کل کی ماں سپورٹس گالا میں

تمام تعریفیں اللہ پاک کے لیے جس نے انسان کو عقل عطا فرمائی اور اس عقل کو استعمال کرنے ،اچھے برے کا فرق کرنے کی صلاحیت بھی دی اور سامنے دو راہیں رکھ دیں کہ جس کو چاہے اختیار کرے۔اس چاہت یعنی اختیارکی وجہ سے ہی شائد انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ بھی دیا کہ چاہتے ہوئے اور اختیارکے باوجود بھی انسان اللہ پاک کے حکم کی تعمیل میں اگر دیدہ زیب اور دل موہ لینے والی برائی چھوڑ کر صراطِ مستقیم پر چلے تو اشرف ہونے کا حق ادا کر دیا اور اگر اس کے بر عکس دوسری راہ چلے تو شائد جانور سے بھی کم تر ہے اس کی بھی بہت سی مثالیں موجودہ دور میں ملتی ہیں کہ انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔اللہ پاک نے انسان کو اپنے پیارے حبیبﷺ کے ذریعے دونوں راستے واضع دکھا دیے اور صراطِ مستقیم کے لیے اک کتاب قرآنِ مجید دی اور اس کا عملی نمونہ اپنا آخری اور پیارا رسولﷺ دیااور بتایا کہ یہ صراطِ مستقیم ہے جس پر میرا حبیبﷺ چل کر دکھا رہا ہے تم بھی اسی کو اختیار کرو۔اس صراطِ مستقیم کو جامع الفاظ میں اسلام اور شریعتِ محمدی ﷺ کہ سکتے ہیںاور اسی پر عمل کرنے سے انسان اشرف ہونے کا حق ادا کر سکتا ہے لیکن مسلہ یہ ہے کہ اسلام پر عمل کرنا کیا ہے؟ کیا صرف کلمہِ توحید پڑھ کر مسلمان ہوجانا اوہ نہیں شائد غلط کہیہ گیا مسلمان کہلونا کافی ہے شائد چونکہ آج کل کا انسان اپنی عقل کا بھرپور استعمال کر رہا ہے اور بڑا ہی دلائلِ پُر فِتن لے کر صراطِ مستقیم پر چلتا ہے اگر کہا جائے کہ بھائی اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا تو جواباََ اسلام کوئی تماری جاگیر نہیں میں بھی جانتا ہوں اگر کہا جائے بھائی یہ کام غلط ہے برا ہے نہ کیا کرو آوارہ وقت نہ ضائع کیا کرو نماز پڑھ لیا کرو تو جواباََ چھوڑ یار یہی تو عیش کے دو چار دن ہیں زندگی کے دوبارہ نہیں ملیں گے موج مستی میں گزارنے چاہییں تم مولوی نہیں بنو رویہ یوں جیسے دین پر چلنا صرف مولویوں کا کام ہو۔اگر غلطی سے معاشرے کی کسی بہن سے کہہ دیا کہ اسلام تو اس چیز کی اجازت نہیں دیتا کہ آپ غیر مردوں کے سامنے بے پردہ جائیں ، بازار بے پردہ گھومیں ، لڑکوں سے دوستی اور باتیں کریں (حتیٰ کہ آج کل کی ساری جدید الیکٹرونک میڈیا پرنٹ میڈیا کی پیدا کردہ قباہتیں )تو جواباََ دقیانوسی خیالات کا طعنہ ملتا ہے اور ستم یہ کہ اک دفعہ ایک TV Talk show میں ایک بہن یہ کہ رہی تھی کہ جو قرآن میں پردے کا حکم ہے وہ اس زمانے کی عورتوں کے لیے تھا آج کل انسان بہت ترقی کر چکا ہے اس لیے آج کل کی عورت پر حکم نہیں ہے اور پاکستان میں ناجانے مرد کیوں کسی بے نقاب عورت کو غُور غُور کے دیکھتے ہیں جیسے کبھی عورت دیکھی ہی نہ ہو اس کے برعکس مغرب ممالک میں مرد عورت کو ایسی نظروں سے نہیں دیکھتے کیونکہ وہ مہذب قوم ہیں جہاں عورت کو مرد کے برابر حقوق حاصل ہیں تو اس کی سوچ پر دل خون کے آنسو رویا کہ کیا انسان کی عقل نے یہ ترقی کی ہے اور وہ بھی مسلمان کی سوچ کا یہ عالم ؟ اس عورت کو کون سمجھائے کہ کیا تمھاری عقل پر پتھر پڑے ہیں کیا مغرب کی عورت کے پاس وہ ماں کا رشتہ ہے جو رب نے مسلمان عورت کو دیاکہ جنت اس کے قدموں میں رکھ دی، کیا مغرب کی عورت کو مشرق کی مسلمان عورت جیسا بھائی کا رشتہ دیاجو اس کا بازو اور محافظ ہے، کیا مسلمان عورت کے باپ جیسا شفیق باپ دیا ، کیا مسلمان عورت کے شوہر جیسا شوہر دیا کہیں ایسا تو نہیں کہ وہاں پیدا ہونے والے بے شمار بچے کے باپوں کا ہی نہیں پتہ کون ہے اور مشرق کی مسلمان عورت جیسی عزت مغرب کی عورت کے پاس ہے کہ مردوں کا معاشرہ کہلوانے کے باوجود کہیں گاڑی کی بھیڑ یا لمبی قطاروں میںمرد عورت ذات کو دیکھے تو جگہ چھوڑ دے۔اور اگر آج کا معاشرہ عورت کے لیے خراب ہے تو اس میں زیادہ قصور وار ماں ہے اس لیے کہ ماں ہی معاشرے کا ہر فرد تیار کرتی ہے۔ کیا ماں نے اپنے بیٹے کو تعلیم دی کہ بیٹا خبردار اگر باہر کہیں کسی لڑکی یا عورت کو دیکھو تو آنکھیں جھکا لینا اور اپنی ماں بہن جیسا سمجھنا،ان کو عزت ماں بہن جیسی دینا قسم بخدااگر ایسا ماں نے کیا ہوتا تو آ ج عورت کی زبان پر شکوہ نہ ہوتااور پھر بجائے کہ اصلاح کریں اسلام کی تعلیمات کو اپنائیں مغربی اصلاح کی طرف دوڑنا شروع کر دیا کہ مغرب کا معاشرہ مہذب ہے کیا ہی دلفریب سوچ ہے کیا مغرب کے مہذب معاشرے کی ماں نے کوئی حسینی ؑ کردا ر والا بیٹا جنم دیا،کیا کوئی محمد بن قاسم جیسا کم سن مجاہد، صلاحُ الدین ایوبی جیسا دلیر، ٹیپو سلطان جیسا مجاہد کہ جس کے شہید ہو جانے کے تین دن بعد تک کوئی فرنگی ڈر کے مارے قریب نہ جاتا تھا ،مجدد الف ثانی یا علامہ اقبال جیسا مفکر پیدا کیا نہیں کر سکتیں جن کو اپنی اولاد کے باپ کا معلوم نہ ہواور تمھیں کس مہذب معاشرہ کی عورت جیسا مقام چاہیے کہ جو خود ٹشو پیپر بن چکی ہے کوئی مرد شادی کرنے کو تیار نہیں ہوتا بغیر شادی کے جب تک دل نہ بھرے ساتھ رہ لیا پھر آگے چل دیا۔

خدا راءمرد کے ساتھ برابری ضرور کرو مگر ویسی برابری چاہو جیسی اللہ کے رسولﷺ نے بتائی اور کر کے دکھائی حضورﷺ کو اپنی بیٹی فاطمةالزہرا ؑ رضی اللہ عنہا سے بے حد محبت تھی آپﷺ نے فرمایا کہ فاطمہ ؑ میرے جسم کا ٹکڑا جب اسے غم پہنچتا ہے تو مجھے غم پہنچتا ہے جب آپ سلام اللہ علیہ کی شادی کی اور حضرت علی ؑ اور بی بی فاطمہ ؑ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ باہر کے کام اے علی رضی اللہ عنہ تمھارے ذمہ اور گھر فاطمہ ؑ کے ذمہ تو کیا رسول اللہ ﷺ نے اپنی پیاری بیٹی خاتونِ جنّت کا حق مارا(نعوذبااللہ) ۔ اور بی بی فاطمہؑ نے جیسی اولاد جنم دی ویسی نہ تھی نہ ہوگی آپ کی سیرت یہ تھی کہ رات سجدے میں گزر جاتی سارا دن کام بھی کرتیں اور تلاوت قرآن زبان پر ہوتی اور بچوں کی تربیت ایسی کی کہ دنیا میں مثال نہیں ملتی کیوں یہ سب کیا ؟اس لیے کہ باباﷺ کی امت اس کردار کو اپنائے ۔ کیا آج کل کی ماں نے اپنی بیٹی کو کبھی کہا بیٹی سیدہ فاطمہ ؑ کو آئیڈئل بناﺅ کیا کبھی کسی ماں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ بیٹا اپنی ازدواجی زندگی میں حضرت علیؑ و فاطمہ ؑ کی سیرت کو مدِنظر رکھنا یقینا نہیں اگر ایساکہا ہوتا تو معاشرے کا اتنا بگاڑ نہ ہوتاشائد کوئی ماں حسینی ؑ کردار پیدا کر دیتی شائد کوئی صلاح الدین ، محمد بن قاسم، سلطان ٹیپو یا اقبال اور آ جاتااسی پر علامہ اقبال رحمةاللہ علیہ فرماتے ہیں۔
بہل اے دختر ک ایں دلبری ہا
مسلماں رانہ زیبد کافری ہا
اے لڑکی یہ دلبر ادائیں ترک کر دے، مسلمان کو کافری زیب نہیں دیتی
اگر پندے زد رویشے پذیری
ہزار امت بمیرد تو نہ میری
اگر تو درویش کی نصیحت قبول کر لے، تو ہزار امت مرے گی پر تو نہ مرے گی۔
بتولے باش و پنہاں شوازیں عصر
کہ در آغوش شبیرے بگیری

بتول ؓ ہو جا اور زمانے کی نگاہ سے مخفی ہو جا ، تا کہ تو اپنی آغوش میں شبیر ؑ جیسا فرزند پا سکے۔
مگر افسوس کہ کل کی ماں سپورٹس گالوں میں دیدہ زیب لباس پہن کرموسیقی کی دھن پر ڈانس کر رہی ہے اور الیکٹرونک میڈیا اس کو پورے ملک کے ہر خاص و عام کو دیکھا رہا ہے وہ کیسے حسینی ؑ کردار والے بیٹے اس پاک وطن کو دے گی جو حق کے لیے سر دے دیں مگر باطل کے سامنے نہ جھکیں یہ کل کی ماں ہے جس کا ناطہ قرآن کے ساتھ دور دور تک نہیں اللہ کی یاد کے بجائے موسیقی جس کی روح کو غذا دے اور اس کی قصور وار آج کی ماں ہے جس نے کل کی ماں کی ایسی تربیت کی آج کی ماں کل کی ماں کوایسا تیار کر رہی ہے تو کل کی ماں پرسو کی ماںکو کیسا بنا ئے گی تو پھر کیسے آج کی ماں گلہ کرتی ہے کہ کوئی حسینی ؑ کردار جیسا نہیں کیونکہ یہ نسل تو اے ماں تم نے ہی تیار کی ہے اگر تو چاہتی تو کیا ممکن نہیں تھا کہ آج کا اسلامی معاشرہ دنیا کا آئیڈئل معاشرہ ہوتا اسی فکر کو پیر نصیر الدین گولڑوی لکھتے ہیں۔
آج کی عورت ہو پردے سے مبرّا کس لیے
فاطمہ زہرا ؑ سی ہستی بھی اگر چادر میں ہے

سیدہ زہرا ؑ ! خدا سے مانگ اس کی عافیت
تیرے بابا ﷺکی یہ امت حالتِ ابتر میں ہے

اس لیے میری تمام بہنوں سے گزارش ہے خدا راءکچھ خیال کریں آپ مرد کے برابر کی حقدار ہیں سو تعلیم حاصل کریں ، ملازمت کریں اور معاشرے میں چلیں پھریں مگر احیائِ دین کا خیال رکھیں کیونکہ یہ معاشرہ آپ نے بنایا ہے جتنے مرد اس معاشرہ میں پھرتے ہیں سب اک عورت ماں تیری اولاد ہیں ان کو ہر ادب، عزت اور لحاظ تم نے سکھانا تھا جو نہیں سکھایا تو تم نے نہیں سکھایااے ماں التجا ءہے تم سے تم اپنا کردار ادا کرو گی تو یہ معاشرہ اچھا بنے گااس لیے کہ مسلمانوں کی بقاءاور یہ معاشرہ تیرا مرہونِ منت ہے۔ دعا ہے اللہ پاک ہدائت عطا فرمائے۔
Fayyaz Hussain
About the Author: Fayyaz Hussain Read More Articles by Fayyaz Hussain: 23 Articles with 15605 views Khak-e-paa aal-e-rasool (a.s) wa ashaab-e-rasool (r.a).. View More