حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی
ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ تحریر کرتے ہیں کہ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ
حضور ﷺ سب لوگوں سے زیادہ مہربان تھے اللہ کی قسم سخت سردی کی صبح کو جو
بھی غلام یا باندی یا بچہ آپ کی خدمت میں پانی لاتا (تاکہ آپ اسے استعمال
کرلیں اور پھر وہ اسے برکت کیلئے واپس لے جائے ) تو آپ انکار نہ فرماتے
بلکہ ( سخت سردی کے باوجود ) آپ اُس پانی سے چہرہ اور ہاتھ دھولیتے اور جب
بھی آپ سے کوئی آدمی بات پوچھتا تو آپ پوری توجہ سے اُس کی بات سنتے اور
اپنے کان اس کے قریب کردیتے اور آپ اُس کی طرف متوجہ ہی رہتے اور وہی آپ کو
چھوڑ کرجاتاتو جاتا اور جب کوئی آپ کا ہاتھ پکڑنا چاہتا تو آپ اُسے پکڑنے
دیتے اور وہی آپ کا ہاتھ چھوڑتا تو چھوڑتا آپ نہ چھوڑتے ۔
قارئین علم اخلاق اور حکمت کا سب سے بڑا خزانہ نبی کریم کی سیرت طیبہ کے
اندر موجود ہے قرآن پاک جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اس کی پریکٹیکل شکل حضور
ﷺ کی سیرت مبارکہ ہے مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا عقیدہ اور ایمان ہے کہ
کائنات کی تمام سائنسی حقیقتیں قرآن وسنت کے اند رموجود ہیں یہ اب ہم پر
منحصر ہے کہ ہم کس طرح کے طالب علم ہیں ،ہماری قابلیت کیا ہے ،ہم کتنی محنت
کرتے ہیں ،اپنا کتنا وقت تدبر اور غورو فکر پر خرچ کرتے ہوئے علم اور
دانائی کے یہ موتی چنتے ہیں اور کس طرح اس کائنات کے چھپے ہوئے رازوں کو
جاننے کی کوشش کرتے ہیں جن کے متعلق یہاں تک کہہ دیاگیا
”اور ہم نے کائنات کو تمہارے لیے مسخرّ کردیا “
یہ انسان پر ایک ذمہ داری ہے جو اس نے خلیفتہ الارض ہوتے ہوئے اٹھائی تھی
کہا جاتاہے کہ کائنات کی ہر تخلیق کو اللہ تعالیٰ نے خلافت او رنیابت کی یہ
ذمہ داری قبول کرنے کی پیش کش کی لیکن یہ ذمہ داری اتنی بڑی تھی کہ مخلوق
میں سے کسی نے بھی اسے قبول کرنے سے معذرت کی لیکن انسان نے یہ ذمہ داری
اُٹھا لی اسی بارے میں قرآن پاک کے مضامین میں باری تعالیٰ ارشاد فرماتے
ہیں کہ انسان بہت جلد باز ہے احادیث مبارکہ میں یہ واضح سبق دیاگیا ہے کہ
جب بھی کوئی اہم فیصلہ کرنا ہو تو سوچ سمجھ کر بغیر کسی تعجیل کے فیصلہ
کیاجائے تاکہ غلطی کا امکان نہ رہے اور بزرگان دین بھی یہی سبق دیتے ہیں کہ
تعجیل شیطانی فعل ہے اور آہستہ روی درست کام ہے ۔
قارئین جب تک ہم مسلمان بندے کے پتر تھے اور باتوں کی بجائے عملی کام پر
یقین رکھتے تھے تب تک کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں علم حکمت ،سائنس
ٹیکنالوجی ،ریاست وحکومت ،صنعت وتجارت ،آرٹ اور کلچر سے لیکر دنیا جہان کے
موضوعات پر ہماری حکومت اور دسترس تھی ایک طرف خلفاءراشدین کا دور حکومت کہ
جس کی مثال آج کی تہذیب یافتہ ترین دنیااور ممالک بھی پیش کرنے سے قاصر ہیں
اور دوسری جانب حضرت عمر ؓ کا مثالی دور حکومت کہ جن کے مختلف اقدامات اور
اصلاحات کو آج بھی برطانیہ کینڈا سمیت دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک
”Omer's Law“کہہ کر سلام بھی پیش کرتے ہیں اور اپنے اپنے ممالک میں ان
قوانین پر عمل بھی کرواتے ہیں اور ان کے فوائد سے اپنی عوام کو خوشحال بھی
کرتے ہیں جب کہ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر تھوڑادیکھ لیجئے کہ ہماری تاریخ
کیاتھی اور موجودہ کھنڈرات ہمارے حال کی بدحالی کی تصویر کس نوعیت کی کھینچ
رہے ہیں اور خدانخواستہ اگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی اور ”کچھوے اور خرگوش
“کی کہانی کے مصداق اپنے بزرگوں کے قصوں اور عظمت کے ڈونگرے پیٹنے کے علاوہ
کوئی عملی کام نہ کیا تو یقین جانیئے مستقبل اس بھی برا ہوگا جو آج ہے اور
ہم ایک ”کنزیومر مارکیٹ “بنتے بنتے آخر میں جاکر شائد طفیلی جراثیم کی شکل
اختیار کرجائیں جو یقینا اور تو سب کچھ ہوسکتاہے لیکن اللہ تعالیٰ کا نائب
نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ عہدہ جواں مردوں ،عزت اور وقار کے ساتھ زندگی گزارنے
پر یقین رکھنے والوں اور قرآن وسنت پر عمل پیرا ہونے والوں کیلئے ہے ۔
قارئین یہ تو رہی آج کے کالم کی تمہید جس کا بہت گہرا تعلق آج کی گفتگو کے
ساتھ ہے ہم نے گزشتہ روز ایک بہت خوبصورت تقریب میں شرکت کی اس تقریب کا
عنوان بہت ہی دل چھو لینے والا تھا ”ایک شام ماں کے نام “کے عنوان سے کشمیر
انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میرپور میں ہونے والی یہ تقریب آزادکشمیر کے سب سے
پہلے میڈیکل کالج جس کانام ”ایم بی بی ایس میڈیکل کالج میرپور“ہے کے زیر
اہتمام منعقد ہوئی اور یہ اس کالج کے سب سے پہلے بین الاقوامی نوعیت کے
ایونٹ کا پری کانفرنس راﺅ نڈ تھا پری کانفرنس سیمینار کی اس تقریب کی صدارت
ڈپٹی سپیکر قانون ساز اسمبلی محترمہ شاہین کوثر ڈار نے کی جب کہ شرکاءمیں
ہم چند ”صاحبان “کے علاوہ باقی تمام خواتین تھیں اپنے لیے صاحبان کا لفظ ہم
نے اس لیے استعمال کیا کہ اپنی اوقات سے تو ہم بخوبی آگاہ ہیں لیکن اس کے
ساتھ ساتھ پرنسپل محترمہ بینظیر بھٹو میڈیکل کالج میرپورپروفیسر ڈاکٹر میاں
عبدالرشید ،وائس پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر اشرف نظامی ،پروفیسر تراب ،ڈاکٹر
ریاست علی چوہدری صدر پی ایم اے ،ڈاکٹر اورنگزیب عالمگیر کے آئی سی ،ڈاکٹر
رضا گورسی ،ڈاکٹر مشتاق چوہدری ایم ایس ڈی ایچ کیوہسپتال میرپور ،ڈاکٹر
بشیر چوہدری ڈی ایچ او ،پاکستان پیپلزپارٹی کے سٹی صدر غلام رسول عوامی اور
دیگر چند معزز اہل شہر اور ڈاکٹرز کے عالی مرتبے سے بھی آشنا ہیں اس لیے
اُن کی موجودگی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہم نے اپنی خودی بھی بلند کرلی
سوجناب اس کانفرنس میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ایک عورت کے سب سے
خوبصورت روپ یعنی ماں کو Tribute پیش کیاگیا آئرلینڈ سے تشریف لانے والی
ڈاکٹر شیلا سگورو ،ڈاکٹر سوسن ،ڈاکٹر شیر شاہ سید ماہر امراض نسواں کراچی
،ڈاکٹر افتخار یوسف ،ڈاکٹر عارف لاہور سمیت درجنوں ڈاکٹرز نے اس سمینار میں
شرکت کرنے کے ساتھ ساتھ خواتین کی جسمانی ،ذہنی اور روحانی بیماریوں کے
حوالے سے گفتگو کی یقینا ہمارے پڑھنے والے روحانی بیماریوں کا پڑھ کر چونک
گئے ہوں گے کہ ایک میڈیکل ڈاکٹر کا بھلا روحانی بیماریوں سے کیا تعلق بلکہ
کئی تخیل پرست دوستوں کے ذہنوں میں ”دستار آمیز ڈاکٹرز “کی تصویر بھی پھر
گئی ہوگی تو جناب یہاں ہم بتائے دیتے ہیں کہ اس سمینار میں جہاں جسمانی
بیماریوں کے علاج کے حوالے سے دنیا کی جدید ترین تحقیق پر لیکچرز دیئے گئے
وہاں ہم خلیفوں کی حقیقت بھی سائنسی زبان میں بتائی گئی کہ آزادکشمیر اور
پاکستان میں صنف نازک کس ذہنی اورجسمانی تشدد کا شکار ہوکر روحانی طور پر
مفلوج ہورہی ہے جی قارئین ایسا ہی ہورہاہے ہمارے ملک میں خواتین پر بڑھتا
ہوا تشدد ہماری ترجیحات اور ذہنی رویوں کی عکاسی کررہا ہے حالانکہ ہم اُن
پیغمبر ﷺ کا کلمہ پڑھتے ہیں کہ جب اُن کی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ ؓ آپ سے
ملنے کیلئے تشریف لاتیں تو نبی کریم ﷺ کھڑے ہوکر اُن کا استقبال کرتے اور
امہات المومنین ؓ کی بیان کردہ روایات آج بھی موجود ہیں کہ آپ کی طبیعت میں
بہترین اخلاق تھا اور نرمی اور شفقت اپنی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے جبکہ ہم
اپنے گریبان میں جھانکیں تو پتہ چلے گا کہ ہم جیسا سخت دل روئے زمین پر
کوئی نہ ہوگا ہمارا اپنی ماں بہن ،بیوی بیٹی کے ساتھ کیا سلوک ہے اور
معاشرتی سطح پر ایک ”مرد “ہوکر ہم دوسرے کی ماںبہن بیٹی اور بیوی کو کن
نگاہوں سے دیکھتے ہیں یہ آپ خود ہی سوچ لیں ۔
قارئین ایم بی بی ایس میڈیکل کالج میرپور میں 8,9اور 10تاریخ کو ہونے والی
یہ میڈیکل کانفرنس دنیا بھر کے ماہرین طب کا آزادکشمیر کی دھرتی پر آج تک
کا ہونے والا سب سے بڑا اجتماع ہے اس کا تمام تر سہرا سب سے پہلے وزیر اعظم
آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید کے سر ہے کہ جس نے اپنی شہید قائد محترمہ
بینظیر بھٹو کے وعدے او روصیت کو صد رپاکستان آصف علی زرداری کے ہاتھوں
عملی روپ دیا اور ناممکن کو ممکن کردکھایا اور یہ کالج بننے کے بعد اس کا
نام بھی نوڈیرو اور گڑھی خدابخش میں ابدی نیند سونے والی شہید رانی کے نام
پر رکھا ایم بی بی ایس مخفف ہے ”محترمہ بینظیر بھٹو شہید “کا ۔خوبی اتفاق
تو دیکھئے کہ جو ڈگری یہاں پر کروائی جاتی ہے وہ بھی ایم بی بی ایس کی ہے
اس تین روزہ کانفرنس میں انگلینڈ ،آئر لینڈ ،امریکہ ،سعودی عرب ،مشرق وسطی
سے لیکر دنیا کے متعدد ممالک سے بڑے بڑے ڈاکٹرز ،پروفیسرز اور ریسرچ سکالرز
میرپور کی دھرتی پر تشریف لائے ہیں کراچی لاہور اسلام آباد روالپنڈی پشاور
اور پاکستان کے تمام بڑے شہروں کے علاوہ آزادکشمیر کے تمام اضلاع کی
نمائندگی اس کانفرنس میں رہی اور علم وحکمت کے وہ موتی یہاں بکھیرے گئے کہ
طالبان علم کے لیے یہ موقع عید کاموقع بن گیا اس کانفرنس کا دوسراسب سے بڑا
کریڈٹ پرنسپل ادارہ پروفیسر میاں عبدالرشید کو جاتاہے کہ جنہوںنے خون جگر
سے اس ننھے منے پودے کی پرورش او رنگہداشت کی ہے اور اس کالج کی فکیلٹی سے
لیکر پی ایم ڈی سی منظور ی تک صبح وشام بھاگ بھاگ کر کام کیاہے ہم پروفیسر
ڈاکٹر میاں عبدالرشید اور ان کی تمام ٹیم کو سلام پیش کرتے ہیں کہ جنہوںنے
آزادکشمیر کی دھرتی پر درست معنوں میں شعبہ طلب کے عالموں کا سب سے بڑا
اجتماع کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ ہم اپنی اصل کی طرف لوٹ رہے ہیں اور وہ دن
دور نہیں کہ جب ہم اپنی اُسی معراج کو دوبارہ چھو لیں گے جس کا سبق نبی
کریم ﷺ اور خلفائے راشدین نے دیاتھا یہاں پر ہم وزیر اعظم آزادکشمیر چوہدری
عبدالمجید سے بھی گزارش کریں گے کہ ہماری تلخ نوائیوں کو جناب آپ مہربانی
فرما کر اپنی مخالفت مت گردانئے کیونکہ دانش مند لوگ کہتے ہیں کہ بہترین
دوست وہی ہے جو تمہیں تمہاری خامی سے آگاہ کرے وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید
صاحب آپ کی تمام خوبیوں کے ہم دل سے قائل ہیں لیکن آپ کے چند بدخواہ اور
عاقبت نااندیش مشیر وں کے مشورے بعض اوقات اس نوعیت کی حماقت سے بھرپور
ہوتے ہیں کہ ہمارے جیسا ناقص العقل انسان بھی اس میں غلطیاں ڈھونڈ لیتاہے
ہم دل سے قائل ہیں کہ وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید نے آزادکشمیر میں جتنے
ترقیاتی کام شروع کروائے ہیں ان کا نام آزادکشمیر کی رہتی دنیا تک کی تاریخ
میں محفوظ رہے گا لیکن ہم جان کی امان پر وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید سے یہ
بھی عرض کرتے ہیں کہ بمربانی احمق مشیروں سے اپنی جان چھڑوائیں جو آپ کے
لیے بدنامی کا باعث بن رہے ہیں بقول چچا غالب اپنے اور وزیر اعظم چوہدری
عبدالمجید کے تلخ وشیریں تعلق کے متعلق ہم یہی کہیں گے
کب وہ سنتاہے کہانی میری ؟
اور پھر وہ بھی زبانی میری
کیا بیاں کرکے مرا روئیں گے یار ؟
مگر ،آشفتہ بیانی میری
متقابل ہے مقابل میرا
رک گیا ۔دیکھ روانی میری
قدرِ سنگ ِ سرِ رہ رکھتاہوں
سخت ارزاں ہے گرانی میری
گرد بادِ رِہ بیتابی ہوں
صر صرِ شوق ہے بانی میری
کردیا ضعف نے عاجز غالب
ننگ ِپیری ہے جوانی میری
قارئین ہم سمجھتے ہیں کہ آزادکشمیر کے ہیلتھ سسٹم کی ترقی کیلئے محترمہ
بینظیر بھٹو شہیدمیڈیکل کالج میرپور میں ہونے والی پہلی میڈیکل کانفرنس کا
انعقاد بنیادی کردا راداکرے گا جنرل ریٹارئرڈ اظہر کیانی سمیت پاک آرمی سے
ریٹائر ہونے والے ڈاکٹرز نے بھی بڑی تعداد میں اس کانفرنس میں شرکت کی اور
دنیا بھر کے عالمی شہرت یافتہ پروفیسر ز اور ریسرچ سکالر ز نے اس کانفرنس
میں شرکت کرتے ہوئے جدید ریسرچ سے یہاں کے ڈاکٹرز کے ذہن منور کیے انسانیت
کی اس خدمت کا ثواب اپنے اپنے نصیب اور کریڈٹ کے مطابق محترمہ بینظیر بھٹو
شہید کو بھی ملے گا اور مجاور وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید سے لیکر پروفیسر
ڈاکٹر میاں عبدالرشید تک سب اس ثواب کے حقدار ہیں اللہ مجھ سمیت ہم سب کو
درست معنوں میں ”بندے کا پتر “بن کر خلافت کی ذمہ داریاں ادا کرنے والا
انسان بنائے جو علم حکمت ریسرچ تدبر احترام آدمیت برداشت اور دیگر عنوانوں
پر دل سے یقین بھی کرتاہے ،زبان سے زکر بھی کرتاہے اور دل سے عمل بھی
کرتاہے ۔آمین
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک پاگل دوسرے پاگل کو فون کرتے ہوئے بولا ۔
”یار کل اخبار میں میرے مرنے کی خبر چھپی تھی تم کیوں نہیں آئے؟“
دوسرے پاگل نے کہا
”دراصل کل میری برسی تھی اس لیے میں نہ آیا “
قارئین وقت کا تقاضا یہ ہے کہ پاگل پن کی انتہاﺅں کو چھونے والی حماقتوں کو
چھوڑ کر ہم بھی اب علم اور ریسرچ کی رسی تھام لیں یہی ہمارے بقاءکا آخری
راستہ ہے پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید ہم آپ کو سلام پیش کرتے ہیں ،ہم
محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو سلام پیش کرتے ہیں اور اپنے پیارے دوست بزرگ
شفیق مجاور وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید کو بھی سلام پیش کرتے ہیں ویل ڈن
۔۔۔۔ |