تعلیمی ادارے یا فروغ فحاشی کے اڈے؟

فیصل آباد کے کسی تعلیمی ادارے میں سپوٹس گالا کے نام سے ایک رنگا رنگ تقریب انعقاد پذیر ہوئی۔

سپورٹس کے نام پر تعلیمی ادارے کے منتظمین نے جو اپنے خبث باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہائی اخلاق باختہ کردار ادا کیا۔ نوجوان لڑکیوں یعنی عورتوں نے حیا کی حدود کو پامال کرتے ہوئے، اللہ اور رسول ﷺ کے ساتھ کیئے ہوئے عہد و پیمان کی دھجیاں اڑاتے ہوئے رقص و سرود کی محفل گرم کی(25 فروری شام کوسماءٹی وی چینل پر ایک جھلک دکھائی گئی)۔ تعلیمی ادارے نئی نسل کی تعلیم اور تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے ساماں یہی ہیں۔ قوم نے بارہا مرتبہ ایسے اخلاق سوز مناظر دیکھے کہ وزیر اعظم اور وزرا حظ قلب حاصل کرتے نظر آئے۔ اگر ان وزرا حضرات سے کہاجائے کہ آپ اپنی بہن بیٹی کو بھی اس کارخیر میں کرلیں تو جواب دیتے ہیں کہ بھئی ہم شریف اور خاندانی لوگ ہیںہماری لڑکیا ں ایسے کاموں سے دور ہیں ۔ واہ کیا خوب خاندانی شرافت کا طرة امتیاز کہ قوم کی بیٹیاں ناچیں اور حکمران دادو تحسیں دیں۔ جب ایسے حکمران ہوں تو تعلیمی اداروں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ قوم کی بیٹیوں کو کامیاب رقاصائیں بنائیں۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے حکمران بھارت کو فیورٹ ملک قرار دیتے ہیں اور رقص بھات کی اہم ترین ثقافت ہیں بلکہ مذہبی رسومات کا بنیادی جزوہے۔ بھارت کے ساتھ ہم آہنگی کے لیئے بھارتی ثقافت میں ترقی کی ضرورت ہے۔ سو بسنت تو پہلے ہی مناتے ہیں بھارت کے پڑوس میں لاہور کی چھتوں پر ہر سال کیا کچھ ہوتا ہے؟ ہرصاحب ایمان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا جس کے بارے قائد اعظم نے فرمایا کہ ہم مسلمان ہیں ہمارے پاس قرآن اور ہمارے رسول ﷺ کی سنت ہے۔ ہم یہاںاسلام کی عملی تجربہ گاہ بنا کر دنیا کو دکھائیں گے۔ فیصل آباد صوبہ پنجاب میں ہے جہاں کا حکمران صوبے کا خادم اعلی ہے اور انہیں کبھی ایسی مخرب الاخلاق تقریب میں نہیں دیکھا۔ کیا وہ اس تعلیمی ادارے کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی کریں گے کہ کھیلوں کے نام پر نوجوان عورتوں سے حیا سوز رقص کرائے گئے۔قوم کے ہر طبقہ فکر اور ہر شعبہ زندگی کے لوگوں سے اپیل کرتا ہوں اور اس حقیقت کا جواب مانگتا ہوں کہ بتاﺅ جو عورتیں آج حیا سوز کردار ادا کرکے داد تحسین حاصل کر رہی ہیں اور سرعام عوام کے جم غفیر میں رقص برپا کررہی ہیں کل یہ جس قوم کو جنم دے کر اپنی گود میں پالیں گی تو کیا انمیں رابعہ بصری، حسن بصری، جنید بغدادی مہر علی شاہ، خالد بن ولید ، موسی بن نصیر، طارق بن زیادہ ، محمود غزنوی، غیور ٹیپو سلطان شہید، سراج الدولہ شہید، علامہ اقبال ، قائد اعظم جیسے عظیم لوگ اس قوم کا سرمایہ حیات ہونگے؟ ہر گز نہیں ۔ ایسی عورتوں کی کوکھ سے جو قوم جنم لے گی یہ وہی ہوگی کہ جب انگریز اس ملک میں آیا تو کوٹھوں پر کھنگرﺅں کی جھنکار سنائی دیتی تھی۔ ایسے لوگوں کے کردار پر علامہ اقبال نے فرمایا کہ شمشیر و سناں اول طاﺅس و رباب آخر۔ قوم کے بڑو! تمہیں کب ہوش آئے گی ۔ کیا پھر کسی فرنگی کے ظلم و تشدد ، غیرت کی بربادی کا انتظار ہے؟۔ خیر ہم تو پہلے ہی کہتے ہیں کہ ہمارے ملک کا تعلیمی نصاب قطعا ہمارے دین و مذہب سے کوئی ہم آہنگی نہیں رکھتا۔ اور ہو بھی کیسے کہ ہمارے حکمرانوں کی گڈی چڑھتی ہے تو ڈور امریکہ اور برطانیہ سے ہلائی جاتی ہے۔ جو حکم ہمارے حکمرانوں کی سرکار کا ہوتا ہے وہی یہاں نافذہوتا ہے۔ نئی نسل کی تعمیر اس سلیبس سے ہوتی ہے جو اداروں میں پڑھایا جاتاہے۔ ملک کے تمام ماہرین تعلیم اور دانشوروں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک نصاب تعلیم ملکی اور قومی ترجیحات کو مد نظر رکھ کر نہیں بنایا گیا۔

سکولوں اور کالجوں میں پڑھایا جانے والا نصاب قرآن و سنت کی تعلیمات سے خالی ہے۔ لڑکیاں ہوں یا لڑکے کل کی قوم ہے۔ اس وقت کے اساتذہ ، تعلیمی اداروں کے سربراہاں اور حکمران پوری طرح اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ آج اگر انہوں نے طلبہ اور طالبات کی تعلیم و تربیت درست سمت میں نہ کی اور انہیں فحاشی اور غیر اخلاقی کی تعلیم دی گئی تو ظاہر کہ اسکے نتیجہ میں جو قوم وجود میں آئے گی وہ اسلام کی ترجمان نہیں ہوگی نہ ہی وہ نظریہ پاکستان کی ترجمان ہوگی۔ یہ ملک پہلے اللہ سے کیئے وعدوں کی خلاف ورزی کی بنا پر گرفت میں ہے۔ سب نعمتوں سے مالا مال ہونے کے باوجود عوام پر عرصہ حیات تنگ سے تنگ ہوتا جارہا ہے۔ جو لوگ اللہ اور رسول کی اس طرح کھلم کھلا نافرمانیاں کرتے ہیں تو ان پر اللہ کی طرف سے مصیبتوں اور پریشانیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ حکمران صرف اقتدار کے نشے میں اللہ کے اقتدار اعلی کو بھلابیٹھے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے منتظمین فحاشی کی محافل کے انعقاد سے دولت تو بے تحاشا کمارہے ہیں لیکن یہ مال اللہ کے حضور پیشی کے وقت انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچائے گا۔ فحاشی اور منکرات سے اللہ اور رسول ﷺ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاﺅ۔ ماں باپ کا بھی فرض بنتا ہے کہ اپنی اولاد کو فحاشی اور منکرات سے بچائیں۔ ایسے اخلاق باختہ اداروں سے اپنی اولاد کو اٹھالیں۔ وزیر اعلی پنجاب فیصل آباد کے اس تعلیمی ادارے کے منظمین کے خلاف سخت ترین کاروائی کریں جو نظر بھی آئے اور دوسروںکے لیئے باعث عبرت بھی ہو۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 140712 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More