یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی محلے میں ایک بیوہ عورت رہتی تھی۔ اُس کا ایک
بیٹا تھا۔ اُس نے اسے سکول میں داخل کرا دیا۔پہلے تو وہ اُس کی وردی،
کتابوں اور فیس وغیرہ کی ضرورت پوری کرتی رہی لیکن جب وہ لڑکا حصہ مڈل میں
پہنچا تو وہ اُس کے اخراجات پورے نہ کر سکی تو سکول والوں نے اُس لڑکے کو
سکول سے خارج کر دیا۔ اُس غریب عورت نے ہیڈماسٹر اور ٹیچر انچارج کی بہت
منت سماجت کی لیکن وہ نہ مانے۔ سو وہ اپنے بیٹے کو گھر لے آئی کیونکہ محلے
کے کسی شخص نے بھی اُس کی مدد نہ کی تھی۔ اب وہ لڑکا آوارہ لڑکوں کے ساتھ
پھرنے کی وجہ سے آوارہ ہو گیا۔ اس نے پہلے تو جیبیں کاٹنا اور چوری کرنا
شروع کیا ،پھر ڈاکے مارنے شروع کر دیے۔ یوں وہ سماج سے بدلہ لینے لگا۔ سو
وہ اپنی ماں سے بے قابو ہو گیا اور محلے والوں کیلئے عذاب بن گیا۔ کیونکہ
مثل مشہور ہے صحبتِ صالح ترا صالح کند، صحبت طالح ترا طالح کند!
آپ نے اکثر اخباروں میں ضرورتِ رشتہ کے اشتہارات پڑھے ہوں گے۔ مثلَا جرمن،
برٹش اور امریکن نیشنلیٹی ہولڈر لڑکی کیلئے پڑھے لکھے، گریجوایٹ نوجوان خاص
طور پر ڈاکٹر، انجینیر لڑکے کا رشتہ درکار ہے۔ ذات پات کی قید نہیں۔ لڑکا
ساتھ رہے گا۔ جملہ اخراجات ہمارے ذمے ہوں گے۔ یا مثلَا ایک ڈاکٹر، انجینیر
لڑکے کیلئے ایک پڑھی لکھی ،گریجوایٹ، خوبصورت، خوب سیرت،درازقد لڑکی کا
رشتہ درکار ہے۔ عمر ،جہیز اور ذات پات کی کوئی قید نہیں، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن
کسی نے یہ اشتہار کبھی نہیں دیا کہ ایک جاہل، بے وقوف، اَن پڑھ نوجوان کا
رشتہ درکار ہے جو خدا کی شریعت کی پابند، صوم و صلواۃ کی پابند، اور شرم و
حیا رکھنے والی لڑکی کیلئے چاہیے تاکہ وہ اسے بھی اپنے طریقے پر لا سکے)
کیونکہ عورتیں مردوں کو اکثر اپنے طریقے پر ڈھال لیتی ہیں(۔یا پھر مثلاَ
ایک پڑھے لکھے، سلجھے ہوئے، کھاتے پیتے گھرانے کے نوجوان کیلئے ایک بھولی
بھالی ، سیدھی سادھی، اَن پڑھ، غریب اور دیہاتی لڑکی درکار ہے جو واجبی سی
صورت اور معمولی سوجھ بوجھ رکھتی ہو اور خاوند کی خدمت کو اپنا فرض سمجھتی
ہو۔ عمر جہیز اور ذات پات کی کوئی قید نہیں۔ بس انسان ہو حتٰی کہ بیوہ،
بانجھ اور مطلقہ بھی رابطہ کر سکتی ہے تاکہ اس کی زندگی بھی سدھر جائے،
کیونکہ جس کے پیٹ میں روٹی جاتی ہے اسے عقل آجاتی ہے۔
دیکھو، شریف،نیک،فرمانبردار، کھاتے پیتے گھرانے کے لڑکے یا لڑکی کے ساتھ تو
ہر کوئی نباہ کر سکتا ہے۔ مگر بات تو تب ہے کہ اُجڈ، بے وقوف، اکھڑ اور
غریب لڑکے یا لڑکی کے ساتھ نباہ کیا جائے۔ اور اگر کوئی لڑکا نبھاتا یا
کوئی لڑکی نبھاتی ہے تو وہ بخشا یا بخشی گئی کیونکہ اس کا حساب کتاب اور
جزا سزا تو اسی زندگی میں ہو گئی۔ دیکھو، دنیاوی کاروبار، اچھی شادی اور
بہتر مستقبل کی کوشش تو ہر کوئی کرتا ہے۔ لیکن دینداری، پاک صاف زندگی اور
آخرت کی کامیابی کی کوشش کوئی نہیں کرتا۔اچھے لوگ برے آدمیوں اور بری
عورتوں کو اپنی صحبت میں نہیں آنے دیتے سو وہ اُسی طرح برے کے برے رہ جاتے
ہیں۔ اگر اچھے لوگ برے لوگوں کو اپنے نزدیک آنے دیں تو وہ بھی ان کی دیکھا
دیکھی سدھر جائیں کیونکہ صحبت کا اثر ضرور ہوتا ہے۔ اچھی صحبت کا اچھا اور
بری صحبت کا برا۔
پیروں فقیروں اور درویشوں کا عقیدہ ہے کہ اچھے برےانسان سب اللہ تعالٰی کی
مخلوق ہیں۔ اس لیے بروں سے نفرت خالق پر اعتراض ہے! لہٰذا وہ برائی کو تو
برا سمجھتے ہیں، برے کو برا نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے
برے کو کسی وقت بھی توبہ کی توفیق عطا فرما کر اچھا انسان بنا سکتا ہے، اور
ایک اچھے انسان کو اس کی عبادات، نیکی بھلائی پر فخر و غرور کی بنیادپر کسی
وقت بھی اپنی رحمت سے دور کر سکتا ہے۔ اس لیے اپنی نیکیوں، بھلائیوں پر فخر
و غرور نہیں کرنا چاہیے اور اللہ تعالٰی سے ہر وقت ڈرتے رہنا چاہیے۔ اور ہر
وقت اس کی رحمت کا امیدوار رہنا چاہیے کہ کہیں ہم بھٹک کر کوئی گناہ اور
غلط کام نہ کر بیٹھیں۔ اسی لیے حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک آدمی ساری عمر
برائی کرتا رہتا ہے حتٰی کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک بالشت کا فاصلہ
رہ جاتا ہے تو اگر اس کی قسمت میں جنتی ہونا لکھا ہوتا ہے تو وہ اللہ
تعالٰی کی رحمت اور توفیق سے کوئی اچھا کام کرتا ہے اور جنت میں چلا جاتا
ہے۔ اسی طرح ایک دوسرا آدمی ساری عمر عبادتیں اور نیکیاں کرتا رہتا ہے اور
جنت ایک بالشت کے فاصلے پر رہ جاتی ہے تو اگر اس کی قسمت میں دوزخی ہونا
لکھا ہوتا ہے تو وہ کوئی غلط کام کر بیٹھتا ہے اور دوزخ میں چلا جاتا ہے۔
اچھے، پڑھے لکھے، کھاتے پیتے اور امیر لوگوں کو چاہیے کہ وہ گندے، اَن پڑھ
اور غریب لوگوں سے منہ نہ موڑیں اور انہیں اپنے پاس آنے سے نہ دھتکاریں۔ وہ
کہاں جائیں گے؟ اگر سارے اچھے، پڑھے لکھے، کھاتے پیتے اور امیر لوگ ایک طرف
ہو جائیں اور گندے، اَن پڑھ اور غریب دوسری طرف ہو جائیں تو ان میں طبقاتی
نفرت اورکشمکش شروع ہو جائے گی۔ اور پھر گندے، اَن پڑھ اور غریب لوگ چوریاں
کریں گے اور ڈاکے ماریں گے۔ قتل اوردیگر جرائم کریں گے اور یوں معاشرہ خراب
اور زندگی جہنم بن جائے گی۔
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب اسرارِ خودی کا آغاز مولانا روم
کے اِن شعروں سے کیا ہے جن کا مطلب ہے کہ کل ایک بزرگ دن کے وقت چراغ لیکر
کوئی چیز ڈھونڈ رہا تھا۔ میں نے پوچھا کیا ڈھونڈتے ہو۔ بزرگ نے کہا کہ
انسان ڈھونڈتا ہوں۔ میں نے کہا کہ یہ سارے انسان ہیں، آپ کو نظر نہیں آتے۔
بزرگ نے کہا: نہیں یہ حیوان اور درندے ہیں۔ مجھے مولا علی شیرِخدا جیسے
پاکباز اور رستم پہلوان جیسے انسانوں کی تلاش ہے۔ میں نے کہا کہ جس چیز کی
آپ کو تلاش ہے وہ نہیں ملتی۔ بزرگ نے جواب دیا مجھےاِسی چیز )یعنی اللہ اور
اللہ والوں( کی تلاش ہےجو نہیں ملتی۔
کہتے ہیں کہ ایک ریاست کے نواب کو کسی اللہ والے کی تلاش ہوئی اور اس نے
تلاش بسیار کے بعدایک بزرگ کو ڈھونڈ لیا اور اُن کا مرید ہو گیا لیکن اس نے
اپنے آپ کو نہ بدلا۔ اُن بزرگ کے کسی چہیتے مرید نے انہیں کہا کہ سرکار،
نواب صاحب آپ کے مرید ہیں۔ اسےتو حکم دیں کہ وہ اپنی رعایا پر ظلم نہ کیا
کرے۔ پیر صاحب نے کہا کہ اچھا، کاغذ قلم لاوَ۔ پھر اس پر صرف ایک فقرہ لکھا
"خیال کر کہیں بھگتنی نہ پڑ جائے"۔ اور نیچے اپنے دستخط کر کے کہا کہ جاوَ
اُس نواب کو دے دو۔ چنانچہ نواب نے پیر کے فرمان کو سر آ نکھوں پر رکھا اور
ظلم چھوڑ دیا۔ اسی طرح جناب غوثِ پاک رحمتہ اللہ علیہ نے ایک چور کو قطب
بنا دیا۔ پس ضرورت ہے ایسے ہی انسان کی جو اللہ والا ہو۔ پس اللہ والوں سے
رشتہ جوڑیے، اسی میں بھلائی ہےاور اسی میں نجات ہے۔
فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
|