حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی
ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت یعقوب بن عتبہؒ
کہتے ہیں کہ ایک دن حضور ﷺ صفا پہاڑی پر تشریف لے جارہے تھے کہ اچانک سامنے
سے آکر ابوجہل نے آپ ﷺ کا راستہ روک لیا ۔ اور آپ ﷺ کو بہت تکلیف پہنچائی ۔
حضرت حمزہ ؓ شکاری آدمی تھے اور اس دن وہ شکار کرنے گئے ہوئے تھے اور حضورﷺ
کیساتھ ابوجہل نے جو کچھ کیا ۔ وہ حضرت حمزہ ؓ کی بیوی نے دیکھ لیا تھا ۔
چنانچہ جب حضرت حمزہ ؓ (شکارسے ) واپس آئے تو ان کی بیوی نے ان سے کہا کہ
اے ابو عمارہ جو کچھ ابو جہل نے (آج) تمہارے بھتیجے کیساتھ کیا ہے اگر تم
اسے دیکھ لیتے (توناجانے تم اس کیساتھ کیا کرتے یہ سن کر ) حضرت حمزہ ؓ کو
بڑا غصہ آیا ۔ چنانچہ وہ گھر میں داخل ہونے پہلے ہی اپنی گردن میں کمان
لٹکائے اسی طرح چل دیئے اور مسجد (حرام) میں داخل ہوئے وہاں انہوں نے
ابوجہل کو قریش کی ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے پایا ۔ انہوں نے بغیر کچھ کہے
ابوجہل کے سر پر زور سے کمان ماری اور اس کا سر زخمی کر دیا ۔ قریش کے کچھ
لوگ کھڑے ہو کر حضرت حمزہ ؓ کو ابوجہل سے روکنے لگے ۔ حضرت حمزہ ؓ نے کہا (آج
سے )میرا بھی وہی دین ہے جو محمد ﷺ کا دین ہے ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ
اللہ کے رسول ﷺ ہیں ۔ اللہ کی قسم میں اپنی اس بات سے نہیں پھروں گا۔ اگر
تم (اپنی بات میں )سچے ہو تو مجھے اس سے روک کر دیکھ لو ۔ حضرت حمزہ ؓ کے
مسلمان ہونے سے حضور ﷺ اور مسلمانوں کو بہت قوت حاصل ہوئی اور مسلمان اپنے
کام میں اور زیادہ پکے ہو گئے ۔ اور اب قریش ڈرنے لگے کیونکہ انہیں معلوم
تھا کہ اب حضرت حمزہ ؓ حضور ﷺ کی ضرور حفاظت کرینگے ۔
قارئین آج کے کالم کا موضوع اور عنوان دونوں بڑے دلچسپ ہیں ایک ایسی شخصیت
کو ہم تاریخ کے صفحوں سے نکال کر اکیسویں صدی میں لے آئے ہیں ۔ جس نے
پندرھویں ، سولہویں صدی میں ایشیاءپر گہرے اثرات مرتب کئے پنجاب میں جنم
لینے والا فرید نامی یہ نوجوان ایک افغان جاگیردار کا بیٹا تھا ۔ اپنی
سوتیلی ماں کے برے سلوک کی وجہ سے اس نے بچپن ہی میں گھر چھوڑ دیا ۔ اور
جوناپور جا کر تعلیم حاصل کی اور فارسی اورعربی زبانیں سیکھیں ۔ اس کی
صلاحیتیں اس نوعیت کی تھیں کہ اس کے والد نے اسے اپنی تمام جاگیر کا انتظام
سونپ دیا ۔ لیکن سوتیلی ماں دوبارہ آڑے آئی اور ایک مرتبہ پھر اسے گھر
چھوڑنا پڑا ۔ جہاں سے وہ بہار چلا گیا اور مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کی
فوج میں شمولیت اختیار کر گیا ۔ مغل بادشاہ ہمایوں کے دور میں شیر شاہ سوری
نے برصغیر کی تاریخ بدل کے رکھ دی اور مغل بادشاہ کو شکست دیکر ایک نئے
ہندوستان کی بنیاد رکھی ۔ اپنے عملی تجربات اور وسیع مطالعے کی بدولت اس نے
ایسی شہری اور فوجی ترقی متعارف کروائی کہ جس نے ہندوستان کی تاریخ کو بدل
کر رکھ دیا ۔ شہری سہولتیں اور مالیے کا نظام متعارف کروانے کا تمام تر
سہرا شیر شاہ سوری کے سر ہے ۔ شیر شاہ سوری نے پشاور سے لیکر دہلی تک اپنی
متعدد نشانیاں چھوڑیں ۔ آج بھی پاکستان میں موجو د جی ٹی روڈ جسے گرینڈ
ٹرنک روڈ بھی کہا جاتا ہے شیر شاہ سوری ہی کی یادگار ہے ۔ کنویں کھدوانا ،
سرائیں تعمیر کروانا ، درخت لگوانا ، زمین کی پیمائش ، فصل پر ٹیکس اور
ناجانے کیا کیا شیر شاہ سوری نے کیا ۔ جس کی بنیاد پر بعدازاں مغل بادشاہ
اکبر نے مغل سلطنت کو مستحکم کیا ۔ تقدیر نے یہ تمام عظیم کارنامے شیر شاہ
سوری کے نصیب میں لکھ دیئے تھے اور یہ تمام کام کرنے کے بعد وہ 1545ءمیں
وفات پا گیا ۔ شیر شاہ سوری کی وفات بھی فوجی ایجادات کے ایک تجربے کی نذر
ہوئی اور بارودی دھماکے کے حادثہ میں اس عظیم شہنشاہ کی جان چلی گئی ۔ وہ
تمام فوجی اور سویلین کارنامے جنہیں مورخ آج تک یاد کر تاہے ۔ وہ شیر شاہ
سوری نے صرف پانچ سال کے مختصر عرصے میں انجام دیئے۔
قارئین آج کا کالم بھی اکیسویں صدی کے شعبہ طب کے ایک شیر شاہ سوری کی نذر
کر رہے ہیں ۔ اس شیر شاہ سوری کا نام ڈاکٹر عبدالقدوس ہے ۔ جنہیں محکمہ صحت
آزادکشمیر کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر عبدالقدوس نے نشتر
میڈیکل کالج ملتان سے MBBSکرنے کے بعد آزادکشمیر محکمہ صحت کو جوائن کیا
اور مختلف جگہوں پر ٹرانسفرز کیساتھ ساتھ اپنی اعلیٰ تعلیم کا سلسلہ بھی
جاری رکھا ۔ ماسٹر ان پبلک ہیلتھ کی ڈگری حاصل کی اور ایڈمنسٹریشن کیڈر میں
داخل ہو گئے ۔ ڈاکٹر عبدالقدوس نے مختلف پراجیکٹس اور ہسپتالوں میں بحیثیت
سربراہ ادارہ کام کیا ۔ اور جہاں بھی گئے وہاں اپنی مہارت ، جانفشانی اور
اعلیٰ کارکردگی کے جھنڈے گاڑ دیئے ۔ برطانیہ جاکر دو سال ان کے طبی نظام کا
قریبی مشاہدہ کیا اور اس کیساتھ مزید تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا ۔ الغرض
بچپن سے لیکر نوجوانی تک اور نوجوانی سے لیکر اب تک اس شیر شاہ سوری (ڈاکٹر
عبدالقدوس) نے اس شیر شاہ سوری (فرید خان ) کی طرح تعلیم ، مطالعے او
رمشاہدے کو عملی تجربات کا حصہ بنایا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ان کے
ہاتھوں کے لگائے ہوئے متعدد پودے اسوقت جوان ہو چکے ہیں اور نسلیں ان پودوں
کے سائے میں بیٹھ رہی ہیں جو درخت بن چکے ہیں ۔
قارئین یہاں سے ہم کالم کا مرکزی حصہ شروع کرنے لگے ہیں ۔ حاجی محمد سلیم
برطانیہ میں مقیم ایک ایسے بزنس مین تھے جو راہ اللہ خرچ کرنے کے بہانے
ڈھونڈا کرتے تھے ۔ برطانیہ میں کشمیر کراﺅن بیکرز کے نام سے ان کی بزنس چین
میں اسوقت سینکڑوں کارکن کام کرتے ہیں اور ان کی مصنوعات برطانیہ سے لیکر
امریکہ تک پندرہ سو قریب آﺅٹ لٹس پر دستیاب ہیں ۔ اس عظیم انسان نے اپنی
عملی زندگی کا سفر راولپنڈی ریلوے اسٹیشن پر چھ ابلے ہوئے انڈے بیچنے سے
شروع کیا تھا اور اسوقت ان کی عمر محض دس سال کے قریب تھی ۔ حاجی محمد سلیم
نے ریکارڈ متعدد میں بے پناہ ترقی کی اور آج ان کا نام برطانیہ ، کشمیر اور
پاکستان کے بزنس حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ ان کے قریبی عزیز
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میرپور میں انتہائی نگہداشت کے شعبے میں داخل تھے
۔ حاجی سلیم کی اہلیہ برطانیہ سے آئی ہوئی تھیں ۔ وہ ان قریبی عزیز کو
ہسپتال میں دیکھنے گئیں اور گھر واپس آکر حاجی محمد سلیم سے ذکر کیا کہ
میرپور کے سرکاری ہسپتال کی صفائی ستھرائی کی حالت بہت خراب ہے ۔ آپ راہ
اللہ خرچ کرتے ہیں ۔ میرے خیال میں آپ کو اس ہسپتال میں کچھ اچھی وارڈ ز
بنا کر دینی چاہیے ۔ جس سے خلق خدا کو فائدہ ہو ۔ حاجی محمد سلیم کے دل کو
یہ بات لگی اور وہ اگلے ہی دن صبح ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میرپور پہنچ
گئے اور دریافت کیا کہ اس ہسپتال کے سربراہ کون ہیں ۔ عملے نے ان کو میڈیکل
سپرنٹنڈنٹ کے کمرے تک پہنچا دیا ۔ جہاں اکیسویں صدی کا شیر شاہ سوری ڈاکٹر
عبدالقدوس بیٹھا ہوا تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدوس کو حاجی محمد سلیم نے اپنے
مخلصانہ جذبات سے آگاہ کیا ۔ ڈاکٹر عبدالقدوس نے حاجی محمد سلیم کے ان نیک
جذبوں کو بہت سراہا اور یہ بھانپ لیا کہ حاجی محمد سلیم میرپو رمیں شعبہ طب
کیلئے بہت بڑا کام کر سکتے ہیں ۔ انہوںنے حاجی محمد سلیم کو دلائل کیساتھ
قائل کیا کہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں اسوقت امراض قلب کا کوئی بھی
شعبہ موجود نہیں ہے ۔ جس کی وجہ سے امراض قلب میں مبتلا ہزاروںمریض بے پناہ
مشکلات کا شکار ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالقدوس نے حاجی محمد سلیم کو بتایا کہ ڈی
ایچ کیو ہسپتال کے میڈیکل وارڈ میں محض چھ بستر ایسے ہیں جہاں پر انتہائی
نگہداشت کی سہولت موجود اور امراض قلب میں مبتلا مریضوں کو بھی اسی وارڈ
میں جگہ دی جاتی ہے ۔ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی دل کی
بیماریوں کا مقابلہ کرنے کیلئے کتنی کم سہولیات دستیاب ہیں ۔ قصہ مختصر
ڈاکٹر عبدالقدوس نے حاجی محمد سلیم کا قائل کر لیا کہ وہ ڈی ایچ کیو ہسپتال
میرپور میں امراض قلب کے علاج کیلئے ایک علیحدہ سنٹر قائم کریں ۔ 2001میں
کشمیر انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے نام سے اس ادارے کی بنیاد رکھی گئی ۔ اور
آج دو مراحل کی توسیع کے بعد یہ ادارہ ڈیڑھ سو بستر پر مشتمل کارڈیالوجی
ہاسپیٹل بن چکا ہے اور اب تک حاجی محمد سلیم اپنی ذاتی آمدن سے آٹھ کروڑ
روپے کے قریب خطیر رقم اس ادارے پر خرچ کر چکے ہیں ۔ یہ ننھا سا پودا اسوقت
تناور درخت بن چکا ہے اور بلا مبالغہ بقول حاجی محمد سلیم اس ہسپتال کا
خیال اور خواب ڈاکٹر عبدالقدوس نے دیکھا تھا اور ان کے ذہن میں ڈالا تھا ۔
اس ہسپتال میں اسوقت تک لاکھوں مریضوں کا علاج کیا جا چکا ہے ۔ اور وہ تمام
مریض جو میرپور میں امراض قلب کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے راولپنڈی لاہور
اور نہ جانے کہاں کہاں دھکے کھاتے پھرتے تھے ۔ آج کشمیر انسٹیٹیوٹ آف
کارڈیالوجی میں اپنا علاج کرواتے ہیں ۔ اور اس ادارے کو قائم کرنے والے
لوگوں کو دعائیں دیتے ہیں ۔ اس ہسپتال میں ڈاکٹر اورنگزیب عالمگیر ، ڈاکٹر
محمد یوسف ، ڈاکٹر رضا گورسی ، ڈاکٹر رضوان عابد کے علاوہ دیگر ڈاکٹرز ،
نرسز اور پیرا میڈیکل سٹاف کی ایک ٹیم کام کرتی ہے ۔ اور یہ ہسپتال
آزادکشمیر کا ماڈل ہسپتال ہے
قارئین ڈاکٹر عبدالقدوس کا یہ ایک کارنامہ کسی قدر تفصیل کیساتھ ہم نے آپ
کے ساتھ شیئر کیا ہے ۔ اسی ہسپتال میں کڈنی ڈائیلاسز سنٹر کے قیام کا سہرا
بھی ڈاکٹر عبدالقدوس کے سر ہے ۔ جنہوںنے رئیل اسٹیٹ کا بزنس کرنیوالے
چوہدری ظہور کو اس طرف مائل کیا کہ وہ اپنی بیمار بیٹی صائقہ ظہور کے نام
پر اس ہسپتال میں غریب مریضوں کیلئے کڈنی ڈائیلاسز سنٹر قائم کریں ۔ آج یہ
ڈائیلاسز سنٹر بھی گزشتہ کئی سالوں سے کام کر رہا ہے اور اب تک دس کروڑ
روپے سے زائد رقم غریب مریضوں کی مفت ڈائیلاسز پر خرچ کی جا چکی ہے ۔ آج کل
اس ادارے کا انتظام و انصرام انجمن فلاح وبہبود انسانیت کے سربراہ ڈاکٹر
طاہر محمود سنبھالے ہوئے ہیں ۔ اور ڈاکٹر شہزاد شیخ جو ماہر امراج گردہ ہیں
وہ اس ادارے میں سروسز مہیا کر رہے ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالقدوس نے آج تک خواب
دیکھنا جاری رکھا ہے ۔ خواب دیکھنے کے بعد ڈاکٹر عبدالقدوس اپنے خوابوں کو
بھولتے نہیں بلکہ خوابوں کے اس خاکے کو کینوس پر رکھ کر اس میں رنگ بھرنے
کی کوششیں شروع کر دیتے ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالقدوس کے بارے میں اگر ہم چچا غالب
کی زبان میں کہیں توشائد کچھ یوں ہو گا
چاہیے اچھوں کو جتنا چاہیے
یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے
صحبت ِ رنداں سے واجب ہے خدر
جائے مے اپنے کو کھینچا چاہیے
چاہنے کو تیرے کیا سمجھا تھا دل ؟
بارے اب اس سے بھی سمجھا چاہیے
چاک مت کر جیب بے ایام گُل
کچھ ادھر کا بھی اشارہ چاہیے
دوستی کا پردہ ہے بیگانگی
منہ چھپانا ہم سے چھوڑا چاہیے
دشمنی نے میری کھویا غیر کو
کس قدر دشمن ہے دیکھا چاہیے
اپنی رسوائی میں کیا چلتی ہے سعی
یار ہی ہنگامہ آرا چاہیے
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
ناامیدی اس کو دیکھا چاہیے
غافل ان معہ طلعتوں کے واسطے
چاہنے والا بھی اچھا چاہیے
چاہتے ہیں خوب رویوں کو اسد
آپ کی صورت میں تو دیکھا چاہیے
قارئین گزشتہ روز حاجی محمد سلیم سے راقم نے جب ڈاکٹر عبدالقدوس کی ترقیابی
اور بحیثیت ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ تعیناتی کے حوالے سے بات چیت کی تو ان کا
کہنا تھا کہ جنرل عباس جو اسوقت سیکرٹری ہیلتھ ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالقدوس اور
ان کے دیگر ساتھیوں کی شکل میں ایک انتہائی خوبصورت ٹیم شعبہ صحت میں اکھٹی
ہو چکی ہے ۔ جنرل عباس کو چاہیے کہ وہ ڈاکٹر عبدالقدوس کی قابلیت اور اعلیٰ
انتظامی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آزادکشمیر کے ہیلتھ سسٹم کو جلد از
جلد اپ گریڈ کرنے کی منصوبہ بندی کریں ۔ حاجی محمد سلیم نے راقم کے سامنے
جنرل عباس کو فون کر کے ان سے بھی اس امید کا اظہار کیا کہ غریب مریضوں
کیلئے میرپور میں کشمیر انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں جلد از جلد انجیوگرافی
، انجیو پلاسٹی ، اوپن ہارٹ سرجری اور دل کے علاج کیلئے دیگر آپریشنز شروع
کرنے کی منصوبہ بندی کی جائے گی اور اس کام کیلئے حاجی محمد سلیم اور ان کا
تمام حلقہ احباب حاضر ہے ۔
قارئین وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید کو ہم اس بات پر مبارکباد پیش
کر تے ہیں کہ انہوں نے ایک درست شخصیت کا انتخاب درست کام کیلئے کیا ہے ۔
وزیر صحت سردار قمرالزمان کیلئے ڈاکٹر عبدالقدوس یقینا نیک نامی کا باعث
بنیں گے ۔ ہم ان تمام باتوں سے بڑھ کر یہ دعا کر تے ہیں کہ اکیسویں صدی کا
یہ شیر شاہ سوری اللہ کرے آزادکشمیر کے غریب عوام کو صحت کی سستی ترین
سہولیات مہیا کرنے کیلئے بڑے کارنامے سرانجام دے ۔ آمین ۔۔
لیکن یہاں پر یہ تذکرہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اکیسویں صدی کے شیر
شاہ سوری ڈاکٹر عبدالقدوس نے میرپور میں تمام طبی کارنامے پندرھویں صدی کے
شیر شاہ سوری فرید خان کی طرح انتہائی مختصر عرصے میں انجام دیئے تھے ۔ بات
صرف سمجھنے کی ہے ۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا عقیدہ ہے کہ ایک سانس
آجائے تو دوسری سانس کی خبر نہیں کہ آئے یا نہ آئے ا س لیے ہر انسان کو
چاہیے کہ وہ کم مدت کو زیادہ سمجھے اور اسی کو غنیمت جان کر اپنے تمام
فرائض احسن طریقے سے انجام دے ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
"ایک صاحب ماہر نفسیات کے کلینک میں داخل ہوئے اور کرسی پر بیٹھ کر تمباکو
کا تھیلا کھول کر اپنے کان میں تمباکوٹھونسنے لگے ۔ ماہر نفسیات ڈاکٹر نے
انہیں غور سے دیکھتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے آپ کو میری ضرورت ہے "
ان صاحب نے بڑے اطمینان سے کہا "جی ہاں ! ڈاکٹر صاحب کیا آپ کے پاس ماچس ہو
گی "
قارئین اکیسویں صدی کے شیر شاہ سوری ڈاکٹر عبدالقدوس کو خیال رکھنا ہو گا
کہ ان کے پاس اس نوعیت کے کافی کیسز آیا کرینگے ۔ اللہ آپ کو فہم ، بصیرت ،
صبر اور حوصلہ عطا فرمائے ۔ گڈ لک اکیسویں صدی کے شیر شاہ سوری ڈاکٹر
عبدالقدوس گڈلک۔۔۔۔ |