آج پورا پاکستان ، فرقہ وارنہ
دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ، بےگناہ انسانوں کو مذہب ، فرقہ کی بنیاد پر
ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔اسلام کے نام لیواﺅں کو کسی غیر مسلم
ملک میں نہیں بلکہ ، اسلام کے نام پر حاصل کئے ، قائد کے پاکستان میں فرقہ
واریت کے نام پر دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے۔پاکستان کا قیام اس
لئے عمل میں لایا گیا تھا کہ یہاں مذہبی رواداری اور اخوت سے دنیا بھر کے
انسانوں کو مسلمانوں کی جانب سے کردار و عمل کی بے شمار مثالیں پیش کیں
جائیں گی۔اور پاکستان کےلئے مسلمانوں نے جو بے مثال قربانی کے ذریعے حق و
صداقت کی جو شمع روشن کی تھی ، ایسے تاابد تک روشن رکھا جائے گا اور جو
خواب علامہ اقبال اور قائد اعظم نے دیکھا اور اپنے عمل و صبر و برداشت سے
دلائل کے زور پر ایک ایسا خطہ حاصل کیا جہاں ، اللہ تعالی کی مخلوق ، اپنی
مذہبی آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں۔ پاکستان حاصل کرنے میں جن لوگوں نے
شہادتیں دیں تو انھوں نے دنیا کو دیکھا دیا کہ جذبہ اگر صادق ،صبر کی قوت ،
تسلیم و رضا کی کیفیت اور ایمان کی حرات موجود ہو تو ، اپنے مقاصد کےلئے
عملی شہادت پیش کرنا مقصود ہو تو فتح ہمیشہ حق کی ہوتی ہے۔ عظیم مقصد کےلئے
جان دینے والا ہی حق و باطل کی ہر تصویر کے ہررنگ کے فرق کو نمایاں کرکے
بتا سکتا تھا کہ کامیابی صرف ظاہری وقتی اور ظاہری فتح کا نام نہیں ، آخری
تجزیے میں یہ اللہ کی راہ پرچلنے والوں کا مقدر بنتی ہے، چاہے انھیں اسلام
کے نام پر ، شدت پسندی کرنے والے وقتی مغلوب ہی کیوں نہ کردیں۔تعلیمات
اسلامی کی عظیم مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ ایثار مدینہ سے لیکر کربلا کے
معرکہ تک ، صرف حق کےلئے ، جان ومال قربان کئے گئے ،لیکن پاکستان میں ،
اسلام کے نام پر بیرونی طاقتوں نے ایسا کھیل شروع کیا ہوا ہے ، جس سے لگتا
ہے کہ پاکستانی اسلام میںانصاف، مساوات اور احترام آدمےت پر مبنی معاشرے کا
کوئی تصور ہی نہیں پایا جاتا۔ہمارے سامنے مسلمانوں کے اکابرین کی مثالیں
روز روشن کی طرح عیاں ہے اور ہم صبح و شام جب تک اُن کے قصیدے پڑھ نہ لیں ،
ہمارا"ایمان" مکمل نہیں ہوتا ، لیکن ان اکابرین اسلام کی عملی تصویر ، سے
ہم کمر پھیرکر بد نما دیوار نفرت کی جانب کر لیتے ہیں۔دنیا ئے اسلام کو
عالم کفر کی جن ہولناک سازشوں اور ریشہ دیوانیوں کا سامنا ہے اس کی مثال
اسلام کی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔دنیا بھر کے مسلمانوں اور خاص طور پر
وطن عزیز کے حکمرانوں اور مذہبی جماعتوں کو سربراہان اور عام لوگوں کو اس
بات میں احتیاط اور باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا کہ کیا ہمارا فعل عین
اسلام کے مطابق ہے ،یا پھر ہم خود کو اسلام کے نام پر استعمال ہونے کےلئے
خود ساختہ پاکستانی اسلام ایجاد کر رہے ہیں۔اسلام میں ہونے والے تمام
سانحات و غم تمام مسالک سے وابستہ افراد کو جوڑنے کا ایک ذریعہ ہیں ، ایسے
خود سے جوڑنے کے بجائے، مزید پارہ پارہ کرنے کی تمام سازشوں کو ناکام بنانے
کےلئے مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں تاریخ کے ان انمول
واقعات پر غور فکر کرنا ہوگا کہ کیا باہمی معاملات میں تشدد کا استعمال ،
ہمیں عصبیت اور فرقہ پرستی سے نجات دے رہا ہے یا پھر ، ہمیں اسلام سے دور
کر رہا ہے۔اسوقت مختلف مسلم ممالک میں ، مسلمانوں کی رہی سہی قوت کو کمزور
کرنے کےلئے ، فرقوں کے نام پر مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جارہا ہے ، لبنان
، لیبا،عراق ،شام اور افغانستان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں مسلک اور
فرقے کے نام پر غیر اسلامی قوتوں نے مسلمانوں کے دونوں گروہوں کو مسلح کرکے
، ایک دوسرے کی گردن اُتارنے کےلئے دونوں کے ہاتھوں میں تلواریں دے دیں ہیں
، اور خود باہر بیٹھ کر تماشہ دیکھنے میں خوش ہے کہ ، جو بھی کمزور ہو ،
نقصان تو صرف مسلمانوں کا ہے۔ کسی بھی ملک میں جب بھی مسلمانوں نے ایک
دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہیں ، وہاں صرف تباہی نے ہی ڈیرے ڈالے
ہیں۔ہمیں ان تمام اسباب کا سنجیدہ مطالعہ و تجزیہ کرنا چاہیے کہ کیا اس کے
پس منظر میں پاکستان کو اس کی ایٹمی صلاحیت سے محروم کرنے کی کوئی سازش تو
کارفرما نہیں ہے۔پاکستان جن مقاصد کےلئے وجود میں آیا تھا ، اُن مقا صد کو
سامنے کا دشمن بر ملا ، سمندر برد کرکے فخر سے سینہ چوڑا کرتا ، بارہا نظر
آرہا ہے ، کیا یہ شناسا دشمن ،باقی ماندہ پاکستان کو بھی دریائے بنگال کی
طرح ، بحیرہ عرب میں ڈبو کر کہنا چاہتا ہے کہ ، دیکھو ہم نے پہلے ہی کہا
تھا کہ پاکستان بنانے کے لئے جو دو قومی نظریہ کا نعرہ بلند کیا گیا تو ،
وہ اکہتر میں بھی ناکام ہوا اور آج بھی ناکام ہے۔ملک دشمن عناصر کیجانب سے
کبھی پاکستان توڑنے کی تاریخوں کی پیشنگوہی کرتے ہیں تو کبھی ، پاکستان کے
ٹکڑے ہونے کے نقشے کتابوں اور ویب سائٹس پر جاری کرا کر نوجوان نسل کو
مایوسی کے اندھیرے میں دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے
سامنے سرور کونین ﷺ کے تمام وہ واقعات موجود ہیں کہ ، انھیں مشرکین کی جانب
سے کس قدر ایذا دی جاتی تھی ، لیکن برداشت و تحمل کا وہ معجزہ پیش کرتے جس
سے ، تکلیف دینے ولاا ، متاثر ہوکر مسلمان ہوجایا کرتا ۔ لیکن اب مسلمانوں
کی مجموعی کردار کو چند ناعاقبت اندیش عناصر نے اتنا متشدد بنا دیا ہے کہ
خود اسلام کے نام لیواﺅں کو خوف آتا ہے۔ہمارا ملک خاص طور پر دنیا میں
رونما ہونے والی تیز رفتار تبدیلوں ، دہشت گردی کے واقعات ، توانائی بحران
، معیشت کی زبوں حالی جیسے سنگین مسائل میں بُری طرح الجھا ہوا ہے، لہذا
وقت و حالات کا تقاضا یہ ہے کہ تمام مسالک کے علما اکرام ، خطیبوں،ذاکرین ،با
اثر افراد اور اداروں کے علاوہ حکومت کو بھی قومی سطح پر اتحاد بین
المسلمین کے لئے ہم آہنگی اور یگانگت کے فروغ کےلئے ، موثر و پُر خلوص
تدابیر اپنانی چائیں۔ کیونکہ ایسی صورت میں دین متین کے اندر مختلف مسالک
سے تعلق رکھنے والے باہمی یگانگت اور اتحاد و اتفاق سے سازشوں کو ناکام بنا
سکتے ہیں۔ہمیں اپنی صفوں میں مکمل اتحاد و اتفاق قائم کرکے ملک وقوم کے
خلاف کی جانے والی ناپاک سازشوں کو ہمیشہ ہمیشہ کےلئے ناکام بنانا ہوگا ، ۔اگر
آج بھی ہم صوبائیت ،لسانیت ، فرقہ واریت کے نام پر لڑتے رہے اور ان لوگوں
کے جرائم کی پشت پناہی کرتے رہے ،جو اپنے تئیں فساد پیدا کرکے یہ سمجھتے
ہیں کہ وہ اصلاح کر رہے ہیں تو ، یقین کیجئے کہ کبھی بھی ہم اس خون ریز
وادی سے باہر نہیں نکل سکیں ، مذہب کے نام پر سیاست ، کرنے سے کامیابی تو
وقتی طور پر مل جاتی ہے لیکن اس کے تباہی کی گونج کافی عرصے تک سنائی دیتی
ہے۔ہمیں ،اپنا کردار ، صرف مسلک کی بنیاد پر نہیں ، بلکہ اسلام اور پاکستان
کی بنیاد پر ادا کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کے خلاف ، یہ سازشیں بام عروج پر
ہیں ۔ اگر عوام نے من الحیث القوم اپنا کردار ادا نہیں کیا تو ، ملک دشمن
عناصر کی تمام سازشیں کامیاب ہوجائیںگے اور اس کے تباہ کن نتائج ، عوام کو
ہی برداشت کرنا ہونگے ، کیونکہ ظلم کے خلاف ، خاموش رہنے ولا بھی بارگاہ
الہی میں اتنا ہی گناہ گار ، جتنا ، مظلوم پر ظلم کرنے ولا ۔ہمیں اپنے
گھروں ، محلوں ، علاقوں ، شہروں میں اپنی ذات کو نمونہ بناتے ہوئے ، کسی
دوسرے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنی ذات کی حد ہم نے اتنا ہی کردار
اتنا کرنا چاہیے ، جس کے بارے میں اللہ تعالی پوچھے گا ۔ہم سے ساری دنیا کا
حساب نہیں لیا جائے گا ، بلکہ ہم سے ہماری ذات سے کئے گئے عمل کے بارے سوال
ہوگا ۔ کیا ہم نے ان سوالات کے جواب دینے کےلئے خود تیار کرلیا ہے؟؟۔ہم سب
سے آخری نبی الزماں ﷺ کے دئےے اسلام کے بارے میں سوال ہوگا ،خود ساختہ"
پاکستانی اسلام" کےلئے تو میزان بھی شائد کھڑی نہ کیجائے۔ |