دیہی علاقوں کی ترقی

پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔زراعت کاقومی آمدنی میں 77فیصداور جی ڈی پی میں 22فیصدحصہ ہے ۔ملک کے 67فیصد ملک لوگوں کازریعہ معاش زراعت ہے۔ملکی ترقی میں زراعت کا کردار ریڑھ کی ہڈی کی ماند ہے۔پاکستان میں اتنی گندم پیدا ہوتی ہے جو کہ نا صرف ملکی ضروریات کو پورا کرتی ہے بلکہ دوسرے ممالک میں برآمدبھی کی جاتی ہے جس سے زرمبادلہ کمایا جاتاہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کپاس کی پیداوار کے لحاظ دنیاں میں مشہور ہے۔لیکن بد قسمتی سے ہمارے کسان شروع سے بے شمار مسائل کا شکارہے ہیں، انہیں مناسب نرخ پر کھاد، بیج اور سپرے میسر نہیں تھی ۔وہ پرانے زرعی طریقوں سے فصلیں کاشت کرتے رہے ، حکومت کی تمام ترقیاتی پالیسیاں صرف بڑے پیمانے کے زمینداروں اور جاگیرداروں کو میسر رہیں ،چھوٹے پیمانے کے کاشتکاروں کو نظرانداز کر دیا جاتا رہا۔دیہات میں بسنے والے لوگ شرع تعلیم کم ہونے کی وجہ سے جدید کاشتکاری طریقے سے واقف نہیں تھے۔ یہاں تک کہ ان کے پاس نئی ٹیکنالوجی ماجود ہے لیکن وہ اسے استعمال کرنا نہیں جانتے تھے۔ صاف پانی، بجلی،گیس تعلیم اور صحت دیہات میں بسنے والے لوگوں کا بنیادی حق ہے، لیکن بد قسمتی سے وہ ان سہولیات سے مرحوم رہے۔ گا ؤں میں سکول اور ہسپتال تو بنا دیے گئے لیکن وہاں عملہ موجود نا تھا۔ اس کے علاوہ دیہات میں پختہ سڑکیں موجود نہیں تھیں جس کی وجہ سے دیہات سے شہر میں ماجود منڈیوں تک اناج ،غلہ کی رسائی مشکل تھی ۔بجلی کی غیر علانیہ اور طویل لوڈشیڈنگ سے دیہات میں ماجود چھوٹی صنعتیں اور زریعہ آب پاشی کا نظام درہم برہم ہو گیا تھا۔دیہی علاقوں کا شراع پیدائش زیادہ ہونے کی وجہ سے زندگی کے مواقع بہت کم تھے۔ لیکن پچھلے تین سال سے اس سسٹم میں حیرت انگیز تبدیلی رونماں ہوئی ہے ۔ اب کسانوں کو جدید مشینری ، بیج ، ادویات جیسی سہولیات میسر ہیں۔ نہ صرف پیداوار میں بلکہ ملک کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ 1970تک دیہی اور شہری علاقے برابر ترقی کے مراحل پر تھے لیکن اب دیہی علاقے اب تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔دیہی ترقی کے لیے مختلف پروگرام جیسا کہ خوشحال پاکستان، تعمیر وطن سوشل ایکشن اور خوشحال پاکستان کام کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ مختلف بنک جیسا کے زرعی ترقیاتی بنک، سنہری بنک،خوشحالی بنک اور مختلف نجی ادارے کسانوں کو بلا معاوضہ قرضہ فراہم کر رہے ہیں، جس کو استعمال کر کے کسان اپنی پیداوار میں کافی حد تک اضافہ کر سکتے ہیں۔دیہات مین زراعت آفیسر کسانوں کو ٹریننگ دے رہے ہیں کہ کس طریقے سے وہ اپنی پیداوار بڑھا سکتے ہیں۔ کسانوں کو جدید درآمد شدہ بیج فراہم کیے جا رہے ہیں، آب پاشی کے نظام کو بہتر بنایا جا رہا ہے، پاکستان کا نہری نظام دنیاں مین مشہور ہے۔ ہر چھوٹے بڑے گاؤں میں بجلی اور گیس جیسی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ دیہاتوں کو پختہ سڑکوں کے زریعے شہروں سے ملایا جا رہا ہے۔ تعلیم کو عام کرنے کے لیے نئے نئے منصوبوں پے کام کیا جا رہا ہے۔ نئے نئے پاور پلانٹ تعمیر کیے جا رہے ہیں تاکہ لوڈشیڈنگ کو قابو پایا جا سکے۔ زمینداروں کو آسان اقساط پر زرعی مشینری فراہم کی جا رہی ہے۔ یاد رہے شعبہ زراعت جب تک جاگیر دارانہ سسٹم سے آزاد نہیں ہو جاتا ہماری زراعت ترقی نہیں کر سکتی ہماری حکومت کو چاہیے کے وہ ان مسائل پر توجہ دے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری حکومت اور کاشتکار بھائیوں کو چاہیے کے وہ قدرتی وسائل کو استعمال میں لا کر ان سے فائدہ اٹھائیں۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی پر بھی کابو پانا ہوگا۔ کاشتکار بھائیوں کو چاہیے کہ زرعت میں نئے نئے طریقے اور جدید مشینری استعمال کریں تاکہ وقت اور خرچہ بچا سکیں۔حکومت کو چاہیے کے زراعت پر مشتمل صنعتوں کو فروغ دیں تاکہ بے روزگاری کا خاتمہ ہو۔امید کی جاتی ہے کہ حکومت ہمارے دیہی علاقوں کو نظر انداز نہیں کرے گی اوردیہی ترقی کے لیے مزید نئے منصوبے بنائے گی تاکہ ہمارا پیارا وطن ایک سر سبز و شاداب وطن بن سکے ، ہماری برآمداد اور ملکی آمدنی مین اضافہ ہو اور ہم طرقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہو سکیں۔خدا ہمارے ملک کا حامی و ناصرہو آمین۔
Saman Akram
About the Author: Saman Akram Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.