میر ی تحر یر میں لپٹے ہو ئے تا
بو ت نہ کھول
لفظ جاگ اٹھے تو خوف سے مر جائے گا
یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب میں نیم پاگل نہیں پورا پاگل تھا۔ تب میں سوچا
کرتا تھا کہ صرف میں ہی میں ہوں اور یہاں مجھ سے بڑا دانشور قلمکار ، فنکار
اور مفکر نہیں ہے اس لیے میں اختلاف کرنے والے کو احمق یا اپنا دشمن سمجھتا
تھا۔ تب میری بہت سے لوگوں سے دشمنیاں تھیں۔ میں نفرت تعصب بغض اور حسد کا
شکار رہتا تھا اور کئی لوگوں کو حقارت کی نظر سے بھی دیکھا کرتا تھا۔ نجانے
کیسے میرے سینے میں بے انتہا زنگ جمع گیا تھا کہ مجھے دوسروں کا درد بوجھ
اور محرومیاں نظر ہی نہیں آتی تھیں اور یہ مرض مجھے بچپن میں نہیں جوانی
میں لاحق ہوا تھا اور اس بیماری کی وجہ سے مجھے ماں مدرسے کے سارے اسباق
بھول گئے تھے اور میں خود کو بھی بھول گیا تھا۔ تب ایک بار پھر میری ماں کی
دعاﺅں نے مجھے بچا لیا اور مجھے اپنی بیماری کا پتہ چل گیا اور جب سے مجھے
اپنی بیماری کا پتہ چلا ہے تب سے میں پورا پاگل نہیں نیم پاگل ہوں اور اسی
پاگل پن کی وجہ سے مجھے جابجا لاشیں اور تابوت دکھائی دیتے ہیں۔ بدبو اور
غلاظت ہر طرف بکھری پڑی ہے میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ میرے سینے کا
سارا زنگ ابھی اترا نہیں ہے اور نہ ہی میری آنکھ مکمل بیدار ہوئی ہے اور اس
کیفیت میں مجھ پر حسد ، تعصب ، نفرت بغض ، بے حسی اور خود غرضی کے حملے
ہوتے رہتے ہیں اور میں ان سے چھٹکارے کے لیے بھی جدوجہد کرتا رہتا ہوں اور
ساتھ ساتھ میں دنیا بھر کے انسانوں کے لیے دعاگو بھی رہتا ہوں کہ اللہ نہ
کرے کہ پاگل پن کے یہ حملے کسی دوسرے پر بھی ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ ہمارے
معاشرے کے اکثر لوگ مجھ خطا کار سے بہت بہتر ہیں۔ مگر جرائم کی بڑھتی ہوئی
شرح ، حق تلفی ، قتل و غارت گری ، لوٹ گھسوٹ اور ظلم و جبر کی لاتعداد
وارداتیں جب میری نظر سے گزرتی ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے انہیں دیکھ ک
یوں لگتا ہے کہ معاشرہ تیزی کے ساتھ پاگل پن کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اور اسی
پاگل پنے کی وجہ سے میں ،، پاگل خانہ ،، لکھتا ہوں اور بھولا پینڈو کی
بجائے پاگل مشہور ہو گیا ہوں ۔ مگر میں پورا پاگل نہیں نیم پاگل ہوں۔
کیونکہ اگر میں مکمل پاگل ہوتا تو مجھے اپنے باطن کی امراض اور معاشرے میں
پائی جانے والی وحشت اور درندگی کا ادراک نہ ہوتا اور میں بھی صرف اپنا داﺅ
لگانے بھاﺅ بڑھانے مال بنانے اور مفاد اٹھانے کے لیے کوشیاں ہوتا۔ میں
سیاست کے نام پرمنافقت کرتا۔ میری تحریر اور تقریر صرف لفاظی اور فریب ہوتی
میری صحافت دوکانداری ہوتی میری باتیں چاپلوسی اور میرا کردار مکاری پر
مبنی ہوتا۔ میں مہنگے مہنگے کپڑے پہن کر اونچ مقاموں پر بیٹھتا ، قول و فعل
کے تضاد کے ساتھ میں خود کو انقلابی کہتا۔ لاشیں اور خون بھی میرے لیے
کاروبار ہوتے اور مجبوریاں و محرومیاں میری پتھر آنکھوں کے سامنے صرف تماشا
ہوتیں۔ مگر میں ایسا نہیں ہوں اس لیے کہ میں نیم پاگل ہوں۔ پورے پاگل تو وہ
ہیں جوبڑی بڑی ڈگریوںاعلیٰ مناصب مرتبوں عہدوں کے ساتھ بے شمار مال و دولت
اور اختیار کے ساتھ طاقت اور اکثریت کے باوجود جیتے جی پتھر کے ہو گئے ہیں۔
پاگل خانے میں ان پتھرائے ہوئے لوگوں کی صحت یابی کیلئے دعا کی جاتی ہے۔ یہ
ان دنوں کی بات ہے جب میں نیم پاگل نہیں پورا پاگل تھا۔ لیکن جب سے مجھے
کچھ شفا ملی ہے میں ان پاگلوں کو بھی قابل رحم سمجھتا ہوں اس پاگل پن میں
ان کا شائد کچھ قصور نہیں ہے۔ ان سے کچھ بھول ہو گئی ہے۔ ان سے ان کا راستہ
اور درس کھو گیا ہے تب ہی تو پاگل پن ان کے دل و دماغ میں سرائیت کر گیا ہے
اور روح تک اترجانے والے پاگل پن کی وجہ سے ان کے اردگرد بھی پاگل خانہ بس
گیا ہے۔
یہ ابنارمل رویے ، یہ تلخ و لب و لہجے ، یہ الزام تراشیاں و بہتان بازیاں ،
یہ نفرت اور کیچڑ یہ مایوسیاں اور محرومیاں یہ ان گنت درد بے انصافی غربت
اور افلاس یہ سب وہ فصلیں ہیں جو صرف پاگل خانے میں اگتی ہیں۔ نارمل اور
صحت مند معاشروں میں نہ تو کبھی خزاں آتی ہے اور نہ ہی کبھی کانٹے پیدا
ہوتے ہیں یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب میں نیم پاگل نہیں پورا پاگل ہوا کرتا
تھا اور پھر ایک دن مجھے ایک مسیحانے یہ بتایا کہ پاگلوں کو اس بات کا
احساس نہیں ہوتا ہے کہ وہ پاگل ہیں اس لیے وہ اپنے ہر کام کو درست اور جائز
سمجھتے ہیں ان کی نظر میں ان سے بڑھ کر کوئی نہیں ہوتا ہے اور اگر انھیں
کسی طرح سے اس بات کا ادراک ہو جائے کہ وہ ابنارمل ہو گئے ہیں تو ان کا
آدھا علاج ہو جاتا ہے اور جب سے مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ میں پاگل ہوں ، تب
سے مجھے کوئی بھی اپنا دشمن نہیں لگتا ہے۔ بس میں اپنے دشمن اپنے اندر سے
تلاش کر لیتا ہوں۔ یہ حسد تعصب بغض نفرت اور لالچ یہ ہی تو میرے دشمن ہیں
میں ان کی گردن مڑوڑتا رہتا ہوں مگر مرض چونکہ پرانا ہے اس لیے یہ جڑ سے
ختم نہیں ہوتا ہے۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب میں نیم پاگل نہیں پورا پاگل تھا تب مجھے میرے
مسیحانے بتایا تھا کہ پاگل صرف خود کو سب سے افضل دانا اور عقلمند سمجھتا
ہے اس کی نظر میں صرف اسکی اپنی ذات ہوتی ہے اسے دوسرے کے دکھ درد اور
محرومیوں کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی ہے اسکے پاس امیدیں اور خواب نہیں صرف
مایوسیاں ہوتی ہیں اس کی پتھر آنکھیں صرف تاریک اور منفی پہلو دیکھتی ہیں
اور وہ بہت خطر ناک ہوتا ہے۔ قارئین اکرام میں پاگل خانے میں جب بھی کچھ
لکھنے بیٹھتا ہوں تو میری نگاہوں کے سامنے بہت سے ایسے چہرے گھومنے لگتے
ہیں جو بہت خطر ناک ہوچکے ہیں۔ نجانے ایسا کیوں ہے؟یہ خوف اور بدبو کیوں ہے۔
میری نگاہوں کے سامنے اتنے سارے تابوت کیوں آجاتے ہیں۔ ان تابوتوں میں کس
کی لاشیں ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ ان میں ایمان ضمیر اور احساس مرے پڑے
ہیں اور پھر وہ بھی جو تابوتوں میں تو نہیں مگرزندہ لاشیں ہیں۔ ۔۔۔۔؟زندہ
لاشوں ، تابوتوں اور ابنارمل رویوں کے اس معاشرے میں آج محبتوں اور ہمدردی
کا قحط کیوں ہے۔ اور یہ اس دور کی بات نہیں جب میں پورا پاگل تھا یہ تو اس
دور کی تلخ حقیقت اور المیہ ہے۔ جس کو جمہوری ، انقلابی،ساہنسی اور علمی
دور کہتے ہیں۔ |