از:محمد میاں مالیگ(لندن)
۱۵ جنوری ۲۰۱۳ء کے جنگ لندن میں برمنگھم کے عالی جناب سمیع شاکر کی ایک
تحریر ’’قبروں کے ساہوکار‘‘ فیل تن سُرخی کے ساتھ شائع کی گئی ہے، جس میں
۱۶اور۲۵ستمبر ۲۰۱۲ء کے جنگ میں شائع شدہ بریڈ فورڈ کے عالی جناب مولانا
صاحب ایف ڈی فاروقی کی ایسی ہی موٹی تازی سُرخیوں والی ایک تحریر ’’قبروں
میں مدفون کیا ہماری مدد کر سکتے ہیں؟‘‘ کو سچائیوں سے بھرپور مدلل تحریر
کہا گیا ہے، بلکہ ان دونوں سے بھی پہلے ۱۴جون ۲۰۱۲ء کے جنگ میں بھی برمنگھم
کے عالی جناب تصدق حسین صاحب آڑوی کی ایسی ہی جلی سُرخیوں والی ایک تحریر
’’قبروں کے پجاری‘‘ کے عنوان سے شائع کی گئی ہے جن کے جواب میں ۲۰ جون اور
یکم اکتوبر ۲۰۱۲ء کو ’’امریکہ کے پجاری منکرین فضائل رسالت‘‘ اور ’’میاں
محمد بخش رحمۃاﷲ تعالیٰ علیہ اور رسول بخش پلیچو اور غوث بخش بزنجو‘‘ کے
عناوین سے دو دو اور آٹھ آٹھ صفحات پر مشتمل دو دو تحاریر ہم نے جنگ کو
ارسال کی ہیں لیکن معلوم نہیں کیوں بھوکے پیاسے منکرین فضائل رسالت کی ہر
ہر تحریر کو جگہ دینے والے جنگ نے ہماری غریب تحریر کو ہضم نہیں کیا اور
اسے ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا ہے ، لیکن بہر حال اور بہر صورت قبروں سے
متعلق جنگ کی اس تیسری تحریر کے جواب میں بھی ہم ایک اصولی تحریر جنگ کو دے
رہے ہیں اس امید کے ساتھ کہ یہ اسے ضرور جگہ دے دیدے گا لہٰذا چل مِرے خامہ
بسم اﷲ!
دیکھیے سمیع شاکر نے بھی پہلوں کی طرح واضح لفظوں میں لکھا ہے کہ (مفہوم):’’قبروں
پر امید پوری کرانے کے لیے جانا بلکہ ہر مسئلے کے حل کے لیے زندہ پیروں یا
قبروں میں مدفون کے پاس جانا یا ان کا وسیلہ واسطہ لینا دینا شرک شرک اور
شرک ہے‘‘……لہٰذا ان حضرات بلکہ تمام منکرین فضائل رسالت سے خصوصاً نور حسین
جعفری وغیرہ سے عاجزانہ اور مودبانہ سوال ہے کہ یہ جواب عطا کریں کہ آپ
حضرات کے نزدیک بھی اگر مومنین فضائل رسالت کی طرح اﷲ رب تبارک و تعالیٰ
واقعی طور صحیح معنوں میں واحدہ لاشریک لہٗ ہے یعنی کوئی بھی مخلوق اور
غیراﷲ خواہ زندہ ہو یا مردہ، خواہ مدفون ہو یا محضور، اﷲ کا شریک ، اﷲ کا
ساجھی اور اﷲ کا پارٹنر نہیں، ہرگز نہیں، بالکل نہیں، تو پھر کیوں اور کیسے؟
دال چاول آٹے گوشت مٹر آم آلو ادرک لہسن مرچی نمک سبزی بھاجی پھل فروٹ دوا
اور شفا کے حصول کی خاطر دکانداروں، ڈاکٹروں، طبیبوں اور حکیموں وکیلوں کے
پاس جانا تو منکرین فضائل رسالت کے نزدیک شرک صریح، شرک عظیم اور شرک مبین
نہیں نہیں نہیں،عین توحید خالص ہے، لیکن قرآن پاک(۱۰۷:۱۲۸/۲۱:۹) کے مطابق
مونسِ بے کساں چارہ ساز درد منداں حاجت روا اور مشکل کشا حاضر و ناظر غیب
کے عالم رؤف رحیم اور رحمۃللعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس جانا
شرک شرک اور شرک ہے،اس کی وجہ کیا ہے،یعنی کیا اﷲ رب تبارک و تعالیٰ منکرین
فضائل رسالت کے یہاں واقعی طور پر صحیح معنوں میں واحدہٗ لاشریک لہٗ نہیں
بلکہ دکاندار، ڈاکٹر، طبیب، حکیم اور وکیل وغیرہ وغیرہ اس کے شریک ساجھی
اور پارٹنر ہیں، بلکہ اس طرح منکرین فضائل رسالت ہمارے اس بھاری بھرکم یا
ہلکے پھلکے سوال کا جواب بھی ضرور عطا کریں کہ آپ حضرات کی توحید خالص کے
مطابق کیوں اور کیسے نماز اور روزے،حج و زکوٰۃ اور شریعت کی پابندی کے اﷲ
کی بارگاہ میں قبول ہونے یا نہ ہونے کے یقینی علم کے بغیر بھی ان کے وسیلے
اور واسطے دے کر اﷲ تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اور اپنی دعاؤں اور
حاجتوں کو پہنچانا اور لے جانا تو جائز ،روا،گوارا، اور عین توحید خالص ہے
لیکن مگر خدا کی قسم اﷲ کی بارگاہ میں بہر حال اور بہر صورت سو فی صد مقبول
اور منظور رؤف رحیم اور رحمۃللعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے انھیں
مقاصد اور مطالب کے حصول کے لیے وسیلے اور واسطے لینے دینے شرک شرک شرک اور
بدعت بدعت بدعت،در آں حال کہ قرآن پاک(۹۶:۳۷)موحد اعظم سیدنا ابراہیم علیہ
السلام کا مشہور و معروف قول پاک (مفہوم): ’’ اﷲ نے خلق کیا تم کو اور
تمہارے اعمال کو‘‘……آج بھی جگمگ جگمگ کر رہا ہے جس کا نہایت ہی واضح اور
روشن مطلب یہ ہوتا ہے کہ جیسے آمنہ کے لعل اور مدینے کے چاند ارواحنا فداہ
صلی اﷲ علیہ وسلم مخلوق اور غیراﷲ ہیں، بلکہ ایسے ہی نماز روزے حج و زکوٰۃ
اور شریعت کی پابندیاں بھی مخلوق مخلوق مخلوق اور غیراﷲ غیراﷲ غیراﷲ ہیں،
الہٰ تو ہرگز ہرگز نہیں لہٰذا اندریں حالات جواب عطا ہو کہ ایک مقبول اور
منظور بلکہ نامقبول اور نامنظور مخلوق اور غیراﷲ کا وسیلہ اور واسطہ لینا
دینا کیوں اور کیسے ناشرک اور جائز و روا، لیکن مگر دوسری سو فی صد مقبول و
منظور مخلوق اور غیراﷲ ارواحنافداہ صلی اﷲ علیہ وسلم کا وسیلہ اور واسطہ
لینا دینا بہر صورت اور بہر حال شرک شرک اور شرک ……تو آخر اس تقسیم اور اس
تفریق کی وجہ کیا ہے؟ بلکہ آمنہ کے لعل اور مدینے کے چاند صلی اﷲ علیہ وسلم
کے وسیلے اور واسطے لینے دینے کو شرک شرک شرک اور بدعت بدعت بدعت قرار دینے
والے موحدو! یہ بھی دیکھو کہ اﷲ تعالیٰ تو قرآن پاک (۵۷:۱۷)میں نہایت واضح
لفظوں میں (مفہوم)’’مومنوں کو اﷲ کی رحمت کا امیدوار اور اس کے عذاب سے
ڈرنے والا قرار دے رہا ہے۔ جو اپنے رب کی طرف اپنے سے زیادہ مقرب مخلوق
بندوں کا وسیلہ ڈھونڈتے ہیں۔‘‘جب کہ منکرین فضائل رسالت بعد از خدا سب سے
زیادہ مقرب الہٰ ،صلی اﷲ علیہ وسلم کے وسیلے واسطے لینے دینے والے مومنین
فضائل رسالت کو ہی مشرک مشرک مشرک اور بدعتی بدعتی بدعتی کہتے رہتے
ہیں،لہٰذا اب بتاؤ کہ خدائے پاک کے ہم سادہ دل بندے کہاں جائیں؟ کہاں اور
کس جگہ شرک و بدعت سے اماں پائیں؟ بلکہ انکار فضائل رسالت پر نہایت ہی
ڈھٹائی سے جمے رہنے والے اے لوگو! قرآن پاک (۳۵:۵)میں اﷲ رب تبارک و تعالیٰ
کا یہ حکم اور یہ امر بھی دیکھو کہ(مفہوم):’’مومنو!اﷲ سے ڈرو اور اس کی طرف
وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاسکو‘‘……لہٰذا
اس نہایت ہی آسان اور واضح آیت کو بار بار غور و خوض سے پڑھ اور سمجھ کر
بتاؤ کہ قرآن میں بیان شدہ ان تین احکام میں سے اﷲ تعالیٰ سے متعلق دو
احکام اﷲ سے ڈرنا اور اﷲ کی راہ میں جہاد کرنا کیوں اور کیسے جائز وروا اور
……توحید خالص……لیکن آمنہ کے لعل اور مدینے کے چاند صلی اﷲ علیہ وسلم سے
متعلق صرف اور صرف تیسرا حکم وسیلہ اور واسطہ لینا دینا ناجائز و ناروا
بلکہ شرک شرک اور شرک ہے تو آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ بلکہ منکر فضائل رسالت
سمیع شاکر نے اپنا بلڈ پریشر ہمیشہ ہی آسمانوں پر رکھنے والے مومنین فضائل
رسالت کو اسے تھوڑاسا نیچے اتار کر ٹھنڈے دل سے شرک و بدعت سے متعلق منکرین
فضائل رسالت کی تحاریر کو پڑھنے کا مخلصانہ مشورہ بھی دیا ہے اس لیے اس پر
آمنا و صدقنا کہتے ہوئے صدق دل سے عرض ہے کہ قرآن پاک(۱۵۳:۴۵/۲:۲)میں اﷲ
تعالیٰ تو یہ حکم اور امر فرماتا ہے کہ (مفہوم)’’مومنو! صبر اور نماز سے
مدد چاہو مدد مانگا کرو‘‘……جب کہ اس کے صد فی صد خلاف منکرین فضائل رسالت
یہ کہتے ہیں کہ ’’غیراﷲ سے مدد مانگنا اور مخلوق کو پکارنا شرک شرک اور شرک
ہے؟‘‘……تو کیا صبر اور نماز، غیراﷲ نہیں……اﷲ……ہیں؟ مخلوق نہیں……الہٰ……ہیں؟
بلکہ انھوں نے تو اپنی تحریر میں یہ ……توحید خالص بھی بگھار ڈالی ہے کہ (مفہوم)’’
جو مر گیا اور دفن ہوگیا سورۂ نحل کے مطابق وہ جب سن ہی نہیں سکتا بول ہی
نہیں سکتا تو پھر کیوں اور کیسے یہ حاجتیں پوری کر سکتا ہے؟ کیوں اور کیسے
یہ مُرادیں بر لا سکتا ہے؟
حالاں کہ بالکل اسی طرح تو خدا کی قسم……صبر اور نماز……بھی نہ سن سکتے ہیں
نہ بول سکتے ہیں اندریں حالات منکرین فضائل رسالت جواب دیں کہ اب ہم کس کی
مانیں اور کس کی سنیں؟ اپنے اﷲ کی یا منکرین فضائل رسالت کی ؟ یعنی بہ
الفاظ دیگر سن اور بول نہ سکنے والے صبرونماز سے مدد مانگنے کو توحید خالص
سمجھیں یا شرک و بدعت؟ بلکہ سمیع شاکر نے اپنی تحریر میں اس بدعقیدگی کا
اظہار بھی کیا ہے کہ (مفہوم): ’’جو مر گیا اور دفن ہو گیا اس کے جسد خاکی
کو تو چند برسوں بعد مٹی چاٹ جاتی ہے پھر یہ کیوں اور کیسے کسی کی حاجت
روائی اور مشکل کشائی کر سکتا ہے؟…… حالاں کہ ان سے بھی بڑے……موحد خالص……ہونے
کے مدعی برطانیہ کے بڑے بڑے منکرین فضائل رسالت نے مارچ ۲۰۱۲ء کے اپنے ماہ
نامے ’صراطِ مستقیم‘ میں پہلے تو عبدالرب ثاقب کے قلم سے واضح طور پر یہ
لکھا تھا کہ (مفہوم): ’’رسول اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے قبر میں
دنیوی زندگی حاصل ہونے کا عقیدہ رکھنا تمام محدثین اور فقہا کے مطابق غلط
جھوٹ باطل اور فاسد عقیدہ ہے البتہ شہدا کی طرح برزخی زندگی ضرور آپ کو
حاصل تھی‘‘……لیکن پھر الحق یعلو اولا یعلیٰ کے مطابق خواہی نخواہی ان کی
گوش مالی کرتے ہوئے ستمبر ۲۰۱۲ء کے صراط مستقیم میں ۱۴۰۰برس کی تاریخ اہل
حدیث کے سب سے بڑے عالم وخادم مانے اور سمجھے جانے والے ڈاکٹر بہاء الدین
کے قلم سے وہ بھی قرآن کے بعد سب سے زیادہ صحیح اور سمجھی جانے والی کتاب
کے مؤلف امام بخاری علیہ الرحمۃ کے حوالے سے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے
کہ (مفہوم):’’مختلف رباعیات سے گزر جانے والے محدثین کو نہ صرف یہ کہ برزخی
اور اخروی بلکہ ابدی حیات بھی حاصل ہوتی ہے ، یہ تو اعلیٰ علییین میں نبیوں
کی قربت سے بھی مشرف ہوتے ہیں‘‘……لہٰذا منکرین فضائل رسالت ٹھنڈے دل سے
سوچیں کہ اندریں حالات بھی آمنہ کے لعل اور مدینے کے چاند صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم کو منھ بھر بھر کے-مٹی کے ڈھیر-لکھنا اور کہنا ان کو-رؤف رحیم
اور رحمۃللعالمین- سمجھنے کے مترادف ہے یا مخالف؟ ان کو جنتی قرار دینا ہے
یا جہنمی؟ بلکہ وہ اس سوال کا جواب بھی دیں کہ قرآن پاک
(۸:۲۲/۹۸:۳۱/۴۲:۱۲۲/۴۱،۵۷:۴) وغیرہ وغیرہ کے مطابق جب شافع روزِ جزا اور
دافع جملہ بلا سیدنا محمد عربی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شفاعت سے قیامت
کے بعد جنت پانے والے خوش نصیب مومنین فضائل رسالت کو اﷲ تعالیٰ نہ صرف یہ
کہ حیات ابدی اور جنت نعیم عطا فرمائے گا بلکہ وہاں انھیں جو کچھ وہ چاہیں
گے دیا بھی جائے گا، ان کی ہر ہر خواہش اور ہر ہر تمنا پوری بھی کی جائے گی،
کوئی بھی مراد رد نہ کی جائے گی، تو پھر کیوں اور کیسے قبر کی جنت اور حیات
ابدی کے آج بھی حامل سیدنا محمد عربی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ہی نہ صرف
یہ کہ ان کی ہرہر تمنا، ہر ہر آرزو اور ہرہر خواہش کی تکمیل سے محروم رکھا
جائے گا، ان کی کسی بھی مراد کو پورا نہ کیا جائے گا بلکہ ان کے جسم مقدس و
معطر کو مٹی چاٹ بھی جائے گی ، تو آخر اس رسول دشمنی کی وجہ کیا ہے؟ آخر
انھوں نے کیا گناہ اور کیا جرم کر ڈالا ہے؟ اﷲ اﷲ! منکرین فضائل رسالت کی
دنیا پرستی دولت پرستی اور زرپرستی کے بھی کیا کہنے کہ اپنی اپنی بادشاہتوں
اور اپنے اپنے تخت وتاج کو اسرائیل اور امریکہ اور اقوام متحدہ کے وسیلے
اور واسطے لے دے کر مضبوط ومستحکم بنائے رکھنے والے خلیجی ممالک کے مطلب
پرست اور خود غرض بادشاہوں بلکہ ائمۂ حرمین شریفین کی جائز و ناجائز اکثرو
بیشتر حرکات و سکنات کی تائید و حمایت میں تو یہ مطلق چپ اور خاموش نہیں
رہتے،فوراً ہی مبارک بادیاں پیش کرنے لگتے ہیں،کیوں کہ یہ بادشاہ کھربوں
کھرب روپئے پیسے پاؤنڈ ڈالر اور ریال دیتے رہتے ہیں تا کہ یہ ان کے ذریعے
شرک و بدعات اور عیدین کے تعین کے عنوانات سے مسلسل اور لگاتار مسلمانوں کو
کافروں سے نہیں بلکہ مسلمانوں ہی سے لڑاتے بھڑاتے رہیں اور ان کے نتیجے میں
اسرائیل و امریکہ ان سے راضی اور خوش رہ کر ان کی بادشاہتوں اور ان کے تخت
و تاج کے محافظ و نگراں بنے رہیں لیکن ان کی چھوٹی موٹی تو کیا بڑی سے بڑی
غلطی پر بھی کچھ نہیں بولتے، منھ نہیں کھولتے،گونگے بہرے اور اندھے بنے
رہتے ہیں جس کا جیتا جاگتا اور تازہ بتازہ ثبوت یہ ہے کہ ابھی ابھی ۲۰۱۳ء
کے بالکل ابتدائی ایام میں ہی دنیا بھر کے اخبارات میں خبر آئی ہے کہ دولت
و ثروت کے حامل سعودی عرب کے نوے برس ایک بوڑھے شیخ فانی نے ہزاروں ریال دے
کر بالکل پندرہ برس کی ایک ایسی لڑکی سے شادی کر لی ہے جو اس سے اتنی خوف
زدہ یا متنفر ہے کہ پہلے ہی دن کسی حیلے بہانے سے بوڑھے کوایک کمرے میں
مقفل کر کے اپنے والدین کے گھر بھاگ کھڑی ہوئی تھی بلکہ اخبارات میں واضح
لفظوں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سعودی عربیہ میں ایسے واقعات ہزاروں کی
تعداد میں وقوع پذیر ہو رہے ہیں، اور اس حقیقت کے تو پوری دنیا کے لاکھوں
لاکھ حجاج و معتمرین گواہ ہیں کہ سعودی بادشاہوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے
حرمین شریفین میں بے شمار ایسے تنخواہ خوار شرطے اور مقررین مقرر کر رکھے
ہیں جو سو فی صد نہایت ہی مقدس ومبارک مقامات کی زیارت سے نہ صرف یہ کہ
زائرین کو شرک وبدعت کی وعیدیں سنا سنا کر روکتے ہیں بلکہ اب تو جولائی
۲۰۱۲ء کے ماہ نامہ صراط مستقیم کے مطابق اﷲ کے پیارے محبوب صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم سے محبت کرنے والے کوہ احد کے غار کے دہانے کو بھی سیمنٹ کی
مضبوط دیوارسے بند کر دیا ہے، بلکہ ہر ہر نماز کے بعد حرمین شریفین میں
محافل سجا سجا کر ہرہرزبان میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے مدد
مانگنے،ان کو پکارنے، ان کا وسیلہ واسطہ لینے دینے، ان کو حاجت روا اور
مشکل کشا ماننے اور سمجھنے کو بھی شرک شرک اور شرک کہتے رہتے ہیں، بلکہ حد
ہو گئی کہ غالباً خطبۂ حج میں بھی اب یہی کچھ ہونے لگا ہے لیکن کوئی بھی
منکر فضائل رسالت حتیٰ کہ نور حسین جعفری تک چونچ نہیں کھول رہے ہیں کہ اس
نہایت ہی غلط کھوٹے اور من گھڑت عقیدے کو اگر صحیح اور درست مان لیا جائے
تسلیم کر لیا جائے تو از آدم تا آخری آدم کوئی بھی بشر اور آدمی مشرک مشرک
اور مشرک ہونے سے نہیں بچسکتا،ہرگز نہیں بچ سکتا،بالکل نہیں بچ سکتا، شک و
شبہ ہو تو منکرین فضائل رسالت زور آزمائی کر کے دیکھ لیں……اور اس سلسلے کی
نہایت ہی حیرت ناک اور تعجب خیز آخری بات یہ کہ جن رسول اﷲ رحمۃللعالمین
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے وسیلے اور واسطے کے لینے دینے کو شرک شرک اور
شرک ثابت کرنے کے لیے سمیع شاکر نے ایک سو سطور لکھ ڈالی ہیں بالکل انھیں
رحمۃللعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے وسیلے اور واسطے کے لینے دینے کے
فیوض و برکات کا انھوں نے ہی بالکل اپنی اس تحریر میں ان الفاظ میں اقرار و
اعتراف کر لیا ہے کہ (مفہوم):’’میں ذاتی طور پر جب ان تعویذوں پیروں فقیروں
اور مزاروں کے جھمیلے سے نکلا اور رحمۃللعالمین سے رجوع کیا تو خدا کی رحمت
آہستہ آہستہ برسنے لگی‘‘……لہٰذا کوئی منکر فضائل رسالت بتائے کہ ان کا یہ
اقرار و اعتراف کیاہم مومنین فضائل رسالت پر اﷲ کا فضل اور منکرین فضائل
رسالت پر اﷲ کا قہر نہیں؟اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ |