وطن عزیز کو صرف بعض سیاست دان،
بیوروکریٹ ہی بدنام کرنے میں مصروف نہیں ہیں بلکہ اس کام کے لیے ملک اور
اسلام دشمن قوتوں نے الیکٹرونک میڈیا سے بعض چینلز اور فنکاروں کی خصوصی
خدمات حاصل کی ہیں۔شہزاد رائے میری نظر میں ایک عام سا گلوگار ہے ۔ مجھے ان
سے کوئی خاص دلچسپی بھی نہیں ہے اس لیے کہ وہ اسلامی تعلیمات اور بنیادی
اخلاقیات سے بھی نا واقف نظر آتا ہے ۔میں انہیں عام انسان بھی نہیں کہہ
سکتا کیونکہ عام انسان اپنے اندر ” فنکارانہ “ صلاحیتیں نہیں رکھتا۔جس چینل
نے پاکستان کا مطلب لاالہ اللہ سے تبدیل کرکے اب پ کرنے کی کوشش کی وہ ہی
چینل پرائمری اسکولوں میں اسلامی تعلیمات کے خلاف سرگرم ہے ۔اس مقصد کے لیے
شہزاد رائے کی خدمات حاصل کی گئی ہے۔شہزاد کی پیدائش اور ابتدائی تعلیم
وغیرہ کے متعلق کوئی بات واضع نہیں ہے ۔بس حکومت کی جانب سے ان کو مختلف
اعزازات سے نوازہ گیا۔ ہماری حکومتوں کی کیا بات ہے یہ تو ایک غیرملکی
متنازعہ وفاقی وزیر کو بھی پی ایچ ڈی کی اعزاز ی ڈگری دے چکی ہے۔شہزاد رائے
کوبھی کوئی حکومت یہ بھی ڈگری دے سکتی ہے۔اس سے پہلے شہزاد کو 2004 میں ان
کی خدمات پر تمغہ امتیاز اور 2008 میں ستارہ ایثار بھی حکومت کی جانب سے
دیا جاچکا ہے انہوں نے کشمیر زلزلہ کے بعد وہاںبحالیِ زندگی کے کام میں
اپنا کردار ادا کیا تھا۔شہزاد رائے کی زندگی ٹرسٹ کی ویب سائٹس کا جائزہ
لینے سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ زندگی ٹرسٹ کا کوئی دفتر پاکستان میں
موجود نہیں ہے البتہ امریکہ کے مختلف شہروں میں ان کے دفاتر موجود ہیں۔
شہزاد کی اپنی تعلیم کا تو کچھ نہیں معلوم کہ انہوں نے کہاں سے کس قسم کی
تعلیم حاصل کی لیکن وہ پاکستان میں تعلیم کے لیے ” چل پڑھا“ سلوگن کے تحت
ان دنوں کافی سرگرم ہیں۔جیو ٹی وی اس سلسلے میں انکے پروگرام کا پیشکار بنا
ہوا ہے ۔شہزاد رائے جو تمیز اور تہذیب سے مبرا جملہ ” چل پڑھا“ کے ذریعے
ناصرف بنیادی تعلیمی نظام کو درست کرنے کے نام پر غیر مسلموں کو اسلامی
تعلیمات سے دور رکھنے کی کوشش کررہے ہیںبلکہ خاندانی منصوبہ بندی کے غیر
اسلامی طریقہ کار کو اپنانے کے لیے بھی اپنے تئیں کوششیں کررہے ہیں۔مجھے
حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ہماری حکومت کن اصولوں کے تحت گلوگاروں یا
فنکاروں کی پذیرائی کرتی ہے۔مجھے تو شہزاد رائے جیسے لوگوں کے پیچھے جانے
اور ان کی تشہیر کرنے والوں پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ یہ لوگ کسی عمل کی
تصدیق کیئے بغیر ہی ان کی تعریفوں کے پل باندھنا شروع ہوجاتے ہیں۔
چند روز قبل مجھے شہزاد رائے کے زندگی ٹرسٹ کا ایک اشتہار نظر آیا۔جس پر
لکھا تھا کہ اسکول کے جو بچے اپنی فیس اور کتابیں نہیں خریدسکتے وہ درج ذیل
نمبروں پر زندگی ٹرسٹ سے رابطہ کریں۔میں نے ان تمام موبائل نمبر زپر کال کی
لیکن ایک نمبر پر ریکارڈنگ چل رہی تھی کہ ”آپ کا مطلوبہ نمبر کسی کے
استعمال میں نہیں ہے “ جبکہ دیگر نمبر مسلسل بند تھے۔ جن کو ڈائل کرنے پر
یہ پیغام سنائی دیتا ہے ” آپ کا مطلوبہ نمبر اس وقت بند ہے برائے مہربانی
تھوڑی دیر بعد کوشش کیجئے “۔مذکورہ نمبرز یہ ہیں ہوسکے تو آپ بھی کال کرکے
دیکھیں۔ ۔0333-4040119-0333-2871465-0333-2629209
0333-4256549-03334390065.
خیر بات ہورہی تھی ” چل پڑھا “ کی ۔ مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ یہ جملہ یا
اس عنوان سے پروگرام کی اجازت کیسے دی گئی؟۔ کیا کسی نے اس جملے میں
اخلاقیات کے پہلو کو مدنظر نہیں رکھا؟ کیا شہزاد رائے کو اس کی قابلیت کے
مطابق چینل میں سب کچھ کرنے کی کھلی اجازت دی جاچکی ہے؟اس عنوان سے ظاہر ہے
کہ مخاطب چینل یا شہزاد رائے نہیں بلکہ وہ متعلقہ اسکول ٹیچر ہیں جن کے پاس
پہنچکر شہزاد اپنے من کی ” گارہے ہیں “۔ اس پروگرام میں ہمارے معاشرے اور
ہمارے دیس کے سادے لوگوں کا تمسخر اڑایا جارہا ہے۔جملہ چل پڑھا ایسا ہے کہ
کوئی شہزاد رائے کو کہے کہ ” شہزاد چل آ شروع کر گانا“۔ بہرحال مجھے شہزاد
رائے کو اس کی اس عمر میں تمیز سکھانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس عمر میں
تو آدمی بہت کچھ خود سیکھ اور سمجھ سکتا ہے۔
ایک پروگرام میں شہزاد رائے نے گورنمنٹ اسکول جاتے ہیں جہاں یقینا مسلمان
طلبہ و طالبات کی تعداد زیادہ ہوگی لیکن اپنے پروگرام کے اسکرپٹ کے مطابق
وہ اس کلاس روم کا انتخاب کرتے ہیں جہاں غیرمسلم طالبات زیادہ تھیں ۔ وہ ان
غیر مسلم معصوم بچوں سے سوال کرتے ہیں کہ ” آپ کا مذہب کیا ہے“ بچے جواب
میں اپنے مذہب کا نام بتاتے ہیں ۔ شہزاد رائے ان کا جواب سن کر اسکول
اساتذہ کے پاس جاتے ہیں اور ان سے سوال کرتے ہیں کہ کیا کسی غیر مسلم کو
دین اسلام کی کتابیں پڑھانا جائز ہے؟دراصل یہ وہ سوال ہے جس کے لیے شہزاد
رائے نے یہ پروگرام شروع کیا۔ جواب ملتا ہے کہ نہیں اسلام میں کسی غیر مسلم
کے ساتھ زبردستی کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ یقینا نہیں ہے اور ایسا کم از کم
پاکستان میں ہوتا بھی نہیں ہے ۔ یہاں سیکنڈری اسکول سرٹیفیکٹ حصہ اول (کلاس
نہم) میں بھی صرف مسلمان طلبہ کے لیے اسلامیات کا پیپر لازمی ہے جبکہ غیر
مسلم کے لیے نہیں یہ پرچہ ہوتا ہی نہیں۔لیکن شہزاد رائے نے اپنے پروگرام
میں یہ وضاحت کرنا ضروری نہیں سمجھا اگر وہ یہ وضاحت کرتے تو اس پروگرام کا
مقصد ہی فوت ہوجاتا۔
شہزاد رائے اور پروگرام کی پوری ٹیم کو یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ پاکستان
کے کسی بھی شہر ، علاقے اور گاﺅں میں بچوں کو زبردستی اسکول میں داخلہ تک
نہیں دیا جاتا بلکہ والدین کی مرضی اور منشا سے داخلے فراہم کیے جاتے ہیں۔
یقینا والدین بچوں کو اسکول میں داخلہ کرانے سے قبل ساری بنیادی معلومات
حاصل کرتے ہونگے ۔اہم بات یہ ہے کہ ملک کے کسی اسکول میں کسی غیر مسلم
طالبعلم کو زبردستی اسلامیات یا دیگر دینی کتابیں نہیں پڑھائی جاتی بلکہ یہ
ان کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے ۔ لیکن شہزاد رائے نے پاکستان کو بدنام کرنے
اور ایک انتہائی بنیاد پرست اسٹیٹ ظاہر کرنے کے لیے اس طرح کا پروگرام پیش
کیا جسے چینل نے( جس کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ غیر مسلم عالمی
قوتوں سے فنڈز حاصل کرتا ہے ) بلاجھجک پیش بھی کردیا۔سمجھ میں نہیں آتا کہ
ایک گلوکار کوجو ملک کے نظام اور قوانین سے بھی پوری طرح واقف نہیں ہے اس
طرح کے پروگرام کرنے کی کس طرح اجازت دی گئی اور اب تک پاکستان الیکٹرونک
میڈیا ریگولٹری اتھارٹی جسے پیمر ا کہا جاتا ہے اس پروگرام پر کیوں نوٹس
نہیں لیا؟ کیا اسلامی مملکت میں ہر ایک کو اسلامی روایت اور اصولوں کا مذاق
اڑانے کی اجازت دیدی گئی ہے؟
ایک دوسرے پروگرام میں شہزاد رائے اس غریب کے گھرانہ میں جاتے ہیں جسے اللہ
تعالٰی نے اولاد کی دولت مالا مال کیا ہوا ہے ۔صاحب ِخانہ کے 19بچے تھے ،
شہزاد رائے نے اللہ کی نعمت کا تقریباََ مذاق اڑاتے ہوئے ان سے پوچھا کہ آپ
نے کبھی سوچا کہ ان کی پرورش کیسے کی جائے گی؟ جواب دینے والا بھی ایمان کا
پکا تھا اس نے کہا جس نے یہ اولاد دی ہے وہ ہی پالنے والا ہے۔
یہ بات درست بھی ہے۔ اللہ کی نعمتوں کا تعلق کسی کی مردانگی سے نہیں ہوتا
بلکہ یہ ایمان ہے کہ جسے دنیا میں آنا ہے وہ آکر رہتا ہے پھر ہم کیسے
احتیاط کے نام پر اللہ کے نظام سے (نعوذبااللہ) مقابلہ کرسکتے ہیں۔غیر
اسلامی قوتوں کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو نا صرف کمزور کردیا جائے بلکہ ان
کی تعداد بھی کم کردی جائے۔اس مقصد کے تحت وہ سرگرم عمل ہیں ۔
لوگوں کو سوچنا چاہئے غربت آج زیادہ ہے یا 50 سال پہلے زیادہ تھی جب ہر گھر
میں تین اور چار سے زیادہ بچے ہوا کرتے تھے۔ آج غربت میں کم آئی ہے تو اس
کی وجہ آبادی میں اضافہ بھی ہے۔یہ تاثر غلط ہے کہ آبادی میں اضافہ کا سبب
غربت ہے۔بحیثیت مسلمان ہمیں یہ یقین ہونا چاہئے کہ غربت کا تعلق آبادی میں
اضافہ کسی طور پر بھی نہیں ہے جبکہ غریب وہ نہیں ہوتا جس کے پاس روپیہ پیسہ
ہو بلکہ میرے خیال میں غریب وہ ہے جس کی اولاد نہ ہو، اسی طرح یتیم وہ ہوتا
ہے جس کے دوست نہ ہو۔ اگر یہ نات درست تسلیم کی جاتی ہے تو پھر انسانوں کی
افزائش غلط کیسے ہوسکتی ہے؟
حکومت خصوصاََ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب افتخار چوہدری سے قوم توقع
رکھتی ہے وہ کہ اسلامی شعائر اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ٹی وی پروگرام کا
نوٹس لیکر کارروائی کریں گے۔ |