ماں

ماں جیسے رشتے کی قدروقیمت لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ماں تو بس ماں ہوتی ہے دنیا کاکوئی بھی رشتہ ماں کا متبادل نہیں ہوسکتا ۔ماں ایسی ہستی ہے جس کی شان میں کچھ بھی کہنے یا لکھنے کی میری اوقات نہیں ۔ماں کی تعریف کرنے کے لیے علم کا سمندر بھی کم پڑ جاتا ہے۔اگر میں یوں کہوں تو بہتر ہوگا ۔کہ ماں وہ واحد رشتہ ہے جس سے اﷲ تعالیٰ نے اپنی مخلوق سے محبت کی مثال دی ہے ۔اﷲ تعالیٰ اپنے بندے کو70 ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے۔اس فرمان سے یہ بات بہت واضع ہو گئی کہ اﷲ کے بعد ماں اپنے بچوں سے دنیا میں سب زیادہ محبت کرتی ہے۔ ایک مسلمان معاشرے میں ماں کی گود کوانسان کی پہلی درس گاہ ہو نے کا شرف حاصل ہے۔ ماں جس کے وجود کو خالق کائنات نے نئی زندگی کو تخلیق کرنے کے لیے چنا ۔انسانی ماں نو ماہ تک بچے کو اپنے وجود میں پالنے کے بعد ایک جان لیوا مرحلے سے گزر کرخالق کائنات کی تخلیق کو پورا کرتی ہے ۔جب انسان دنیا میں آتا ہے تو اپنے لیے کچھ بھی کرنے کے کابل نہیں ہوتا۔نہ کھانے پینے کا ہوش ۔نہ سردی گرمی کی پہچان ۔یہاں تک کہ بچے کا باتھ روم بھی ماں کی گود ہی ہوتا ہے ۔انسان سوچتا تو ہوگا کہ یہ کیسی درس گاہ ہے جو باتھ روم کا کام بھی دیتی ہے ورنہ آج کل تو ہم اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے صاف ستھرے مدرسے و اسکول کا انتخاب کرتے ہیں ۔سب کی خواہش ہوتی ہے کہ اُن کا بچہ جس مدرسے یا اسکول میں پڑھے اُس کی بلڈنگ اور ماحول صاف ستھرا ہو ۔اسکول یا مدرسے کی انتظامی بھی بچے کو اُس وقت قبول کرتی ہے جب وہ خود اپنی مددآپ باتھ روم جا سکے ۔انسان تھوڑا غوروفکر کرے تو اُسے ماں کی محبت اورپہلی درس گاہ کا مقام سمجھ میں آسکتا ہے۔ وہ ماں ہی ہے جو بغیر کسی لالچ کے بے لوث جذبے کے تحت ساری ،ساری رات جاگ کر اپنی صحت کا خیال کئے بغیر بچے کی صحت کا خیال رکھتی ہے اور خوشی محسوس کرتی ہے۔اسی لیے مسلمان معاشرے میں ماں کوبڑا مقام حاصل ہے۔ہمارے ہاں اکثر گاڑیوں کے شیشوں اورعمارتوں پہ تحریریں لکھی ہوتی ہیں۔یہ سب میری ماں کی دعا ہے،ماں کی دعا جنت کی ہوا،وغیرہ ،وغیرہ ۔ہم یہ جملے بڑے فخر سے لکھتے ہیں اس میں نہ تو کوئی دباؤ ہوتا اور نہ ہی کوئی سیاسی مقصدحاصل ہوتا ہے۔ماں اپنے بچوں سے بہت محبت کرتی ہے ۔اوربے پناہ محبت میں یہ بھول جاتی ہے کے اولادکو دنیا میں سب جگہ ماں نہیں ملے گی ۔ماں اپنے بچے کو جتنی شفقت سے دیکھتی دنیا میں ایسا کوئی رشتہ نہیں جس میں اتنی شفقت ہو :جاری ہے
Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 514240 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.