|
دنیا کے نقشے پر ایک ملک اور بڑھ گیا ہے۔
ایک نئی ریاست وجود میں آئی ہے اور یہ نیا ملک ایک مسلمان ہے۔ یہ دنیا کے نقشے پر
58 واں اسلامی ملک ہے اور یہ ملک اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ یہ جغرافیائی لحاظ
سے سے یورپ میں واقع ہے اور یورپ کا تیسرا اسلامی ملک ہے۔ اس سے قبل یورپ میں دو
مسلمان ریاستیں بوسنیا اور البانیہ موجود تھیں۔ حال ہی میں وجود میں آنے والی ریاست
جس کا نام کوسوو ہے۔ یورپ میں تیسری اسلامی ریاست ہے۔ کوسوو
کی موجودہ آبادی 2 ملین یعنی 20 لاکھ ہے۔ اپنے اعلان آزادی سے قبل کوسوو سربیا کا
ایک صوبہ تھا۔ اتوار 17 فروری 2008ء کو کوسوو کی پارلیمنٹ نے متفقہ طورپر آزادی کی
قرارداد پاس کی۔
|
کسی ایک رکن پارلیمنٹ نے بھی اس کی مخالفت میں ووٹ نہیں دیا۔ جس پارلیمنٹ نے یہ قرارداد متفقہ طورپر
پاس کی ہے یہ پارلیمنٹ 18نومبر 2007ء کو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں وجود میں
آئی تھی۔ ان انتخابات میں کوسوو کے مشہور گوریلا جہادی کمانڈر ہاشم تاسی کی پارٹی
بھاری اکثریت سے جیتی تھی اور اس وقت ہاشم تاسی ملک کے وزیراعظم جبکہ ملک کے صدر
فاطمیر سجدیو ہیں۔
کوسوو کا دارالحکومت پرسٹینا
ہے۔ 90 فیصد آبادی مسلمان ہے۔ کوسوو کے شمال مغرب میں مونٹی نیگرو، جنوب مغرب میں
البانیہ، جنوب مشرق میں مقدونیہ جبکہ شمال مشرق اور شمال میں سربیا واقع ہے۔ کوسوو
کے مسلمانوں کو یہ آزادی پلیٹ میں رکھی نہیں ملی بلکہ اس کے لیے انہوں نے مصیبتوں
کے پہاڑ عبور کیے اور خون کی ندیاں بہائی ہیں۔ کوسوو جو کہ سربیا کا ایک صوبہ تھا،
شروع سے ہی سربیا کی حکومت کے مظالم کا شکار رہا ہے۔ سربیا کا دارالحکومت بلغراد ہے۔
1981ء میں کوسوو کی مسلم اکثریتی آبادی نے بلغراد حکومت کے خلاف زبردست مظاہرے کرتے
ہوئے حکومت سے مساوات، بنیادی آزادی اور مسلم اکثریت کے حقوق کا مطالبہ کیا۔ ان
پرامن مظاہروں کا جواب حکومت نے لاٹھی اور گولی سے دیا اور مظاہرین پر فائرنگ کرکے
سیکڑوں مسلمانوں کو شہید کردیا اور ہزاروں مسلمانوں کو گرفتار کرکے جیل کی کوٹھڑیوں
کے حوالہ کردیا گیا لیکن یوں اس تحریک کو ظاہری طورپر دبادیا۔ جولائی 1990ء میں
کوسوو کے عوام نے اپنے مقامی رہنماؤں کی قیادت میں ازخود آزادی کا اعلان کردیا۔
بلغراد حکومت نے کوسوو کے اعلان آزادی کو
مسترد کرتے ہوئے کوسوو کی مقامی حکومت کو تحلیل کردیا اور آزادی کا اعلان کرنے
والوں پر ایک مرتبہ پھر مظالم کا بازار گرم کردیا۔ اس اعلانِ آزادی کو اگرچہ کچل
دیا گیا مگر سربیا نے یہ سوچنا شروع کردیا کہ کوسوو کے مسئلے کا مستقل حل تلاش کرنا
چاہیے ورنہ یہاں آزادی کا مسئلہ بار بار اُٹھتا رہے گا اور مسئلے کا حل کچھ یوں کیا
کہ مارچ 1998ء میں سربیا کے مشہور خونی درندے میلا سووچ نے پارلیمنٹ سے باقاعدہ
قرارداد منظور کروائی اور سربیا کی فوج نے اپنے ہی ملک کے صوبے کوسوو پر چڑھائی
کردی۔ کوسوو میں رہنے والے 4.4 فیصد سرب قومیت سے تعلق رکھنے والے اور سرب کہلانے
والے باشندوں کو بھی خوب بھڑکاکر فوج نے اپنے ساتھ ملالیا اور انہیں بھی اسلحہ
فراہم کیا۔ علاوہ ازیں ملک کے دیگر حصوں سے بھی سرب آبادی مسلح ہوکر فوج کے شانہ
بشانہ اس قتل عام میں شریک ہوگئی۔ یوں سربیائی فوج نے سرب باشندوں کے ہمراہ اپنے ہی
ایک صوبے کوسوو میں قتل عام شروع کردیا۔
فوج تو تھی ہی تربیت یافتہ۔ یہ سرب
باشندے فوج سے بھی زیادہ جنگ کا تجربہ رکھتے تھے۔ یہ وہی سرب تھے جنہوں نے 1992ء سے
1995ء تک بوسنیا ہرزیگوینیا میں مسلسل تین سال تک مسلمانوں کا اجتماعی قتل عام کیا
تھا اور تین سال میں 2 لاکھ سے زائد مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کو بلاتفریق اور
بے دریغ قتل کیاتھا۔ کتے بلیوں کے حقوق کا دعوے دار اور انسانی حقوق کا علمبردار
یورپ تب بھی خاموش تھا اور کوسوو کے قتل عام میں بھی خاموش رہا۔ تین سال تک قتل عام
کا تجربہ رکھنے والے اور نسل کشی کے ماہر سرب خونی بھیڑیے فوج کے ہمراہ قلب ِیورپ
میں قتل عام میں مصروف تھے اور پورا یورپ خاموش تماشائی بنا ہوا تھا۔ قتل عام کسی
افریقی ملک میں نہیں ہورہا تھا اور نہ ہی یہ نسل کشی 18 ویں صدی میں ہورہی تھی۔
بلکہ کوسوو میں سربوں کی جانب سے کی جانے والی مسلمانوں کی یہ نسل کشی مارچ 1998ء
سے 1999ء کے آخر تک ڈیڑھ برس جاری رہی اور قلبِ یورپ میں جاری رہی اور پورا یورپ
مسلمانوں کے قتل عام کا تماشا دیکھتا رہا۔ 1999ء میں قدرت کو کوسوو کے مسلمانوں پر
رحم آیا اور اسباب کے درجے میں عالمی میڈیا کے دیانت دار صحافی اس قتل عام اور نسل
کشی کو دنیا کی نظروں میں لانے میں کامیاب ہوگئے۔ 1999ء کے آخر میں نیٹو افواج
کوسوو میں اُتریں لیکن پھر بھی سرب باز نہ آئے اور انہوں نے مسلمانوں کا محاصرہ
جاری رکھا اور خوراک کی ترسیل کے تمام راستے بند کردیے۔ |
|
کوسوو میں قتل عام کے بعد
ہزاروں افراد خصوصاً بچے غذا اور دودھ کی قلت کی وجہ سے ہلاک ہوگئے۔
پھر نیٹو افواج نے سختی شروع کی۔ تقریباً 2000ء کے آخر تک کوسوو کے حالات کسی حد تک
معمول پر آگئے۔ مسلمان ایک دفعہ پھر گھروں کو واپس ہوئے لیکن سلام ہے ان کی مستقل
مزاجی پر کہ انہوں نے پھر جمہوری عمل شروع کردیا (وہاں کے معروضی حالات میں یہی
طریقہ کارگر تھا) اور دوبارہ منظم ہوگئے تا آنکہ فروری 2002ء میں کوسوو کی پارلیمنٹ
نے نامور ادیب ابراہیم رگووا کو البانوی جماعتوں کے درمیان اختیارات میں شراکت کے
ایک معاہدے کے بعد صدر منتخب کرلیا۔
اس دوران اگرچہ سرب فوج اور سربیا کے دوسرے حصوں سے آنے والے
رضاکار فوجی پلٹ گئے تھے لیکن کوسوو میں موجود سرب باشندوں نے بلغراد حکومت کی مدد
سے مسلمانوں پر مظالم جاری رکھے اور کئی مرتبہ نسلی فسادات کی آڑ میں بیسیوں
مسلمانوں کو شہید کیا لیکن مسلمان متحد ہوکر دل جمعی سے آگے بڑھتے رہے اور انہوں نے
امریکا اور یورپ کو مختلف طریقوں سے اپنا ہمنوا بنالیا۔
اب سربیا کو کوسوو یقینی
طورپر ہاتھ سے نکلتا ہوا نظر آیا تو اس نے اپنا آخری پتہ جمہوری انداز میں استعمال
کیا اور اکتوبر 2006ء میں سربیا میں ایک ریفرنڈم کوسوو کے مسئلے پر کرایا گیا۔ جس
میں ووٹرز نے ایک نئے آئین کی منظوری دی جس میں کوسوو کو سربیا کا لازمی حصہ قرار
دیا گیا جبکہ کوسوو کی مسلمان اکثریت نے یہ کہہ کر اس ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا کہ
کوسوو کا فیصلہ کوسوو کے عوام ہی کریں گے نہ کہ کوسوو کے باہر کے لوگ اور پھر نومبر
2007ء میں کوسوو میں انتخابات ہوگئے۔
اس میں مشہور جہادی کمانڈر اور کوسوو کی آزادی
کی جدوجہد کرنے والے مجاہد رہنما ہاشم تھاچی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئے۔ 17
فروری 2008ء کو ان ہی کی سربراہی میں پارلیمنٹ نے متفقہ طورپر آزادی کی قرار داد
پاس کرکے کوسوو کی آزادی کا اعلان کردیا ۔ دنیا میں اس سے قبل 192 ملک موجود تھے،
کوسوو کا نمبر 193 واں ہے جبکہ اسلامی دنیا میں 58 واں ملک ہے۔ اس پر مسرت موقع پر
اس کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے۔پسِ جہد و عزیمت، لمحہٴ شادی مبارک ہو مسلمانانِ
کوسوو کو آزادی مبارک ہو۔ یہ جذبہ حریت کا دب نہیں سکتا دبانے سے۔ حقیقت غاصبوں پر
خوب جتلادی مبارک ہو۔رہو محفوظ تم ظلم و ستم، پابندیوں سے اب رہے قائم، رہے دائم یہ
آزادی مبارک ہو۔تمہیں یہ آ زادی اور شادی مبارک ہو
|