نامیاتی کاشت ......ہماری قومی ضرورت

نامیاتی کاشت کا تصور

نامیاتی کاشت پاک و ہند کے کاشتکاروں کے لئے کوئی اجنبی طریقہ نہیں۔ یہاں کی متنوع آب و ہوا میں نامیاتی کاشت کے مختلف طریقوں کے تحت فصلوں کی کاشت کا عمل صدیوں سے جاری ہے ۔ دس ہزار سال قبل قدیم تہذیب میں کاشتکاری کا آغاز نامیاتی طریقے پر ہی ہوا تھا۔ رگ وید رامائن اور مہا بھارت جیسی قدیم مذہبی کتابوں میں اس کا ذکر موجود ہے۔ بارانی قبائلی کوہستانی اور پہاڑی علاقوں کو اس ضمن میں خصوصیت حاصل ہے۔ اسی طرح جنگل اور بیابانوں میں قدرتی جڑی بوٹیوں اور ادویاتی پودوں کی کاشت بھی اسی زمرہ میں آتی ہے ۔ کاشتکاری کے مختلف نظاموں میں نامیاتی کاشت کا طریق کاشتکاروں صنعت کاروں اور زرعی سائنسدانوں کی توجہ کا خصوصی مرکز بنتا جا رہا ہے ۔ اس کی اہم وجہ مصنوعی کھادوں ،ضارکش اور جڑی بوٹیاں تلف کرنے والی ادویات اور دیگر زرعی کیمیائی مرکبات پر کم سے کم انحصار ہے ۔ دراصل اس طرح نہ صرف سرمایہ کی بچت ہوتی ہے بلکہ ماحول کا تحفظ زمین کی زرخیزی، روزگار کے مواقع میں اضافہ اور طویل دورانیے میں وسائل کی بنیاد (Resource Base) کے معیار میں بہتری جیسے فوائد و ثمرات بھی حاصل ہوتے ہیں ۔

نامیاتی کاشت کے مختلف نظام غذائی پیداوار کے لئے نہایت احتیاط سے وضع کیے گئے مخصوص معیارات کی بنیاد پر تشکیل دیئے گئے ہیں جن کا مقصد سماجی اور ماحولیاتی طور پر ایک پائیدار زرعی ماحولیاتی نظام کا قیام ہے ۔

نامیاتی کاشت کی تعریف
غذائی پیداوار اور افزائش حیوانات کے لئے ماحولیاتی اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے نامیاتی زراعت کی مختلف تعریفات پیش کی گئی ہیں ۔ عالمی ادارہ خوراک اور عالمی ادارہ صحت کی جانب سے قائم کردہ مشترکہ کمیشن نے اس کی تعریف یوں کی ہے :

”نامیاتی زراعت علاقائی حالات کے پیشِ نظر غذائی پیداوار کے مقامی انضباطی طریقوں پر مشتمل ایسا نظام ہے جو حیاتیاتی تنوع (Bio Diversity) حیاتیاتی چکر (Biological Cycles) اور اندرون زمین حیاتیاتی سرگرمیوں سمیت زرعی ماحولیاتی نظام کی صحت و اصلاح کو فروغ دیتا ہے۔ نامیاتی زراعت میں کھیت سے باہر خرید کردہ مداخل(Inputs) کی بجائے انصرامی تدابیر پر زور دیا جاتا ہے ۔اس مقصد کے لئے جہاں تک ممکن ہو کاشتکاری نظام میں کسی بھی مخصوص سرگرمی کے لئے کیمیائی مادوں کی بجائے فلاحتی (Agronomic)،حیاتیاتی اور میکانی طریقے اختیار کئے جاتے ہیں ۔

سادہ ترین الفاظ میں نامیاتی زراعت ایک ایسا متنوع زرعی نظام ہے جس میں فصلوں اور مویشیوں کے پیداواری انتظام کے لئے مربوط ٹیکنالوجیاں استعمال کی جاتی ہیں نیز مقامی یا کھیت پر دستیاب وسائل پر انحصار کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس نظام میں زیادہ سے زیادہ پیداوار کے حصول کی بجائے فصلوں اور حیوانات میں پائے جانے والے پیداواری امکانات کی بہتری پرزور دیا جاتا ہے ۔

نامیاتی زراعت کے فروغ اور عالمی تجارتی منڈی میںنامیاتی خوراک کے شفاف طریقوں کو یقینی بنانے کے لئے مشترکہ کمیشن نے نامیاتی طریقوں سے حاصل کردہ غذائی پیداوار، اس کی پراسیسنگ لیبل کاری اور فروخت کاری کے لئے بعض رہنما اصول بھی وضع کئے ہیں ۔

دنیا میں نامیاتی کاشت کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور تمام ممالک میں نامیاتی زراعت کے طریقے اپنائے جانے لگے ہیں ۔ تازہ ترین جائزہ کے مطابق دنیا میں نامیاتی طریق پر زیر کاشت مجموعی رقبہ26 ملین ہیکٹر سے تجاوز کر چکا ہے جبکہ دنیا کے کئی ممالک میں نامیاتی کاشت کا نظام کامیابی سے جاری ہے ۔ اگرچہ نامیاتی خوراک کی پیداوار میں عالمی سطح پر اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس کی خریدوفروخت زیادہ تر صنعتی ممالک تک محدود ہے ۔ 2005ءتک نامیاتی زراعت کے تحت کاشت کی جانے والی اراضی کل زیر کاشت اراضی کا دس فی صد تھی ۔

گزشتہ دس برسوںمیں نامیاتی پیداوار کی تجارت میں عالمی سطح پر خاصی پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے اور اس کا دائرہ کار اب نہ صرف یورپ اور شمالی امریکہ بلکہ دنیا کے متعدد دیگر ممالک تک پھیل چکا ہے ۔ سال 2005ء تک نامیاتی پیداوار کی برآمد ات کا تخمینہ 29سے 31ارب ڈالر لگایا گیا تھا جبکہ ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں اس کی طلب میں اوسطاً 20سے 25فی صد سالانہ اضافہ ہو رہا ہے۔ ان ممالک میں آسٹریلیا ،ارجنٹائن ،اٹلی،کینیڈا ، ریاست ہائے متحدہ امریکہ بھارت ،چین سوئٹیزر لینڈ آسٹریا فن لینڈ اور اٹلی شامل ہیں ۔

اس سب کے باوجود بعض بنیادی امور پر نامیاتی کاشت کے حامیوں اور اس سے اختلاف رکھنے والے طبقات کے مابین ایک نزاعی کیفیت نظر آئی ہے۔ فطری طریق کاشت میں بڑھتی ہوئی دلچسپی نے کیمیائی کھادوں اور ادویات کی صنعت و تجارت سے وابستہ برادری کو اپنے مستقبل کے بارے میں گوناگوں اندیشوں میں مبتلا کر دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نامیاتی کاشت کے ناقدین کی جانب سے اس طریق کار کے سائنسی بنیادوں پر جائز و موثر اور کاروباری نقطہ نظر سے منافع بخش اور دیرپا ہونے کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ۔اس سلسلے میں درج ذیل سوالات قابل ذکر ہیں ۔

1۔ کیا ہم نامیاتی کاشت کے ذریعے ہر شخص کو مناسب مقدار میں خوراک مہیا کر سکتے ہیں ؟
2۔ کیا فقط نامیاتی ذرائع سے فصلوں کی تغذیاتی ضروریات (Nutrient Requirements)کی کفالت ممکن ہے ؟
3۔ نامیاتی کاشت کے ماحولیاتی حوالے سے حاصل ہونے والے نمایاں فوائد و ثمرات کیا ہیں ؟
4۔کیا نامیاتی کاشت سے پیدا شدہ خوراک معیار کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہے ؟
5۔ کیا نامیاتی زراعت معاشی اعتبار سے سود مند اور مناسب ہے ؟
6۔ کیا نامیاتی طریق کاشت میں نقصان وہ کیڑوں اوران کی پھیلائی ہوئی بیماریوں کا علاج و انسداد ممکن ہے؟

مروجہ ارتکازی کاشتکاری نظام کی نسبت نامیاتی کاشت کے نتیجہ میں پیداوار کم ہو سکتی ہے لیکن کس حد تک، اس کا انحصار تبدیلی سے قبل استعمال کئے جانے والے بیرونی کیمیائی مادوں کی مقدار پر ہے ۔ سبز انقلاب کے زیر اثر ایسی زرعی اراضی سے ، جہاں آب پاشی کی سہولتیں موجود ہیں، نامیاتی کاشت کے تحت آنے کے بعد بھی فی ایکڑ پیداوار تقریباً یکساں ہی حاصل ہوتی ہے ۔ روایتی طور پر اس میں بارانی علاقوں میں ڈالے جانے والے بیرونی اجزاء(Inputs)نسبتاً کم مقدار میں استعمال کیے جاتے ہیں ۔ نامیاتی کاشت کے نتیجے میں فی ایکڑ پیداوار کے حوالے سے قدرے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ متعدد مطالعاتی جائزوں سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ خشک سالی کے عرصے میں نامیاتی کاشت کے تحت اگائی جانے والی فصلوں سے مروجہ طریق پر کاشت کی گئی فصلوں کی نسبت نمایاں طور پرزیادہ پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے بعض مطالعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ نامیاتی طریقوں پر عمل کرنے سے طویل عرصہ کے دوران فی ایکڑ پیداوار میںبہت کم فرق پایا جاتا ہے ۔

نامیاتی کاشت اور تحفظ خوراک
حیوانات اور انسانوں کے لئے مناسب مقدار میں معیاری خوراک کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے  دیسی کھادیں  فصلی تبدل (Crop Rotation)  فصلی رسوبات کا باز استعمال(Crop Residues Recycling)  انصرام آب  بہتر اقسام کے بیچوں کا انتخاب وغیرہ جیسی تدابیر کو بعض تشکیلی اور تکنیکی نوعیت کے انتظامی اقدامات کے ساتھ اختیار کیا جا تا ہے ۔ فصلی تبدل کے دوران دیگر فصلوں کے مقابلے میں پھلی دار فصلوں کوعموماً ترجیح دی جاتی ہے ۔ نامیاتی کاشتکار ترجیحی طور پر مقامی اہمیت کی حامل ایسی مفید فصلیں کاشت کرتا ہے جو بہتر آمدن کا باعث ہوں ۔

عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وسیع پیمانے پر نامیاتی کاشت کا طریقہ اختیار کرنے سے عالمی سطح پر خوراک کی فراہمی میں خوفناک حد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔ بہرحال تجربات سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی ۔ مطالعاتی جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ مروجہ کاشتی نظام سے نامیاتی کاشت کی طرف منتقلی کے دوران مقامی طور پر خوراک کی کھپت متاثر نہیں ہو گی ۔البتہ برآمدات پر اس کے اثرات کا انحصار فصل کی نوعیت پر ہے ۔ زراعت میں آنے والی متذکرہ تبدیلیوں سے کاشتکاری ڈھانچا ضرور تبدیل ہو گا۔ دنیامیںوسیع پیمانے پر نامیاتی کاشت کی مقبولیت او ر تحقیقی و توسیعی سرگرمیوں میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کے باعث موجودہ اوسط پیداوار میں اضافہ کے امکانات بھی پائے جاتے ہیں ۔

نامیاتی کاشتکار انواع و اقسام کی فصلیں اگانے اور اپنی آمدن بڑھانے کے لئے مویشی پالتے ہیں ۔ اس تدبیر کے نتیجے میں وہ کم پیداوار ہونے کی صورت میں بھی اپنی مطلوبہ بہتر آمدنی کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ اس طرح کسی بھی اچانک اور ناخوشگوار صورتحال میں مقامی طور پر خوراک کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اگر حالات سازگار ہوں تو نامیاتی پیداوار کی یافت گھریلو آمدنی میں مناسب اضافہ کے باعث مقامی طور پر خوراک کے تحفظ کو یقینی بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے ۔

نامیاتی کاشت میں تغذیاتی انصرام
نامیاتی کاشت کے بارے میں اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ اس طریق کار میں محض فصل کوڈالے جانے والے اجزاءکے ذریعے پودوں کو تغذیہ یعنی غذائی اجزاء(Nutrient)کی فراہمی ، نقصان دہ کیڑوں کے انسداد اور نباتاتی امراض کی روک تھام کی جاتی ہے ۔ درحقیقت یہ گوناںگوںزرعی تدابیر پر مشتمل ایک ایسا مخصوص نظام ہے جس میں کاشتی مسائل کو فقط مقامی وسائل کی مدد سے حل کیا جاتا ہے ۔ اصطلاح،نامیاتی سے واضح طور پر ڈالے جانے والے اجزاء(Inputs)کا استعمال ہی مراد نہیں بلکہ یہ کاشت کاری کے ایسے تصور کی طرف اشارہ بھی کرتی ہے جس میں کھیت کو ایک جاندار اکائی کے طور پر کاشت کیا جاتا ہے ۔

نامیاتی کاشت کے ناقدین کا کہناہے کہ محض ڈالے جانے والے نا میاتی اجزائکے ذریعے کھیت کی پیداواری صلاحیت اور منفعت میں اضافہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ نامیاتی وسائل کی دستیابی بڑی حد تک محدود ہے۔ اگر یہ بات مان لی جائے تب بھی موسمی تبدیلیوں اور زمینی تحدیدات (Soil Constraints) کی صورت میں نامیاتی مادوں (Inputs) کا استعمال زرعی کیمیائی مادوں کے مقابلے میں زیادہ منافع بخش ثابت ہوا ہے ۔

نامیاتی پیداواری نظام میں نامیاتی ذرائع سے نائٹروجن کی دستیابی اکثر اوقات خوردنی اجناس کے زیادہ سے زیادہ پیداواری امکانات کو محدود کر دیتی ہے ۔ محدود آبی وسائل یا بارانی حالات میں نامیاتی اور مروجہ طریق کاشت کے مابین فصل کی فی ایکڑ پیداوار کا فرق 10سے 15 فی صدتک رہ جاتا ہے۔

غذائی اجزاءسے بھرپور کھاد کا استعمال فصل کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے ۔ علاوہ ازیں مویشیوں کے پیشاب  سبزپات اور مقامی طور پر دستیاب دیگر نامیاتی مرکبات کی تحلیل و تخمیر سے تیارکردہ مائع کھادوں کا استعمال بھی عام ہے ۔ کھادوں کے معیار میں پایا جانے والا فرق ہی غالباً نامیاتی اور مروجہ پیداواری نظاموں کے درمیان پائی جانے والی فی ایکڑ پیداوار کے نمایاں فرق کا سبب قرار دیا جا سکتا ہے ۔ تاہم اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ دونوں نظاموں میں غذائی اجزاءکی فراہمی کے طریقوں کا سائنسی انداز میں جائزہ لیا جائے ۔ان اجزاءکا مو ¿ثر استعمال مستقبل میں کی جانے والی زرعی تحقیق کا اہم موضوع بن سکتا ہے ۔

مویشی پالنا ایک قدیم روایت رہی ہے جو نامیاتی زراعت میں اہم کردار ادا کر تے ہیں۔ ایک جانب وہ فصلی رسوبات (Crop Residues)یا کھیت پر اگائے جانے والے چارہ کو خوراک کے طور پر استعمال میں لاتے ہیں تو دوسری جانب گوبر کھاد کی صورت میں نامیاتی مرکبات تغذیاتی فراہمی کو یقینی بناتے ہیں ۔ ڈیری فارمنگ نے خاص طور پر چھوٹے اور غریب کاشتکاروں کی مالی حالت سدھارنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ مختلف تحقیقاتی جائزوں سے یہ امرواضح ہوتا ہے کہ قدرے ترقی یافتہ علاقوں میں بھی چھوٹے کاشتکار کھیت کے محاصل اور کافی مقدار میں حیوانی فضلہ کے حصول میں مددگار ثابت ہوتے ہیںبہرحال کاشتکار ان نامیاتی مادوں کے ذخیرہ کرنے اور ان کے صحیح انداز میں استعمال پر شازہی توجہ دینے کے قابل ہوپاتے ہیں۔اس کی وجہ سے نامیاتی مادوں میں پائے جانے والے 40سے 60 فی صد تغذیاتی، خاص طور پر نائٹروجنی ، اجزا ضائع ہو جاتے ہیں ۔ نامیاتی کاشت میں کاشتکارمخلوط کھاد بنانے  (Composting)اور کُرمی تالیف (Vermi composting)جیسی جدید ٹیکنالوجیوں کے ذریعے ان نقصانات کو کم سے کم کر سکتے ہیں ۔ اس طرح نہ صرف نامیاتی ذرائع سے تغذیاتی اجزاءکی فراہمی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے بلکہ آبی سطح پر آلودگی کے خطرات سے بھی بچا جا سکتا ہے ۔ اب زرعی تحقیق کاروں کا یہ فرض ہے کہ وہ زرعی اراضی کو لاحق خطرات سے نبٹنے کے لئے مٹی میں موجود خُرد بینی جانداروں (Micro organisms)کی صلاحیت اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے محنت کریں ۔

نامیاتی کاشت کاری میں مٹی میں موجود نامیاتی مادوں کے انتظام و انصرام پر زور دیا جاتا ہے تاکہ مٹی کی کیمیائی  حیاتیاتی اور طبیعی خصوصیات میں اضافہ کیا جاسکے ۔ نامیاتی نظام میں زرخیزیِ زمین کا اہم انضباطی اصول یہ بیان کیا جاتا ہے کہ پودے اپنی غذا کے حصول کے لئے محلول کی صورت میں تیار کردہ فوری طور پر دستیاب غذائی اجزاءکی بجائے حیاتیاتی طریقے سے اخذ کردہ خرد غذائی اجزاء (Nutrients)پر انحصار کرتے ہیں۔ چنانچہ مٹی میں موجود ان حیاتیاتی فضلات کو حیاتی توانائی اور غذائی اجزا ءمیں تبدیل کر کے مردہ زمینوں کو تازگی و شادابی اور مفلوک الحال کاشتکاروں کوخوشحال مستقبل جیسی نئی زندگی عطا کی جا سکتی ہے ۔
مروجہ کاشتی طریق کار اور خوراک کے نظام نے غیر منصفانہ تقسیم ثمرات  پیچیدہ ماحولیاتی مسائل اور موسمیاتی تغیرات کو جنم دیا ہے ۔ نامیاتی کھیت اور پیداواری نظام غذائی اجزا کی فراہمی سے متعلق حکمت عملیوں کے نقطہ نظر سے مروجہ کیمیائی کاشتکاری نظام سے یکسر مختلف ہے ۔ نامیاتی کاشت میں مختلف انتظامی متبادلات کا استعمال کیا جاتا ہے جن کا بنیادی مقصد ایسے پیداواری کھیت کی تیاری ہے جنہیں کسی جاندار کی طرح متوازن انداز میں ترقی دی جاتی ہے ۔ کھیت سے غذائی اجزا ء فقط خوراک کی صورت ہی میں باہر لے جائے جا سکتے ہیں ۔ فضلاتی رسوبات کو ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کی سختی سے ممانعت کی جاتی ہے ۔اسی طرح حیوانی فضلات کو غیر سائنسی انداز میںذخیرہ کرنے اور کھیت میں استعمال کرنے سے بھی پرہیز کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نامیاتی کاشت کو مروجہ کاشتکاری نظام کے مقابلے میں زیادہ ماحول دوست اور پائیدار خیال کیا جاتا ہے ۔چنانچہ اب تو دکھائی دیتے چھوٹے کاشت کار اور ماحول دوست جدیدکاشتی طریقے ہی موجودہ عالمی غذائی بحران پر قابو پانے اور انسانی معاشروں کی غذائی ضروریات پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے دکھائی دیتے ہیں ۔


ایسے وسیع پیمانے پر کیمیائی مرکبات کے زیرِاستعمال کھیتوں کو کیا جاتا رہا ہو نامیاتی کاشت کے لیے بروئے کار لانے سے قبل ضروری ہے کہ مقامی طور پر دستیاب وسائل و ذرائع اور ان کی کاشتی سرگرمیوں  آب و ہوا  مٹی اور ماحول سے تعامل کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی غرض سے ممکنہ رکاوٹوں اور تحدیدات کا بغور تنقیدی جائزہ لیا جائے ۔اس سے کھیت کے اپنے غذائی ذخائر کو کام میں لا کر بیرونی ذرائع پر انحصار کو کم کیا جا سکے گا ۔ اس کے لیے ہمیں غذائی اجزا ءکے ضیاع کو ممکنہ حد تکروکنا ہو گا ۔

فصلی تبدل اور مختلف انواع کا انتخاب اس لیے کیا جاتا ہے کہ مقامی حالات سے ہم آہنگی پیدا کر کے فصلوں کو درکار نائٹروجنی اجزا ءکی ضروت کو ممکنہ حد تک پورا کیا جا سکے ۔ فصلوں کے لئے فاسفورس، پوٹاش ،سلفراور خرد غذائی اجزاءکی ضروریات مقامی اور قابل تجدید وسائل سے پوری کی جاتی ہیں ۔ اسی لیے نامیاتی کاشت کو اکثر اوقات مداخل بنیاد کی بجائے علم بنیاد زراعت سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ علاوہ ازیں نامیاتی کھلیانوں کا مقصد دیئے گئے کاشتی حالات میں فصلوں کی پیداواری استعداد میں اضافہ کرنا ہے ۔ اب توبائیوٹیکنالوجی کی تکنیکیوں کے مناسب استعمال سے نئی اقسام کی تیاری کے وسیع تر امکانات تحقیق کاروں کی خصوصی توجہ کے مستحق ہیں ۔

اس جدید طریقے میںخرد بینی جانداروں اور جراثیم کی سرگرمی کے نتیجے میں خارج ہونے والے تغذیاتی اجزا کے ذریعے خوراک فراہم کی جانا ضروری ہے ۔ زرخیز زمین میں حیاتیاتی سرگرمی (Soil Biological Activity)جڑی بوٹیوں کی تلفی، ضار کشی اور نباتاتی امراض کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام اجزا ء اور عوامل کو ایک مربوط نظام کے ساتھ منسلک کیا جائے ۔

حیوانی فضلہ، فصلی رسوبات ،سبز کھاد ، حیاتیاتی کھادیں اور زرعی صنعتوںکے ساتھ ساتھ خوراک تیار کرنے کے عمل میں خارج ہونے والے فضلے سے بننے والے حیاتیاتی ٹھوس مادے وُہ چند ذرائع ہیں جن سے نامیاتی کاشت میں پودوں کو درکار غذائی اجزا ءحاصل ہوتے ہیں۔ اگرچہ حیوانی فضلات کو ایندھن کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے لیکن اسے وسیع پیمانے پر دیسی کھاد بنانے کے کام لایا جاتا ہے ۔ کرمی تالیف، جراثیمی دوایافتہ (Microbe Mediated) صرف فاسفورس یانائٹروجنی فاسفورس سے بنیروڑی جیسی کھاد تیار کرنے کی مختلف ٹیکنالوجیوں کے فروغ اور غذائی اجزا ءبردار معدنیات اور دیگر اضافہ جات کے ذریعے ان کی غذائیت میں اضافہ کر کے دیسی کھادوں کے معیار کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ان دیسی کھادوں (Manures)میں فصلوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے اور زمین میں موجود مفید خرد و کلاں نباتی انواع کی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی مناسب استعداد اور صلاحیت پائی جاتی ہے ۔

اس وقت پاکستان کے کل زیر کاشت رقبہ میں صرف تقریباً 80 فی صد اراضی کے لئے آب پاشی کی سہولیات میسر ہیں جہاں زرعی کیمیائی مرکبات کے استعمال کی شرح بارانی علاقوں کی نسبت قدرے زیادہ ہے ۔ خشک سالی اور پانی کی کمیابی جیسے حالات میں فصلوں کی پیداوار اور پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ ایک حقیقی چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے ۔ نامیاتی کاشت کی بنیادی ضرورت کاشتکاری کے ہر مرحلہ پر ڈالے جانے والے اجزاءکے مُوثراستعمال کو یقینی بنانا ہے۔یہ مقصد وسائل کے ضیاع کی روک تھام اور کھاد میں موجود غذائی اجزا ءکو مزید ثروت مند بنا کر حاصل کیا جا سکتا ہے ۔

نامیاتی کاشت میں کھادوں کے نامیاتی غذائیت میں 3تا 4گنا اضافہ کرنے والی ٹیکنالوجی کا استعمال اب عام ہو چکا ہے ۔ ہمارے ملک میں لاکھوں ٹن زرعی و حیوانی فضلات کے ذخائر پائے جاتے ہیں ۔ قدرتی وسائل پر نامیاتی کاشت کے اثرات کا تقاضا ہے کہ زراعت اور ماحول کے مابین اشتراک عمل کو فروغ دیا جائے جو زرعی پیداوار اور قدرتی وسائل کے تحفظ کے لئے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں ۔ نامیاتی کاشت کے ذریعے ماحول پر مرتب ہونے والے خوشگوار اور مثبت اثرات میں مٹی سازی (soil forming)  ساختی اصلاحات کے ذریعے زمین کی پائیداری  فاضل مادوں کو دوبارہ کارآمد بنانا  کاربن گیری(carbon sequestration)، غذائی اجزا ءکی حلقہ بندی(nutrient cycling) ، جانوروں کی باہمی شکار خوری (Predation)، زیرگی (Pollination)اور حیوانی و نباتی مساکن (Habitats)جیسے عوامل شامل ہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ کیمیائی کاشت کے نتیجے میںماحول پر خوفناک اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ ترقی پذیر ممالک کے کروڑوں زرعی کارکن ہر سال ضارکش ادویات کے زہریلے اثرات کا شکار ہو کر صحت کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں ۔ اس کے برعکس نامیاتی کاشت میں تبدیلی سے ماحول پر پڑنے والے مثبت و خوشگوار اثرات کے شواہد متاثر کن ہیں ۔

نامیاتی کاشت کے معاشی پہلو
نامیاتی کاشت میں بیرونِ کاشت سے مداخل (Inputs) خریدنے کی بہت کم ضرورت ہوتی ہے۔ بس کاشتکاروں کی مویشیوں اور ان کی پیداوار تک رسائی ضروری ہے ۔ دیسی کھادیں اور کیڑے مار ادویات کھیت پر مویشیوں کے فضلہ اور مقامی طور پر دستیاب درختوں اور گھاس پھوس سے تیار کی جاتی ہیں اور حشرات کی روک تھام کے لئے حیاتی اور میکانی طریقے اختیار کئے جاتے ہیں ۔ بیرونی اجزاءکی بجائے برسر کھیت دستیاب وسائل کے استعمال سے عام طور پر مداخل (Inputs) کے متغیر اخراجات میں کمی واقع ہوتی ہے ۔ کھادوں اور زرعی ادویات کے پے در پے سپرے پر اٹھنے والے اخراجات مروجہ کاشتکاری نظام کی نسبت قابل ذکر حد تک کم ہو جاتے ہیں ۔ بعض اوقات مرکباتی یا تالیفی اور دیگر نامیاتی کھادوں کی خریداری کی وجہ سے اخراجات میں قدرے اضافہ دیکھا گیا ہے لیکن مطالعاتی جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نامیاتی کاشت میں داخل کار اجزاءکے کم تر اخراجات اور پیداوار کی قدرے زیادہ نرخوں پر فروخت سے پیداوارمیں واقع ہونے والی ممکنہ کمی کی خاطرخواہ تلافی ہو جاتی ہے اور یوں نامیاتی کاشتکاروں کو کیمیائی کاشت کے برابر ہی نہیںبلکہ اس سے زیادہ منافع حاصل ہوتا ہے ۔

ہمسایہ ملک میں نامیاتی کپاس کی کاشت کے چھ برسوں کے معاشی جائزہ سے کپاس کی کاشت پر اٹھنے والے کل اخراجات میں کمی اور کاشتکاروں کے کل منافع اور خالص آمدن میں اضافہ کی نشاندہی ہوئی ہے ۔ دنیا کے ترقی پذیر ممالک کی نامیاتی کاشت میں دلچسپی میں رو ز بروز اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ اس نظام میں زیادہ تر دستیاب قدرتی اور انسانی وسائل پر انحصار کیا جاتا ہے ۔ مالی اخراجات کے لئے کم سرمایہ درکار ہوتا ہے ۔ آلودگی سے پاک صحت بخش خوراک حاصل ہوتی ہے اور ماحول کے تحفظ کو یقینی بنایاجا سکتا ہے ۔ مطالعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خاص طور پر بارانی اور نسبتاً کم زرخیز اور وسائل سے محروم علاقوں میں نامیاتی کاشت کیمیائی کاشت کے مقابلے میں زیادہ مفید اور منافع بخش طریق کار ۔ہے۔ اس کے نتیجہ میں مزدوروں کو بہتر معاوضہ ملتا ہے خاص طور پر ان علاقوں میںجہاں کارکنوں کوا ُجرت دینے کا رواج نہیں پایا جاتا ۔ نامیاتی زرعی پالیسیوں کے نفاذ سے پسماندہ علاقوں میں خوراک کی بلا روک فراہمی کے امکانات میں اضافہ کیا جا سکتا ہے ۔ نامیاتی کاشت میں دوغلے بیجوں کی بجائے دیسی اقسام کے بیجوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ لہٰذاکاشت کار بیج فروش کمپنیوں پر انحصار نہیں کرتے ۔ اس نظام میں دیہی خواتین بیجوں کے تحفظ اور چناﺅ میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔

نامیاتی کاشت کے سب سے خوشگوار اثرات مقامی افراد کے ذہنوں پر مرتب ہوتے ہیں۔کیمیائی مادوں کے مضر اثرات کے شعور نے لوگوں کا ذہن بدل کر رکھ دیا ہے اور اب وہ نامیاتی پیداوار کے لئے زائد قیمت بھی ادا کرنے کو تیار ہوتے ہیں ۔ اس نظام میں دیسی و روایتی طریقے اور زراعت سے متعلق سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والے علمی ورثہ کو جدید ٹیکنالوجیوں کے ساتھ ملا کر کام میں لایا جاتا ہے۔ اس طرح کاشتکاری نظام میں حیاتیاتی اصولوں اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ماحولیاتی تنوع میں اضافہ کیا جاسکتا ہے ۔ نامیاتی کاشت کا طریقہ اپنانے والے کاشتکار اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ درخت نہیں کاٹتے ، پرندے نہیں مارتے ،پانی اور مٹی کو کیمیائی مادوں سے زہر آلود نہیں کرتے ۔ ان کا کہنا ہے © © © © کہ © © ©ہم فطرت کا احترام کرتے ہیں اور وہی ہمیں تحفظ فراہم کرتی ہے ©۔ نامیاتی کاشت کے نظام میں مقامی رواج اور روایات ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے کی بجائے ترقیاتی عمل کا ایک ناگزیر حصہ بن جاتی ہیں ۔ اس طرح کاشتکاروں کو بالکل نئے تناظر میں سیکھنے  نئے نئے طریقے وضع کرنے اور دیہی آبادی کے لئے روزگار کے نئے مواقع میسر آتے ہیں اور معاشی استحکام میںبھی مدد ملتی ہے۔ غرض مقامی وسائل کے استعمال پر زور دے کر اور خودانحصاری کی پالیسی اپنا کر نامیاتی کاشت کی طرف سفر سے کاشتکاروں اور مقامی آبادیوں کو خوشحال بنایا جا سکتا ہے ۔ ایک عالمی مطالعاتی جائزہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ نامیاتی کاشت ہی وہ واحد راستہ ہے جو غریب و پسماندہ کسانوں کو افلاس سے نجات دلا سکتا ہے بشرطیکہ وہ باہم مل جل کر کام کرنا سیکھیں اور ادارہ جاتی امداد و تعاون حاصل کریں ۔

نامیاتی کاشت کے نظام میں ساختی تبدیلیوں (Structural Changes) اور کاشتکاری سرگرمیوں کو مدبرانہ انداز میں منظم کر کے ہم مالی اور ماحولیاتی دونوں فوائد حاصل کر سکتے ہیں ۔ نامیاتی کاشت سے ترقی یافتہ ممالک کو تحفظ ماحول، حیاتی تنوع میں اضافہ، توانائی کے استعمال اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی جبکہ ترقی پذیر ممالک کو وسائل کے دیرپا استعمال، مہنگے داخل کار اجزاءپر انحصار کے بغیر فی ایکڑ پیداوا ر میں اضافہ اور حیاتی تنوع کے ساتھ ساتھ ماحول میں بہتری جیسے فوائد و ثمرات بھی حاصل ہوتے ہیں ۔عالمی ادارہ ایفاد کی حالیہ تحقیق کے مطابق جس میں بے شمار تحقیق کاروں نے حصہ لیا نامیاتی کاروبار میں دوکاندار سے لے کر کاشتکار تک ہر شخص پہلے سے زیادہ آمدنی حاصل کر رہا ہے ۔ حکومت نجی شعبہ اور پیداواری سرگرمیوں سے وابستہ افراد اور تنظیموں کا فرض ہے کہ وہ نامیاتی اشیاءکی فروخت کاری کے استحکام میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں تاکہ قومی سطح پر زمینی و انسانی صحت کی بحالی  ماحول کی بہتری  بے روزگاری میں کمی اور دیہی معیشت کے سدھار جیسے مقاصد حاصل کیے جا سکیں ۔

خشک اور بارانی علاقوںمیں جہاں کی زمین سالہا سال سے بنجرو بے آباد پڑی ہے اور سماجی ،معاشی اور ماحولیاتی عوامل بھی بے حد سازگار ہیں ۔ نامیاتی کاشت کی کامیابی کے وسیع تر امکانات پائے جاتے ہیں ۔ خشک و بارانی علاقوں میں ان زمینوں کو عبوری دور میں لاحق پیداوار میں ممکنہ کمی کے خطرات سے بے خوف ہو کر فوری طور پر زیر استعمال لایا جا سکتا ہے ۔

نسل در نسل منتقل ہونے والی سینہ بہ سینہ مقامی روایات،ادویات ،استعمالات ،گھریلو معمولات ، دیہی رسوم و رواجات ،مختلف مواقع پر درپیش مقامی نوعیت کے زرعی و غیر زرعی مسائل و مشکلات کے حل کے لئے صدیوں سے کی جانے والی تدابیر سے متعلق ایک گرانقدر خزینہ ہمارے پاس موجود ہے۔ البتہ دم توڑتی بوڑھی نسل اور تیزی سے بدلتی ثقافتی اقدار کے ساتھ بڑی سرعت سے ناپید ہوتا ہو جا رہا ہے ۔ اس دیہی ثقافتی ورثہ کے تحفظ سے ہم نامیاتی کاشت کو ایک موثر ، منافع بخش اور ماحول دوست نظام کے طور پر کامیاب بنا سکتے ہیں ۔

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی نامیاتی کاشت تیزی سے فروغ پذیر ہے۔ 2006-07 کے دوران نامیاتی نظام کے تحت تقریباً 37ہزار ایکڑپر اجناس، 29 ہزار ایکڑ پر کنو اور 10ہزار ایکڑ پر کماد کاشت کیا گیا۔ سندھ، شما لی علاقوں اور پنجاب میں نامیاتی کاشت کے اصولوں پر مختلف پھلوں، فصلوں ، سبزیوں اور ادویاتی پودوں کی وسیع پیما نے پر کاشت کا عمل شروع ہو چکاہے۔ کیمیائی کھادو ں ، زرعی ادویات و مرکبات اور دوغلے بیجوں کی فروخت سے وابستہ بین الاقوامی کمپنیوں کی ہوسِ زر اور استحصالی ہتھکنڈوں سے وطنِ عزیز کے کاشتکاروں کو محفوظ رکھنے، عوام اور ارضِ پاک کے حتمی تحفظ ، دیہی معیشت کے استحکام اور بے روزگاری کے خاتمہ کے لئے نامیاتی کاشت کے نظام کو اپنانا قومی سطح پر اپنی متاع گُم گشتہ کی بازیافت کے مترادف ہو گا۔
کاشتکاروں کی پیداوار کی قدرو قیمت او ر ان کی فروخت کاری کی صلاحیت میں اضافہ کے لئے نامیاتی کاشت کے ان تمام عناصر و عوامل کو ایک لڑی میں اس طرح پروناکہ وہ باہم مل کر ایک مُوثر نظام تشکیل دے سکیں  ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے لئے ہمیں اُن ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھانا ہو گا جہاںاِس وقت نامیاتی کاشت کا نظام کامیابی سے جاری ہے ۔
Muhammad Aslam Alwari
About the Author: Muhammad Aslam Alwari Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.