جوحق اسلام نے انہیں دیا جس کی تشریح نبی
اکرم صلی اللہ والہ وسلم اور اس کے صحابہ نے کی جس میں حضرت عمر رضی اللہ
تعالی عنہ جیسا باجبروت خلیفہ بھی راتوں کو اٹھ اٹھ کر عوام کی حالت جاننے
کیلئے گلیوں میں پھرا کرتا تھا وہ بھی اسلامی ہونے کے دعویدار پاکستان کے
حکمران پورا نہیں کررہے نہ یہ لوگ اسلام کے رو سے دئیے گئے حقوق پورے کررہے
ہیں نہ اپنی ہی تیار کردہ آئین کے تحت حقوق شہریوں کو دے سکتے ہیں تو پھر
ان "حرام خوروں"کو اپنے اوپر لادنے کا مطلب کیا ہے- |