پشاور کی انتظامیہ نے گوشت کی فی
کلو سرکاری قیمت 220 روپے مقرر کردئیے ہیں اسسٹنٹ کمشنر پشاور نے اس سلسلے
میں قصائیوں کی دو مختلف ایسوسی ایشنز سے مذاکرات کے بعد اعلان کیا ساتھ
میں یہ بھی کہا کہ قیمتوں کو کنٹرول میں لانے کیلئے قصائیوں کو انتظامیہ
کیساتھ تعاون کرنا چاہئیے اس موقع پر اسسٹنٹ کمشنر نے مہنگائی ختم کرنے کا
روایتی بیان بھی اپنے دفتر میں بیٹھ کر دیاساتھ ہی میں یہ بھی کہا کہ کئی
سالوں کے مسائل ایک دن میں ختم نہیں کئے جاسکتے انہی کے کمرے کے باہر انجمن
القریش اور القریش بیف ایسوسی ایشن کے صدور نے یہ کہا کہ ہم نئے نرخ نہیں
مانتے کیونکہ یہ نرخ تو تین سال پرانے ہیں- حیرت کی بات یہ ہے کہ تین سال
پرانے نرخ آج بھی پشاور میں کہیں بھی لاگو نہیں ڈھائی سو روپے کلو سمیت تین
سو روپے کلو لیکرگوشت فروخت ہورہا ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں مانیٹرنگ
اور چیکنگ کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے شہر کے مختلف علاقوں میں غریب عوام کو
قصائی دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں لیکن گذشتہ پانچ سالوں سے پختونوں کے
اپنے حکمرانوں کو توفیق نہیں ہوئی کہ دہشت گردی سے متاثرہ غریب صوبے کے
عوام کی حالت زار پر توجہ دیتے خصوصا قصائیوں کی الٹی چھری سے لوگوں کو
لوٹنے کا نوٹس لیتے-
ایک ماہ قبل اپنے گھر کیلئے گوشت لینے کیلئے میں اپنے محلے کی قصائی کی
دکان پر گیا میں نے اس سے سوال کیا کہ بھائی گوشت کیا کلو قیمت بیچ رہے ہو
چونکہ وہ مجھے جانتا تھا اس لئے مجھے جواب دیا کہ ڈھائی سو روپے کلو ہے اس
نے میری طرف دیکھ کر چھری ہاتھ میں لی اور کہا کہ کہاں سے گوشت نکال کر دو
میں نے اس کے ہاتھ میں چھری دیکھ کر انتہائی عاجزی سے کہہ دیا کہ بھائی
جہاں سے مرضی گوشت لیکر دو لیکن یہ چھری دوسری طرف کر کے کام کرو اس نے
گوشت کی بوٹیاں چھچڑے ہڈیا ں رکھ کر دینے شروع کردئیے میں اس کو گرشت تولتے
ہوئے دیکھ رہا تھا اس وقت ایک گاڑی رکی اور اس سے ایک شخص جس نے تھری پیس
پہنا تھا آکر بڑے بارعب طریقے سے قصائی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اوئے
گوشت کس طرح بیج رہے ہو قصائی اس کو دیکھ کر کہنے لگا 'کہ سر جی دو سو بیس
روپے کلو ہے میں بھی حیران ہوا کہ لنڈے کی جینز تو میں نے بھی پہنی ہے لیکن
میرے لئے اس کی قیمت الگ تھی اس وقت گاڑی سے ایک بچہ بھی اترا اور آکر اس
شخص کے سامنے کہنے لگا کہ امی کہہ رہی ہے کہ گوشت کیساتھ قیمہ بھی لینا ہے
قصائی نے گاڑی میں بچوں اور خاندان کے دیگر افرادکو دیکھ کر کہا کہ دو سو
بیس روپے تو سرکاری ہے لیکن چونکہ ہمیں نقصان ہوتا ہے اس لئے ڈھائی سو روپے
ہے اور اس نے اس شخص کو جسے وہ پرائس کمیٹی کا اہلکار سمجھ کر قیمت بتا رہا
تھا اسی ڈھائی سو روپے میں کلو گوشت دیا - یعنی اسے جیل جانے کا ڈر تھا اس
لئے سرکاری ریٹ بتا دیا یہی حال ہر جگہ پر ہے-
سرکار کے نام پر ہمارا خون چوسنے والییعنی فوڈ کنٹرول کی ڈیپارٹمنٹ سے لیکر
پرائس کنٹرول کرنے والے ملازمین نہ تو شہر کے مختلف مذبح خانو ں سے لائے
جانیوالے گوشت کی چیکنگ کرتے ہیں نہ ہی یہ دیکھتے ہیں کہ یہ صحت مند جانور
کا گوشت بھی ہے کہ نہیں ہاںاس پر تصدیق کی مہر لگی ہوتی ہے لیکن یہ مہر بھی
پانچ سو روپے سے لیکر پندرہ سو روپے میں ہر کوئی لگا سکتا ہے جس کے پاس
پیسہ ہو گاڑیوں میں لائے جانیوالے گوشت پر مختلف سڑکوں کا گرد و غبار دھول
مچھر مکھیوں کے غول اپنی سرگرمیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں اگراس گاڑی کو
چلانے والاڈرائیو ر کنڈیکٹر اور قصائی نسوار استعمال کرتا ہو تو اس کی تھوک
اور نسوار کی پچکاریاں گوشت کے مزے کو اور بھی دوبالا کرتی ہیں پھر جب یہی
گوشت دکان پر پہنچا دیا جاتا ہے تو گوشت پر جالیاں نہ ہونے کی وجہ سے
نالیوں کے مچھر اور مکھیاں گوشت کو اپنا وٹامن پہنچا دیتی ہیں یہ الگ بات
کہ بحیثیت مسلمان ہمیں بتایاگیا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے لیکن ہم لوگوں کا
ایمان کہاں ہے خیر یہ شریف قصائیوں کا حال ہے ورنہ مخصوص مذبح خانوں میں
بڑے اور چھوٹے گوشت یعنی بکری اور دنبے کا گوشت فروخت کرنے والے قصائی گوشت
کے وزن کو زیادہ کرنے کیلئے اس میں پانی بھرتے ہیں کچھ مخصوص علاقوں بشمول
شہر و کینٹ میں کم عمر بچھڑوں کا گوشت بھی چھوٹے گوشت کے نرخ پر فروخت کیا
جاتا ہے اور پوچھنے والوں کی آنکھیں ماہانہ بھتہ خوری نے بند کر رکھی ہیں-
گوشت کی قیمتوں میں اضافے پر صرف پشاور کے تقریبا دو ہزار کے قریب قصائی
رونا رو رہے ہیں حالانکہپنجاب سے آنیوالے جانور صوبے بھر میں پہنچائے جاتے
ہیں وہاں پر قیمتوں کا کوئی مسئلہ نہیں سرکاری لیڈروں کی طرح اب قصائی بھی
بیان دینے شروع ہوگئے ہیں کہ افغانستان گوشت اور جانوروں کی سمگلنگ ہورہی
ہیں جس کے باعث قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے اور یہی کہہ کر آنکھوں میں دھول
جھونکنے کی کوشش کی جاتی ہیں ویسے دھول اسی سمگلنگ کی آڑ میں پشاور میں
انتظامی عہدے پر تعینات ایک شخص نے بھی جھونکی جس کے پاس جب افغانستان
سمگلنگ کے حوالے سے ثبوت آئے کہ کس طرح خیبر پختونخواہ کے دو بڑی اہم
شخصیات سمگلنگ کے اس گھنائونے کاروبار میں ملوث ہے جو اکثر ٹی وی سکرینوں
پر آکر سمگلنگ کے خلاف بڑی تقریریں کرتے ہیں جب یہ ثبوت متعلقہ عہدیدار نے
متعلقہ افراد کو دکھائے اور بارگینگ کی تواس چکر میں وہ عہدیدار ایک بڑے
ضلع کا ذمہ دار بن گیا اور آج کل وہ اپنے بچوں کو سمگلنگ کے نام پر حاصل
ہونیوالی ترقی کا مال کھلا رہا ہے اور برملا اعلان بھی کرتا ہے کہ اسے
پروموشن اس کی قابلیت کی بنیاد پر ملی ہیں خیر دل کے پھپھولے کہاں سے کہاں
لیکر پہنچا دیتے ہیں-
بحیثیت صحافی زندگی میں دو ہڑتال ایسے میں پشاور میں ہوتے ہوئے دیکھے ہیں
جسے آج بھی یاد کرتا ہوں تو حیرانگی ہوتی ہے کیونکہ ان دو ہڑتالوں کے دوران
عوام نے سکھ کا سانس لیا تھا ان میں ایک رکشہ والوں کی ہڑتال او ردوسرے
قصائیوں کی ہڑتال تھی رکشہ کی ٹر ٹر اور انہیں چلانے والوں کی بدمعاشی سے
تنگ عوام ان کی ہڑتال پر خوش تھے کہ چلو ان سے جان چھوٹی تو قصائیوں کی
ہڑتال سے بھی انہیں کوئی فرق نہیں پڑا تھا کیونکہ مہنگائی نے انہیں دال
خوربنا دیا تھا -بات گوشت کی قیمتوں کی ہورہی ہیں انتظامیہ نے تین سال پہلے
بھی دو سو بیس روپے کا ریٹ دیا تھا لیکن انہیں چیک کرنے والا کون
تھا-کیونکہ ریٹس کو چیک کرنے والوں کے گھر میں گوشت تو باقاعدگی سے پہنچتا
ہے بلکہ ان کے دفتر میں کام کرنے والے مخصوص لوگ ماہانہ کی بنیادوں پر
مختلف علاقوں کی چیکنگ کرتے ہیں اور اپنے اوپر کی آمدنی کا بندوبست بھی
کرتے ہیں جس سے قصائیوں کی پانچوں کڑاہی میں ہیں اور انہیںچیک کرنے والوں
کی سر او ر پائوں بھی کڑاہی میں رہے غریب عوام جو پہلے بھی سیاستدانوں کے
نعرے سن کر خوار ہورہے ہیں اب بیورو کریسی کے نعرے بھی سننے پر مجبور ہیں
حالانکہ ان لوگوں کا کام بیان دینا نہیں لیکن پوچھے کون ! ویسے ہمارا ذاتی
مشورہ اسسٹنٹ کمشنر پشاور کیلئے ہے اگر وہ اپنا گوشت کم کرنا میرا مطلب ہے
صحت بہت کرنا چاہتے ہیں تو مہینے میں چار دفعہ اپنے دفتر سے نکل کر شہر کے
چار مختلف علاقوں کی قصائیوں کا حال پوچھے تو ان سے ان کا گوشت بھی مطلب
صحت بھی بہتر ہوگی اور قصائی لوگوں کو الٹی چھری سے ذبح بھی نہیں کرسکیں گے
- |