اللہ کے دستِ قدرت میں کیا نہیں؟
اللہ چاہے تو کسی کو بے حساب نوازے اور کسی پر بے حساب مصائب لاد دے۔ کبھی
اِس بات پر غور کیجیے کہ اللہ کے کرم اور فضل کی تو کوئی حد نہیں مگر مصیبت
اور پریشانی کے معاملے میں وہ عادل ہے۔ اللہ نے اپنے کلام میں وضاحت کردی
ہے کہ وہ کسی پر اس کی استطاعت سے زیادہ (پریشانیوں اور مصائب کا) بوجھ
نہیں ڈالتا۔ اور پھر اِس نکتے پر غور فرمائیے کہ ہم اِنسان کبھی سوچتے ہی
نہیں کہ کسی پر کتنا بوجھ لادنا چاہیے! بات انسانوں تک ہو تو کوئی بات نہیں۔
مشکل یہ ہے کہ بے زبان جانوروں پر اِتنا بوجھ لادا جاتا ہے کہ ان کی حالت
دیکھ کر دِل کو صرف دکھ پہنچتا ہے۔ یہ جانور بتا بھی نہیں سکتے کہ انہیں
کتنی تکلیف کا سامنا ہے۔ ذرا سی گدھا گاڑی پر رکشہ کی پوری باڈی لادنا
افسوس ناک اور شرم ناک ہے۔ اگر رکشہ کی باڈی کو مضبوطی سے باندھ دیا جائے
تب بھی خود گاڑی پلٹ سکتی ہے! مگر اتنا کون سوچتا ہے؟ لوگوں کو دیہاڑی
بنانے سے غرض ہوتی ہے۔ یہ فکر کسی کو لاحق نہیں ہوتی کہ جو کچھ کام کیا
جارہا ہے اس کا نتیجہ کیا برآمد ہوگا۔
|
|
آپ تصویر میں جس گدھے کو دیکھ رہے ہیں وہ سراسر عوامی معلوم ہوتا ہے!
پاکستان کے عوام بھی تو اِسی طور دسیوں طرح کے بوجھ اٹھائے جئے جارہے ہیں۔
حکومت کی نا اہلی، مہنگائی، سرکاری اداروں کا خسارہ، امن و امان کی صورتِ
حال، خفیہ اداروں کی ناکامی، اخلاقی اقدار کا زوال، معاشی ابتری اور پتہ
نہیں کون کون سا بوجھ عوام کے ناتواں کاندھوں پر لاد دیا گیا ہے۔ عوام میں
گدھوں کی خوئے تسلیم و رضا پائی جاتی ہے یعنی بے زبانی کو شعار بنائے رہتے
ہیں اور ہر طرح کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں! عوام کی زندگی بھی گدھا گاڑی
جیسی ہوگئی ہے جس پر گنجائش سے زائد سامان لادنا معمول بن گیا ہے۔ نتیجہ یہ
نکلتا ہے کہ کبھی کبھی بوجھ کی زیادتی سے عوامی زندگی کی گاڑی پلٹ بھی جاتی
ہے۔ ایک کے بعد ایک مصیبت لادی جاتی رہے اور ممکنہ نتائج کے بارے میں سوچنے
کی زحمت ہی گوارا نہ کی جائے تو یہی نتیجہ برآمد ہوگا۔
معاشرے میں توازن اُسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب تمام معاملات متوازن ہوں۔ کسی
پر ظلم اور زیادتی کا بوجھ نہ لادا جائے۔ اگر حکومتیں سوچے سمجھے بغیر عوام
پر بوجھ لادتی جائیں تو معاملات بالآخر خرابی پر منتج ہوتے ہیں۔ عوام کو
یاد رکھنا چاہیے کہ اُن کے چند بنیادی حقوق ہیں اور اِن حقوق کی پاس داری
کے بغیر معاملات صرف خرابی کی طرف جاتے ہیں۔ اگر توجہ نہ دلائی جائے تو
زیادتی بڑھتی ہی جاتی ہے۔ گدھے بے زبانی کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ اِنسان کا
معاملہ مختلف ہے۔ اُسے کِسی بھی ظلم یا زیادتی کے خلاف خود بھی آواز اٹھانی
چاہیے اور حیوانات سے روا رکھی جانے والی زیادتی کے تدارک کے لیے کوشاں
رہنا چاہیے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہر انسان کو بہتر انداز سے زندہ
رہنے کا حق حاصل ہے۔ جتنی جدوجہد کی جائے اس کا صلہ بھی ملنا چاہیے۔ جس طور
محنت کے بغیر کچھ لینا بری بات ہے بالکل اُسی طرح محنت کے باوجود کچھ نہ
پانا بھی مستحسن نہیں۔ انسان کو ظلم کرنے کے ساتھ ساتھ ظلم سہنے سے بھی باز
رہنا چاہیے۔ |