ڈاکٹر عافیہ صدیقی پاکستان سے
تعلق رکھنے والی سائنسدان ہیں،عافیہ صدیقی 2 مارچ 1972ءکو روشنیوں کے
شہرکراچی میں پیدا ہوئیں۔ابتدائی تعلیم کراچی میں حاصل کی ‘ثانوی تعلیم
مکمل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے امریکہ چلی گئیں اور 1990میں
امریکہ کی مشہور یونیورسٹی ”ہیوسٹن یونیورسٹی “ میں داخلہ لیا ،اپنی خداد
صلاحیتوں اور فطری ذہانت کی بدولت عافیہ نے یہاں کی امتحان میں شاندار
کارکردگی دکھائی اور”نیشنل ڈینز لسٹ“میں عافیہ کا نام آگیا ،یہ امریکا میں
ایک بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتاہے ۔اس اعلیٰ کارکردگی کے بعدعافیہ صدیقی کو
امریکا کی ریاست ”میساچوسٹس“میں واقع دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں شمار
ہونے والی یونیورسٹی MITسے فل اسکالر شپ کی آفرہوئی ،چنانچہ 1994میں عافیہ
نے اس یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اوریہاں سے ماسٹر کیا ۔بعدازں
”میساچوسٹس“میں واقع ”برانڈیز یونیورسٹی “سے” نیورو اینڈ ایجوکیشن “ میں
ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد عافیہ صدیقی اپنے گھر واپس لوٹ آئیں ،مگر ملازمت نہ
ملنے کی وجہ سے دوبارہ ملازمت ڈھونڈنے کے سلسلہ میں امریکا دورہ پرچلی
گئیں۔انہی دنوں نائن الیون کا” ڈرامہ“ برپا ہوجاتاہے ،عالمِ اسلام اور تمام
ادیان پر غالب ‘دینِ اسلام کو مسخ کرنے کی خا طر کفریہ طاقتیں متحد ہوجاتی
ہیں ،دنیامیں مثالی اسلامی ریاست ”عمارت اسلامیہ افغانستان “پر شب خون
مارنے کے لیے اس ڈرامہ کو سبب بناکر کائنات میں امن وسلامتی کا دعویدار
بدنام زمانہ امریکہ کیمائی ہتھیاروں سے لیس ہوکر دنیا کے 48سے زائد ممالک
کے آشیر باد سے لاکھوں بے گناہوں کا قتل عام شروع کردیتاہے۔ مظلوم انسانوں
کی داد رسی کے لیے وقت کے ظالم وجابر بدمعاشوں اور غنڈہ گردی کرنے والے
روسی لٹیروں کو جہنم واصل کرنے والے خدائی شیروں کو دہشت گرد قراردیا
جاتاہے اور اس نیٹ ورک کے آگے بند باندھنے کا ٹوپی ڈرامہ رچا کر ”القاعدہ
“کا پیچھا شروع کیا جاتا ہے اور خوامخو اہ بے گناہوںکو اس تنظیم کے ساتھ
محض محبت اور ہمدردی کی بناءپر پابندِ سلاسل کیاجاتاہے ۔دنیا جانتی ہے کہ
اس سارے گیم سے مقصود عالم اسلام کو تہس نہس کرنا اور دنیا پر دجالیت کا
پرچم گاڑنا تھا،اوراس کے لیے القاعدہ اور طالبان کو قربانی کا بکرا بنایا
گیا،مگر قربان جائیں !ان خدائی حواریوں اور مددگاروں پر جواللہ عزوجل کے اس
فرمان مبارک پر ”کونواَنصَارَاللّٰہ“(تم اللہ کے مددگار بن جاﺅ) پر پورا
اترے ‘اور پھر” اَلا اِنَّ نَصرَاللّٰہِ قَرَیب(سن رکھواللہ کی مدد قریب ہے)
کے خدائی وعدے پر آس لگائے بارہ سال تک کفریہ طاقتوں کے خلاف تن تنہا ،بنا
کسی ظاہری طاقت کے میدان کارزار میں ڈٹے رہے ‘اور دشمن کو مار مار کر اس
قدر بد حواس کیا کہ وہ اب جان بخشی کے لیے پوری دنیا سے مذاکرت کے نام پر
بھیک مانگ رہاہے۔
مظلوم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بھی اس ڈرامہ کی بھینٹ چڑھا یاگیا،اور نائن
الیون کے بعد ان کا نام امریکا کی سرکاری ایجنسی FBI(ایف بی آئی) نے
القاعدہ کے مطلوب افرد کی فہرست میں ڈال دیا ۔اس دوران عافیہ صدیقی کراچی
میں مقیم تھی ،عافیہ کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو وہ بہت مایوس ہوئیں،اپنے
اوپر لگے اس الزام کو دھونے کے لیے انہوں نے ایک وکیل کیا اوراس الزام کی
سختی سے تردید کی ۔مگر درندوں اور غدار وعیار حکمرانوں کے مطلوب نظر کچھ
اور ہی تھا ، وہ تو ایک معصوم حوا کی بیٹی کا سوداکرچکے تھے ،ان کے ہاں
غیرت وحمیت کی کچھ اہمیت نہ تھی ،وہ مسلسل عیار لومڑی کی طرح اس پھول پر
نظررکھے ہوئے تھے ،چنانچہ 30مارچ 2003ءکو ان کی یہ ہوس اس وقت پوری ہوگئی
جب عافیہ صدیقی اپنے تین کمسن بچوں کے ہمراہ کراچی سے روالپنڈی جانے کے لیے
ریلوے اسٹیشن کی طرف روانہ ہوئیں ۔ پاکستانی خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے
بچوں سمیت عافیہ صدیقی کو اغوا کرکے امریکی فوجیوں کے حوالہ کردیا،اس وقت
ان کی عمر 30سال تھی۔مقامی اخباروںمیں آپ کی گرفتاری کی خبر شائع ہوئی
مگربعد میں وزیروں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور آپ کی والدہ کو خاموش کرانے
کے لیے دھمکیاں دی گئیں۔
5سال تک عافیہ لاپتہ رہیں ‘یہاں تک کہ6جولائی2008کو نومسلم برطانوی صحافی
مریم ایون ریڈلی نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ انکشاف
کیا کہ” کابل کے بگرام ائیر بیس پر ایک پاکستانی خاتون گرفتارہے اور قیدی
نمبر 650کے بیرک سے چیخ وپکار کی آوازیں آتی ہیں جوپوری جیل میں سنی جاتی
ہیں،اذیت اور تشدد کی وجہ سے وہ عورت اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی ہے “۔عالمی
میڈیا پرجب انسانی حقوق کی دھجیاں اڑانے والی اوردل دھلادینے والی اس خبر
کوشور مچاتو امریکیوں نے اچانک اعلان کردیا کہ”عافیہ کو17جولائی 2007میں
افغانستان سے گرفتار کرکے نیویارک پہنچادیا گیا ہے تاکہ ان پر دہشت گردی کا
مقدمہ چلایا جاسکے ،کیوں کہ عافیہ صدیقی نے دوران تفتیش امریکی فوجیوں
پرباالارادہ حملے کا ارتکاب کیاہے“۔انسانی حقوق کی تنظیموں اور منصف مزاج
لوگوں نے امریکا کی اس کہانی کو ناقابل یقین قرار دیا،کیوں کہ عافیہ کو تو
30مارچ 2003کو اغوا کیاگیاتھا۔
بہرحال5اگست 2008کو نیویارک کی عدالت میں عافیہ صدیقی کو پیش کیا گیا اور
ان پر مقدمہ چلایا گیا ۔عدالت نے ان پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے ان کو 86سال
قید کی سزا سنائی ،جو انسانی حقوق کی چمپئن اور دنیا میں امن وسلامتی کے
دعویدار امریکا کے منہ پر طمانچہ ہے ‘جنہوں نے ایک معصوم صنف ِنازک کو تین
امریکی سورماﺅں پر محض بندوق اٹھانے پر یہ اذیت ناک سزادے کر انصاف کی
دھجیاں اڑائیں۔کیاامریکا کا عدل وانصاف یہی تقاضا کرتا ہے کہ ایک معصوم
عورت کو بچوں سمیت بناکسی جرم کے اغواکرکے پانچ سال تک غیر قانونی طور پر
جیل میں رکھا گیا اور تشد د کانشانہ بنایا گیا،پھر بھی اسے 86سال سزادی
جائے؟کیاانہی دنوں ایک سوسے زائد بے گناہ لوگوں کا قاتل آندرے بہرنگ نامی
کٹر عیسائی86سال کی سزا کامستحق نہیں تھا؟کیاعراق میں 11لاکھ سے زائد بے
گناہ لوگوں کے قاتل امریکی درندے86ہزار سال قیدکی سزا کے مستحق نہیں؟کیا
افغانستان میں بارہ سال سے کشت وخون کی ہولی کھیلنے والے اور 6لاکھ سے زائد
معصوم شہریوں کا قتل عام کرنے والے 48ممالک کے فوجی دہشت گردی کے مرتکب
نہیں ہوئے ؟کیا وہ سزائے موت کے مستحق نہیں ہیں؟کیا لاکھوں فلسطینوں کے
قاتل اسرئیل کی سربراہی کرنے والا امریکا قصور وار نہیں؟کیا پوری دنیا میں
دہشت گردی پھیلانے والا‘اور دنیا کے امن وامان کو تباہ کرنے والا امریکا
مجرم نہیں ؟کیا مجرم صرف عافیہ صدیقی جیسے کمزور لوگ ہیں؟کیا ساری کی ساری
سزاصرف اور صر ف ایک نہتی مسلمان عور ت کے لیے ہی رکھی گئی تھی؟غیرت آنی
چاہیے تھی امریکی عدالت کو یہ منافقت اور دوہر ا معیار اپناتے وقت !شرم
وحیا سے کام لینا چاہیے تھا انسانی حقوق کا ڈھونڈرا پیٹنے والے امریکاکو !
آج ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو گھر سے لاپتہ ہوئے گیارہ سال بیت گئے، مگر مجال ہے
کہ کسی قومی ،بین الاقوامی یااسلامی حکمران ،صدر،وزیر اعظم ،وزیراعلی
،گورنر،مشیروزیر،صنعت کار ،بیور وکریٹ ،صحافی ،وکیل ،جج،تاجر ،کسان ،مزدور
اور میڈیانے مظلوم عافیہ صدیقی کے لیے صحیح طریقے اور خلوص نیت سے کوئی
کوشش کی ہو‘یا کوئی ایسا کردار اداکیا ہو جس پر داد دی جائے یا اسے سراہا
جائے۔حکمرانوں کی بات کی جائے !تو انہیں اقتدار اور مال ودولت سمیٹنے کی
جنگ اورہوس سے فرصت نہیں ،وہ تو گزشتہ پانچ سال تک پاکستان کو دونوں ہاتھوں
سے لوٹتے رہے ہیں،انہیں عوام کی فکر ہے ‘نہ ان پر ڈھائے جانے والے مظالم سے
سروکار ،بھوک سے بلک بلک کر مرنے والے معصوم بچوں کی آہیں سنائی دیتی
ہیں‘نہ آئے روز غربت ،بیروز گاری سے تنگ ہوکر خودکشیاں کرنے والے نوجوان
نظرآتے ہیں،ملک پاکستان کی خود مختاری اور آزادی کا خیا ل ہے ،نہ اس ملک
میں پیدا ہونے والے انسانوں کی جان ومال ،عزت وآبر و کی حفاظت کی ذمہ داری
سے لین دین ،وہ تو جب چاہیں جیسے چاہیں اقتدار کی کرسی کے لیے اپنا سب کچھ
قربان کرسکتے ہیں ،ما ل ودولت کیا،قوم کی عزت اور غیرت کیا ‘وہ توپاکستان
کی خود مختاری کو بھی داﺅ پر لگاسکتے ہیں،غدارکمانڈوپرویز مشرف کی طرح
انہیں بھی اگر عافیہ صدیقی جیسی قوم کی بیٹیوں کو ڈالروں کے عوض بیچنا پڑے
،ملکی ہوائی اڈے فروخت کرنا پڑیں ،تو وہ اس سے ہرگز گریز نہ کریں۔حکمرانوں
سے عافیہ کی رہائی کی امید رکھنا اب تک تو شیخ چلی کے خواب کی طرح ہی رہا
ہے،اور آئندہ بھی یہ افسانہ حقیقت میں بدلتا نظر نہیں آرہا۔
کتنی شرم اور غیرت کی بات ہے کہ ہماری بیٹی کی رہائی کے لیے دیار ِغیر سے
وفود آکر طعنہ دیتے ہیں اور جھنجھوڑجھنجھوڑ کر کہتے ہیں کہ خدارا! اپنی
بیٹی کے معاملہ میں سنجیدگی کا مظاہر ہ کریں ۔نومبر 2012میں سابق امریکی
سینیٹر اورعافیہ کی وکیل ٹینا فوسٹر پانچ رکنی وفد کے ہمراہ پاکستان کے
دورہ پرآئے اور حکومت پاکستان سے درخواست کی کہ اگر وہ عافیہ کی رہائی کے
لیے ایک خط لکھ دیں توعافیہ رہا ہوسکتی ہے ۔مگر افسوس! ملالہ پر مگرمچھ کے
آنسو بہانے والے اور ملال کرنے والے بے حس بے ضمیر حکمران ‘اور ملالہ کی
خاطر قوم کے لاکھوں روپیے ضائع کرکے لندن جا کر گلدستے پیش کرنے والے صدر
پاکستان اب تک عافیہ کے لیے ایک کا غذ کا ٹکڑا نہیں لکھ سکے ۔حکمرانوں کی
اس بے حسی اور منافقت کو دیکھ کر چند دنوں بعد ایک اور امریکی وفد پاکستان
آیا اور انہوں نے دنیا کے سامنے حکمرانوں کے دوغلے پن کا پول کھولتے ہوئے
کہاکہ حکومت پاکستان عافیہ کی رہائی کے لیے مخلص نہیں،حکومت نہیں چاہتی کہ
عافیہ رہاہو۔دنیا پر جب اس منافقت کا پردہ چاک ہوا تو ‘وزیر اعظم پاکستان
نے عافیہ کی رہائی کے لیے وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کی سربراہی میں ایک
کمیٹی بنائی،مگرحقیقت یہ ہے کہ یہ کمیٹی بھی دنیا کی آنکھوںمیںدھول جھونکنے
کے لیے بنائی گئی تھی ،یہی وجہ ہے کہ اب تک اس کمیٹی کاایک اجلاس بھی نہ
ہوسکا۔ رہ گئے ملک میں عدل وانصاف قائم کرنے والے ادارے او رقضاة تو انہوں
نے بھی اب تک عافیہ کے معاملہ کوسیریس نہیں سمجھا ۔اگرچہ چیف جسٹس آف
پاکستان گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں عدل وانصاف کے لیے کوششیں کررہے
ہیں اور ازخود نوٹس لے کر مظلوموں کے زخموں پر مرہم لگارہے ہیں مگر انہوں
نے بھی قوم کی اس بیٹی کے لیے ازخود نوٹس لیا ،نہ قوم کی عزت کا سودا کرنے
والے غدار بے غیرت مجرموں کو سولی پر لٹکانے کے لیے کوئی فیصلہ دیا۔باقی
وکلاءاور صحافی برادری نے ہاتھوں پرسیاہ پٹیاں اور ریلیاں نکالنے کے سوا
کچھ نہیں کیا۔اور پاکستان میں بسنے والے 20کروڑ عوام نے اگر اپنی عزت اور
اپنی بیٹی کے لیے کچھ کیا ہے تو وہ صرف اور صرف رسمی احتجاج اورچند ایک پلے
کارڈز تک محدود رہاہے ۔ الغرض اوپر سے لے کر نیچے تک ،حکمرانوں سے لے کر
عوام الناس تک ،سرکاری اداروں سے لے کر نجی اداروں تک ،امن وامان قائم کرنے
والے قومی اداروں سے لے کر انصاف فراہم کرنے والے اداروں تک،انسانی حقوق کی
تنظیموں سے لے کر غیر ملکی این جی اوز تک سب نے قوم کی مظلوم بیٹی عافیہ کے
لیے کچھ نہیں کیا،جس پر پوری قوم عافیہ کی مجرم ہے ۔ افسوس ہے ان سب پر جو
باوجود قوت اورطاقت کے اب تک عافیہ کو رہاءنہ کرواسکے !حیرت ہے مسلمانوں پر
جو محمد بن قاسم ،سلطان محمود غزنوی جیسے اسلاف کے جانشین ہیں ،اور قدرت کی
دی ہوئی بے شمار نعمتوں سے مالا مال ہیں مگر پھربھی محکوم ،مظلوم اور مغلوب
ہیں ،اور اپنی عزت کی خاطر امریکا بہادر سے سہمے ہوئے ہیں ۔اس سے بڑھ کر
ندامت کی اور کیابات ہوگی کہ پاکستان دنیا کے 58اسلامی ممالک میں سے واحد
ایٹمی طاقت ہے اور دنیا کی بہترین فوج رکھتاہے اور اہم محل وقوع کا حامل ہے
مگر پھر بھی اپنی ایک بیٹی کو بھیٹریوں سے آزاد نہ کرواسکا؟
گیارہ سال گزرنے کے بعد ‘اب بھی عافیہ صدیقی کی رہائی ممکن ہے اور ماضی کے
گناہوں کو دھویا جاسکتاہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے پوری قوم کے مخلص اورمتحد
ہونے کی ضرورت ہے ،دل میں احساس پیدا کرنے اور عافیہ کو اپنی ماں،بہن اور
بیٹی سمجھنے کی ضرورت ہے ، مفاد پرستی ،آرام طلبی ،اور منافقت بازی سے گریز
کرنا بھی ضروری ہے اوررسمی احتجاج اور چند ایک ریلیوں کی بجائے موثر اور
فیصلہ کن تحریک چلانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ان سب باتوں کے لیے پہل عوام
کوکرنا پڑی گی ،کیوں کہ عوام ایک ایسی طاقت ہے جو سب کچھ کرنے کی طاقت
رکھتی ہے ،انقلاب ،انتقام ،سب کچھ ان کے ہاتھ میں ہے ،یہی عوام تھی جس نے
تیونس میں ایک ریڑھی بان کی خود کشی کا انتقام لینے کے لیے پورے بلاد عرب
میں انقلاب برپا کردیا ،اور یہ بھی عوام ہی کا کارنامہ ہے کہ جس نے شاہ
ِایران کو تختہ مشق پر چڑھایااور انقلاب ِفرانس لانے والے بھی عوام ہی تھے
۔ پس ضرورت ہے جاگنے کی اور عزم وہمت کرنے کی !۔اگر عوام چاہے تو چند دن
میں عافیہ صدیقی واپس آسکتی ہے ‘ورنہ قیامت کے دن عافیہ کاہاتھ پوری قوم
اور عوام کے گریبانوں پر ہوگا،اوروہ پکار پکار کر ”بایِّ ذَنب ٍقتلت“ کی
صدا لگارہی ہوگی اور اپنے خون کاحساب مانگ رہی ہوگی ۔خدارا! اس دن کے آنے
سے پہلے سنبھل جاﺅ ‘اور30 مارچ سے پہلے پہلے ایک فیصلہ کن تحریک ،ملین مارچ
یالانگ مارچ برپاکردو اورقوم کی بیٹی کو ہنستے مسکراتے گلشن میںواپس لانے
کے لیے اٹھ کھڑے ہوں! |