پاکستان میں طالبانائزیشن کو
ایسا کردار بنا دیا گیا ہے جس سے پاکستان اور اسلام کو بدنام کیا جاسکے۔
کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ یہ دہشت گرداسلامی نظام نافذ کرنے کے لئے مساجد
کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ بہرحال اس وقت یہ لفظ خوف اور دہشت کی علامت بن چکا
ہے ۔ جسے تباہ وبربادی کے گھناﺅنے کھیل میں بڑے موثر انداز سے استعمال کیا
جارہا ہے۔ اس حقیقت کوپاکستان کے تباہ حال شمال مشرقی علاقوں میں کام کرنے
والے صحافیوں سے بہتر کوئی نہیں جانتاکیونکہ وہ ان دونوں رویوں کا بڑی قریب
سے مشاہد ہ بلکہ اسے بھگت بھی چکے ہیں۔گزشتہ ایک دہائی کے دوران جس طرح
میڈیا کی طرف سے طالبان کی مذموم کارروائیوں کی بھرپور کوریج کی جاتی رہی
ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے ہرگز متنفرنہ تھے بلکہ
ان کے درمیان ایک تعلق سا استوار ہوگیا تھا۔درحقیقت انسانیت کے قاتلوں اور
دہشت کے پجاریوں کو ہیروز کے طور پر پیش کرکے میڈیا نے متنازعہ حیثیت
اختیار کرلی تھی لیکن اب ان کا یہ ہنی مون اپنے انجام کو پہنچتا نظر آرہا
ہے۔
جب طالبانائزیشن پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں
تھی، میڈیا کو آسانی سے ان کی خبروںاور معلومات تک رسائی حاصل تھی۔ دہشت
گرد وں کا معمول تھا کہ وہ میڈیا کے سینئر لوگوں کو کال کرکے اپنی تخریبی
کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرتے۔میڈیا کی طرف سے ایسی کالز کوبڑی خوشدلی
سے وصول کرکے دہشت گردوں کو اس کی بھرپور کوریج کی یقین دہانی کرائی جاتی
تھی۔اس طرح طالبان کومیڈیا کے ذریعے اپنی شناخت کے ساتھ ساتھ حکومت کے
ردعمل سے اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کو مرتب کرنے کا بھی موقع ملتا۔تاہم اس
طرح طالبان کا اپنی دہشت پھیلانے کے لئے صحافیوں پر انحصا رناگزیر
ہوگیا۔کچھ رپورٹرز تو اس حد تک بڑھ گئے کہ انہوں نے معلومات حاصل کرنے کے
چکر میں طالبان کا مشیر اور ہمدرد بننے میں بھی عار محسوس نہ کی۔ اس طرح وہ
طالبان کی قیادت بلکہ دیگر جنگجوﺅں کی آنکھوں کابھی تارہ بن گئے۔
صحافیوں اور طالبان کے اس رشتے کے بارے میں بہت سے قصے بھی مشہور ہیں۔مثال
کے طور پر طالبان کے ایک لیڈر نے اپنے ایک صحافی دوست سے پوچھا کہ ٹی وی
کیمرے کے سامنے اسے اپنے چہرے کو ڈھانپنا چاہئے یا نہیں۔تو صحافی نے جواب
دیا۔ ”نہیں حاجی صاحب!اس طرح تو دہشت اور جاہ جلال کا عنصر ختم ہوجائے گا۔“
اگست 2007ءمیں جب طالبان نے مہمند ایجنسی میں حاجی صاحب تورنگزئی کے مقبرے
پر قبضہ کیا توانہوں نے بہت سے صحافیوں کو وہاں مدعو کیا۔ صحافیوں کی طرف
سے پوچھے گئے سخت سوالات سے پریشان ہوکر ایک نوجوان طالبان کمانڈر عمر خالد
نے کہا کہ اگر صحافی بھائی ہمارے اس عمل سے خوش نہیں ہیں، تو وہ اس مقبرے
کو جلد خالی کردیں گے یہ ریاستی اداروں کی سرد مہری تھی کہ بعدازاں اسی
33سالہ نوجوان طالبان کمانڈر نے اتنے دہشت گردجمع کرلئے کہ اس کا اثرورسوخ
نہ صرف مہمند ایجنسی بلکہ اردگرد کے علاقوں تک پھیلتا چلا گیا۔اس نے مقامی
صحافیوں کو خوش رکھنے کے لئے انہیں نہ صرف تازہ معلومات فراہم کیں بلکہ ان
کی آمدورفت کے لئے انہیں رقم بھی فراہم کرتا رہا۔
تاہم اب صورتحال یکسر مختلف نظر آتی ہے۔ طالبان کے صحافیوں کے ساتھ رویے
میں واضح تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ صحافیوں کو سیکورٹی فورسزکا
کبھی تعاون حاصل نہیں رہا،مگر اب طالبان کی طرف سے بھی انہیں عدم تعاون کا
سامنا ہے بلکہ اب تو طالبان نے اپنی بندوقوں کا رخ ان کی طرف موڑ دیا ہے۔
یہ صورتحال صوبہ سرحد اور فاٹا کے صحافیوں کے لئے بڑی پریشانی کا باعث
ہے۔اب تک نصف درجن سے زائد صحافیوں کو فرائض کی ادائیگی کے دوران موت کے
گھاٹ اتارا جاچکا ہے۔ بہت سے صحافیوں کو مسلسل دھمکیاں دی جارہی ہیں ۔ اس
صورتحال میںمتعدد صحافی، طالبان کے نقطہءنظر کو اپنانے پر مجبور ہیں۔یہی
وجہ ہے کہ ان علاقوں میں طالبان کی طرف سے ہونے والے اغواءاور تشددجیسے
جرائم کی بہت سی خبریں منظر عام پر نہیں آرہیں۔اس صورتحال میں پیشہ ور
صحافیوں کو حقائق اور صحافتی اصولوں پرمبنی رپورٹنگ میں بڑی مشکل پیش آرہی
ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ طالبان جو عام طور پرپرانے خیالات کے مالک سمجھے جاتے
ہیں، میڈیا کو استعمال کرنے کے حوالے سے اتنے ہی ذہین وفطین واقع ہوئے
ہیںجتنا اس جدید میں کوئی اور ہوسکتا ہے۔وہ باقاعدگی سے قومی اور بین
الاقوامی میڈیا کونہ صرف مانیٹر کرتے ہیںبلکہ کسی خبر یا رپورٹ میں ذرا سی
بھی’ جنبش‘ پر متعلقہ صحافی کی باز پرس بھی کرتے ہیں۔ اس صورتحال میں
صحافیوں کو رپورٹ مرتب کرتے وقت اپنے الفاظ کے چناﺅ میں احتیاط اور طالبان
کے نقطہءنظر کو شامل کرنے کاخیال لازمی رکھنا پڑتا ہے۔ایک دفعہ طالبان نے
ایک بین الاقوامی ریڈیو چینل کے لئے کام کرنے والے پشاور کے ایک صحافی کے
رشتہ دار کو اس کے آبائی ضلع ہنگو کے مدرسے میں طلب کیا اور اسے صحافی کی
ریکارڈ شدہ ٹیپ سنائی۔ بعد ازاں اسے کہا گیا کہ وہ صحافی کو تنبیہہ کردے کہ
طالبان کے نقطہءنظر کی تشہیر کرے ورنہ نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہے۔اس
دھمکی کے بعد مذکورہ صحافی نے اورکزئی ایجنسی سے اپنی صحافتی سرگرمیاں ترک
کردیں۔صوبہ سرحد کے دوتین صحافیوں کوطالبان شوریٰ کے جاری کردہ ایک فتوے کا
بھی سامنا کرنا پڑا۔ ایک سینئر صحافی کو، جسے طالبان کے ترجمان مولوی عمر
کے انٹرویو کی دعوت دی گئی تھی، پشاور سے اغواءکرلیا گیا۔ تحریک طالبان
پاکستان کے چیف بیت اللہ محسود کے انٹرویو کے لئے جنوبی وزیرستان جانے والے
صحافیوں کے ایک گروپ کو اس وقت شدید ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا جب طالبان
نے ان سے ایک سینئر صحافی کے بارے میں پوچھ گچھ شروع کردی جو اپنی ریڈیو
رپورٹوں میں انہیں ’شدت پسند‘ گردانتا رہا تھا۔پشاور کے ایک اور سینئر
صحافی کی کمانڈر منگل باغ کی عدالت میں حاضر ہونے پرایک معافی نامے کے
ذریعے جان بخشی ہوئی۔ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ لاہور میں واقع ان کے
اخبار کے ہیڈکوارٹرمیں طالبان کے خلاف ایک اداریہ شائع ہوا تھا۔سوات میں
صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ امور انجام دینے کے لئے قلم کے ساتھ ساتھ گن
بھی رکھنا پڑتی ہے۔ اب یہی صورت بچی ہی صحافیوں کو دہشت گردی میں اپنے
فرائض انجام دینے کی۔
شورش زدہ علاقوں میں کام کرنے والے صحافیوں کے لئے صورتحال اس قدر سنگین
اور گھمبیر ہوجائے گی، کسی کو اندازہ نہ تھا۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حالات
کو اس نہج تک پہنچانے میں کچھ قصور صحافیوں کا بھی ہے۔ وہاں کام کرنے والے
میڈیا کے نمائندے اپنی صحافتی کردار اور وہاں لڑی جانے والی جنگ کی حساسیت
میں مناسب فرق کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ دنیا کے خطرناک ترین علاقے
میںکام کرنے والے یہ صحافی اس بات کا قطعاََ شعور نہیں رکھتے کہ اس جنگ
میںکہاں تک ان کا کردار ہے اور اپنے فرائض انجام دینے کے لئے وہ کس حد تک
جا سکتے ہیں۔وہ دن بھر کے واقعات کواکٹھا کرنے میں اس قدر مصروف ہوتے ہیں
کہ انہیں اس فیصلے کی فکر ہی نہیں ہوتی کہ انہیں غیرمعمولی طور پر خراب
صورتحال میں رپورٹنگ کے فرائض ادا کرنے چاہئیں یا نہیں۔اس کی ایک وجہ تو
مناسب تعلیم اور تربیت فقدان ہے۔ اس کے علاوہ کئی صحافیوں کو ان کے متعلقہ
ادارے بھی خوب استعمال کرتے ہیں۔ان اداروں کو اپنے سٹاف کی حفاظت اور
سلامتی کی نسبت بریکنگ نیوز کی زیادہ فکر ہوتی ہے۔کراچی لاہور اور اسلام
آباد میں آرام دہ نیوز روم میں بیٹھے ان کے ’بڑے‘ ان رپورٹرز کو اپنی رپورٹ
میں تباہ و بربادی کے مناظر عکس بندی کرنے پر زور دے رہے ہوتے ہیں۔ میڈیا
کے مختلف حلقوں کے درمیان پیدا ہونے والی اس خطرناک مقابلے کی فضا نے ایک
ایسے مجرمانہ رجحان کو جنم دیا ہے جس میںرپورٹر کی زندگی سے زیادہ تباہ و
بربادی کے مناظر والی ٹیپ کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔حال ہی میں اپنی نشریات
کا آغاز کرنے والے ایک ٹی وی چینل کے سوات آفس کو دو دفعہ نشانہ بنایا گیا
لیکن اس کے مالکان کو اپنے سٹاف کی زندگی سے زیادہ فکر معاصر چینل کی سوات
کے بارے میں بہتر کوریج کی تھی۔مہمند ایجنسی میں ایک کیمرہ مین اس وقت بے
ہوش ہوگیا جب وہ طالبان کی طرف سے چند افراد کو قتل کرنے والے مناظر کی عکس
بندی کررہا تھا لیکن اس کے بیوروچیف نے اس کی اس ذہنی کیفیت یکسر نظر انداز
کرتے ہوئے اسے بزدل قراردے دیا۔
یہ بات قابل فہم ہے کہ فاٹا اور صوبہ سرحدکے شورش زدہ علاقوں میں رپورٹنگ
دن بدن مشکل ہوتی جارہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ عدم تحفظ کا احساس اور دہشت
گردوں کا بڑھتا اثرورسوخ ہے۔اس کے علاوہ وہاں کام کرنے والے صحافیوں کی
قلیل تنخواہیں اور ان کا کم تربیت یافتہ ہونا بھی ہے۔ ٹی وی چینلوں کے
مالکان کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ گڑ بڑ کے حساس ماحول معلومات کے حصول کے
لئے ایک خاص مہارت اور حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ خاص طور پر سوات اور
صوبہ سرحد کے شورش زدہ اضلاع میں کام کرنے والے صحافیوں کے لئے تو یہ مہارت
جزولاینفک ہونی چاہئے۔ یہ ایک ایسا سنجیدہ مسئلہ ہے جس سے فوری نمٹنے کی
اشد ضرورت ہے۔ |