بنگلہ دیش میں عجیب وغریب نو عیت کے مقدمات

بنگلہ دیش کو پاکستان سے الگ ہوئے بیالیس سال ہو گئے ہیں اور اس دوران بنگلہ دیش میں پاکستان کے بارے میں کچھ بہت اعلیٰ قسم کے جذبات تو شاید کبھی نہ رہے لیکن پاکستان مخالفت میںبھی اتنی شدت نہیں ہوئی جتنی حسینہ واجد کے دور ِحکومت میں ہوتی ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش میں عجیب وغریب نو عیت کے مقدمات چلائے جارہے ہیںجن میں ملزمان پر الزام تو لگایا جارہاہے کہ انہو ں نے بنگلہ دیش کی جنگ آزادی میں انسانیت کے خلاف حرکات کیں یعنی قتل اور آبر و ریزی لیکن دراصل یہ سارے مقدمات اُن لوگوں پر چلائے جارہے ہیں جنہوں نے اس جنگ میں پاک فوج کا ساتھ دیا ورنہ اگر مظالم پر ہو تا تو مکتی باہنی کے ظالمان تو تمام کے تمام قابل گرفت تھے جنہوں نے مشرقی پاکستان میں موجود ہر مغربی پاکستانی کو یا پاکستان کی حمایت کرنے والے کسی بھی شخص کو قابل قتل جانا اور بُری طرح غیر انسانی طریقے سے یہ قتل عام کیا گیا۔ میں پاک آرمی کے ایک ایسے میجر کے بارے میں جانتی ہوں جسے خود تو اِس کے فوجی ہونے کی پاداش میں شہید کیا ہی گیا ،اُن کی اہلیہ جو ظاہر ہے ایک عورت تھی کو بھی شہید کیا گیا، ان کی دوبیٹیوں کو بری طرح سے زخمی کیا گیا اور اُن بچیوںکی موت کا یقین کرنے کے بعد مکتی باہنی والے انہیں چھوڑکر چلے گئے یہ اور بات ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دو اورچارسال کی یہ بچیا ں اپنی خداترس بنگالی آیا کے ہاتھوں پاکستان پہنچ گیئں ۔ میں نو شہرہ کے میجرعطااللہ شہید کو بھی جانتی ہوں جن کے ورثائ نہیں جانتے کہ اُن کی لاش کہاں گئی انہیں کس طریقے سے شہید کیا گیا ۔ کیا یہ سب ظلم نہیں تھا اور کیا مکتی باہنی کے ہر کارندے کے اوپر بھی مقدمہ نہیں چلنا چاہیے۔ مقدمات اگر واقعی جنگی جرائم کے بنا پر ہوتے تو خود بنگلہ دیش میں ان پر ہنگامے نہ پھوٹتے اور نہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس پر معترض ہوتیںلیکن یہ سب سراسر تعصب کی بنیاد پر ہو رہا ہے اور اس گناہ کی پاداش میں ہو رہا ہے جو پاکستان کی حمایت میں کیا گیا تھا۔اس حمایت کو غداری قرار دینا بذات خود غلط ہے کہ اس وقت یہ سب پاکستانی شہری تھے اور پاکستانی شہری ہونے کے ناتے یہ ان لوگوں کا فرض تھا کہ پا کستان کی حمایت کرتے۔ اِس وقت بنگلہ دیشی حکومت جن مافوق الفطرت تعداد و شمار کے ساتھ پاکستانی فوج پر قتل عام اور عصمت دری کا الزام لگا رہی ہے خود کئی بنگالی بھائی اور غیر جانبدار مبصرین اس کو غیر حقیقی اور متعصبانہ قرار دیتے ہیں اور حکومت انہی بے بنیاد اعداد و شمار کو بنیاد بنا کر اپنے ہی ملک میں ایک تنازعے کو جنم دے رہے ہیں سوال یہ ہے کہ کیا ان بنگالیوں نے جنہیں آج سزا دی جا رہی ہے بنگلہ دیش بننے کے بعد کسی غداری کا مظاہرہ کیا ہے ۔73 سالہ دلاور حسین سیدی جو بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے نائب امیر ہیں کی سزائے موت کے اعلان کے بعد بنگلہ دیش میں جس طرح ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں اور اب تک اس کی سڑکوں پر اسّی افراد کی جان لے چکے ہیں وہ کوئی اچھے آثار نہیں ہیں اس سے پہلے اسی جماعت کے ابوالکلام آزاد کو سزائے موت اور عبدالقادر ملا کو عمر قید تعصب کے سوا کچھ نہیں۔ 1971 میں جماعت اسلامی کے امیر پروفیسر غلام اعظم جو اس وقت نوے سال سے زائد عمر کے ہیں انہیں جیل میں جس حالت میں رکھا جا رہا وہ بذات خود انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ان کے بیٹے بریگیڈیئر ریٹائرڈ عبداللہ اعظم اعظمی نے شکایت کی ہے کہ ان کے ضعیف العمر والد کی صحت انتہائی خراب ہے اور جیل کے ہسپتال میں نہ ان کے کھانے اور نہ ہی علاج کا خیال رکھا جا رہا ہے۔ ان کے بھتیجے جو برطانیہ کے شہری ہیں اور ملائیشیا میں ایک یونیورسٹی میں استاد ہیں چونتیس سال بعد اپنے چچا سے ملنے بنگلہ دیش آئے لیکن انہیں ملنے نہیں دیا گیا ۔اقوام متحدہ نے بھی ان مقدمات میں ملوث کیے گئے افراد کی قید کو غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ یہ مقدمات انٹرنیشنل کرائم ٹربیونل کے قانون کے مطابق درست نہیں۔ اخوان المسلمین مصر نے بھی بنگلہ دیش کی حکومت سے اس غیر قانونی سزا کو ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔ مسئلہ جماعت اسلامی یا بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کا نہیں، بلکہ کچھ اور ہے ۔ یہ جماعتیں بنگلہ دیش کی سیاست میں فعال رہی ہیں اور اس کی پارلیمینٹ میں نشستیں بھی جیتتی رہی ہیں مسئلہ پاکستان کی مخالفت کا ہے۔

جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم پر وہاں کی حکومت یہ الزام لگا رہی ہے کہ اس کے پاکستان کی آئی ایس آئی کے ساتھ تعلقات ہیں اور یہ کہ وہ القائد اور طالبان کے لیے نوجوانوں کو بھرتی کر کے پاکستان بھیجتی ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ تنظیم یہ دونوں کام بیک وقت کیسے کرتی ہے کیا القائد،طالبان اور پاکستان کا تعلق آپس میں جوڑا جا رہا ہے اور اس طلبہ تنظیم کے اوپر جس قتل عام کا الزام ہے اس میں پاکستان کو ملوث کیا جا رہا ہے۔کیا بھارتی صدرپر ناب مکرجی کے دورہ بنگلہ دیش پر اُ ن کی آشیر باد حاصل کرنے کا یہی طریقہ تھا ۔ معاملہ کچھ بھی ہوبنگلہ دیش کے لئے پاکستانیوں کے دل میںبرادرانہ جذبات اب بھی ہیں بھارت اور بنگلہ دیش یا بنگلہ دیش اور آسٹریلیا یا کسی بھی ملک کے ساتھ کرکٹ میچ میں ساری پاکستانی دعائیں بنگلہ دیش کے ساتھ ہوتی ہیں کیونکہ تعلق ٹوٹا ضرور ہے ختم نہیں ہوا اور نہ ہوسکتاہے کیونکہ مذہب نے ہمیں جس لڑی میں پرویا ہوا ہے وہ اٹوٹ ہے ۔ بنگالیوں کے دل میں پاکستان کے لیے اگر نفرت ہو تی تو پاکستان کا نام لے کر دی گئی سزاو،ں کو وہ بخوشی قبول کر لیتے اس کے ردعمل کے طور پر اسی ہلاکتیں قبول نہ کرتے ۔ عالم اسلام کو اس وقت نا اتفاقی اور باہمی تنازعوں میں جس طرح الجھایا گیا ہے کیا بنگلہ دیش میں بھی یہی کھیل رچایا جا رہا ہے اگر شیخ حسینہ واجد پاکستان سے اپنی آبائی نفرت اور غصہ نکالنے کی بجائے اس وقت اپنے ملک میں امن وامان قائم رکھتیں، مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کرتی اور پاکستان کے ساتھ تعصب برتنے کی بجائے حقائق سمجھنے کی کوشش کرتیںتو زیادہ بہتر ہوتا اور حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے چاہے ٹو ٹے اور دکھے ہوئے دل کے ساتھ سہی بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا ہے اور اپنے سے ایک ہزارمیل دور بنگالیوں کو مسلمان ہو نے کی وجہ سے بغیر کسی حیل وحجت کے اپنا بھائی سمجھتا ہے ۔ انہی جذبات کی توقع وہ خود بھی کرتا ہے جس کا ثبوت وہاں کے عوام نے تو دیا ہے حکومت بھی دے تو خود اُس کے حق میں بھی بہتر ہوگا۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552881 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.