میری بےحرمتی مت کرنا — شیتل کی آخری التجا، حالِ بلوچستا‌ن کا مظہر


سوشل میڈیا ‘ٹی وی اور اخبار پر نظر ڈالتے ہی آپ کو کسی بچی کے ساتھ زیادتی کے واقعہ‘ شوہر کے ہاتھوں بیوی کے جلائے جانے کی خبر‘ بچوں کی گمشدگی کی اطلاع یا پھر بے لگام ٹینکر کی وجہ سے کئی جانیں جانے جیسی افسوس ناک خبر یں آپ کے دل و دماغ کو مضطرب کرنے کیلئے کافی ہوتی ہیں ۔سچ کہیں تو ہم روزانہ کی بنیاد پر ایسی خبریں دیکھ اور سن کر بے حسی کا شکار ہوچلے ہیں لیکن اس بے حسی کو بھی بعض خبریں جھنجھوڑ دیتی ہیں جیسے کہ حمیرا اصغر کی المناک موت کی خبر کل سے سوشل میڈیا پر گردش کررہی بیک وقت معصوم اور بہادر شیتل کے قتل کی واردات ۔
شیتل ‘بلوچستان کی بیٹی ‘ وہ بیٹی جس کا قصور اپنی مرضی اور پسند سے نکاح ہے ۔ وہ نکاح جس کا اسے قانون اور مذہب حق دیتا ہے لیکن ہم اور آپ جیسے انسان اسے یہ حق نہیں دینا چاہتے‘ اس کے اپنے اس کی جرات پر اسے قابل گردن زدنی قرار دیتے ہیں‘ جرگے ان کیلئے موت سے کم کی سزا تجویز نہیں کرتے اور سرعام گولیوں سے چھلنی کرتے ہوئے ان کے دل نہیں کانپتے ۔
یہ بلوچستان ہے‘ غیور بلوچوں کی سرزمین جہاں ڈیگاری میں پسند کی شادی کرنے والے ایک جوڑے کو قبائلی غیرت کے نام پر بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ اس حوالے سے وائرل ہونے والی ویڈیو میں مقتولہ شیتل قرآن ہاتھ میں لئے میدان میں کھڑی نظر آتی ہے‘ باپ اس کے ہاتھ سے قرآن لے لیتا ہے‘ وہ یہ کہتی ہوئی آگے بڑھتی ہے کہ ’’سات قدم میرے ساتھ چلو‘ اس کے بعد تم مجھے گولی مار سکتے ہو۔ تم صرف مجھے گولی مار سکتے ہو‘ اس کے علاوہ کچھ نہ کرنا ‘میری بے حرمتی مت کرنا۔‘‘
اسے اپنی موت کو سامنے کھڑے دیکھ کر کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا ‘وہ سر پر چادر تانے چند قدم آگے جاتی ہے اور سنگدل بھائی سمیت دیگر لوگ اس پر ایک نہیں ‘ دو نہیں 9گولیاں چلاتے ہیں‘ فائرنگ کی آواز اس وقت تک آتی رہتی ہے جب تک شیتل کی جان نہیں نکل جاتی ‘ پھر باری آتی ہے اس کے مظلوم شوہر کی ‘ یہی لوگ اس پر گولیاں برساتے ہیں اور برساتے ہی جاتے ہیں 18گولیاں کھاکر وہ ہمت ہار دیتا ہے ۔
انہیں مارنے والے فتح کے جوش میں ویڈیو بناتے ہیں اور پھر بعد ازاں یہ ویڈیوز سوشل میڈیا پر ڈال دی جاتی ہیں۔ بربریت کی اس کہانی میں موڑ اس وقت آتا ہے جب یہ ویڈیوز وائریل ہونا شروع ہوتی ہیں‘ ہر پلیٹ فارم سے آواز اٹھنی شروع ہوتی ہے اور بتدریج یہ آواز اتنی بلند ہوجاتی ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کو واقعہ کا نوٹس لینا پڑتا ہے ۔ وہ ایکس اکائونٹ پر بیان دیتے ’’’ڈیگاری واقعے میں اب تک 20 سے زائد ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے‘ جن میں سے ایک اہم گرفتاری کوئٹہ میں عمل میں آئی جہاں پولیس نے ساتکزئی ہاؤس پر چھاپہ مار کر سردار شیرباز ساتکزئی کو گرفتار کیا‘ جو اس واقعے میں مرکزی کردار سمجھا جا رہا ہے۔ویڈیو میں دکھائے جانے والے مقتولین کی شناخت ہو چکی ہے اور قتل میں ملوث تمام افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائےگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست مظلوم کے ساتھ کھڑی ہے اور کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘
ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند بھی میدان میں آتے ہیں اور بذریعہ پریس کانفرنس فرماتے ہیں ’’جائے وقوع اور ملزمان کے ٹھکانوں کا تعین کر لیا گیا ہے اور چھاپہ مار کارروائیاں جاری ہیں۔ یہ ایک افسوسناک اور غیر انسانی واقعہ ہے‘ جس پر حکومت خاموش نہیں بیٹھے گی۔‘‘
پولیس کی جانب سے اطلاعات آرہی ہیں کہ ’’قبائلی رہنما شیرباز خان سمیت 13مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔واقعے کی تحقیقات جاری ہیں‘ مزید گرفتاریوں کا بھی امکان ہے۔‘‘
یہ کارروائی بلاشبہ غیر معمولی ہے لیکن اس سوال سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیا یہ صرف فوری ردعمل ہے یا واقعی سماجی و عدالتی اصلاحات کا آغاز؟

پاکستان میں ’’غیرت کے نام پر‘‘ ہونے والے قتل دردناک حد تک عام ہیں۔ 2024میں 405 سے زائد ایسے واقعات درج ہوئے جبکہ غیر سرکاری تخمینوں کے مطابق یہ تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر سکتی ہے۔ قاتلوں میں اکثریت رشتہ دار ہوتی ہے ۔ اپنی بہن‘ بیٹی یا بیوی کو عام طور پر’’غیرت‘‘ کی دیوار کے پیچھے دفن کیا جاتا ہے اور پھر اسے روایتی اقدار کا نام دے کر جرم کو جائز قرار دیا جاتا ہے۔ اس واردات کے پیچھے سماجی ذہنی انحطاط ہے جو ریاستی قوت کو مسلسل شکست دے رہا ہے۔
شیتل کے بیہمانہ قتل پر ہر ایک شدید غم و غصے کا شکار ہے ۔ لوگ ریاست سے سوال کر رہے ہیں کہ آیا ان درندہ صفت قاتلوں کو واقعی سزا دی جائے گی یا یہ قصہ بھی ماضی کے واقعات کی طرح فائلوں میں دب کر رہ جائے گا۔بلوچستان میں انسانی حقوق کے کارکنان‘سول سوسائٹی اور عوامی حلقے اس واقعے کو قبائلی غیرت کے نام پر ہونے والی ایک سنگین بربریت قرار دے رہے ہیں اور مطالبہ کیا جارہا ہے کہ تمام مجرموں کو سرعام سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی اور اس طرح کا ظلم کرنے کی جرات نہ کرے۔
حکومتی قوانین میں ترامیم ہوئی اور سزا کے اصول مرتب کیے گئے مگر ایک اہم قانونی خرابی برقرار ہے کہ اگر مقتول کے خاندان والے معاف کردیںتو ملزم بری ہو جاتا ہے۔ اسے سماجی اور قبائلی طاقتوروں کا تحفظ ملتا ہے۔ جب ریاستی عدالتیں معافی کے الفاظ کے آگے بند ہو جاتی ہیں تو انصاف اور اس کے تقاضے بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں ۔
اس وقت ایک سوال ہر ایک کی زبان پر گردش کررہا ہے کہ کیا ان گرفتاریوں کا کوئی نتیجہ برآمد ہوگا؟
آج بلوچستان کی سرزمین پر انسانی سفاکیت اور ظلم کی ایک نئی داستان رقم کی گئی ہے ۔ ایک اور بیٹی‘ صرف اس لئے مار دی گئی کیونکہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی۔
دل دہل گیا ‘یہ خبر سن کر۔ غصہ آیا‘ آنکھیں بھر آآئیں،ور ایک سوال دل میں گونجنے لگاکہ کیا ہم واقعی انسان ہیں؟ کیا یہ وہی غیرت ہے جس پر ہمیں فخر تھا؟ یا یہ صرف سفاکی اور بے حسی کا ایک لبادہ ہے جو ہم نے غیرت کے نام پر اوڑھ رکھا ہے؟
یہ واقعہ کوئی پہلا نہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ آخری بھی نہیں ہوگا ۔
لڑکی نے‘ ایک بالغ اور سمجھ دار انسان ہونے کے ناطے‘ اپنی پسند سے زندگی کا ساتھی چنا۔ ریاستی قانون نے اسے یہ حق دیا ہے‘ مذہب نے اجازت دی ہے مگر ہمارے معاشرے نے اس کیلئے موت کی سزا تجویز کرتے ہوئے سنگدلی سے اسے زندگی سے محروم کردیا ۔ اس کے اپنے‘ جن کے ساتھ وہ بچپن سے پل کر بڑی ہوئی‘ جن کے کندھے اس کے دکھ سکھ کے سہارے ہونے چاہیے تھے ان ہی ہاتھوں نے اسے گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ صرف اسلئے کہ اس نے ’’روایت‘‘ کی زنجیروں کو توڑنے کی جرات کی۔
یہ غیرت نہیں‘ یہ خالصتاً بے غیرتی ہے‘ یہ وہ ناسور ہے جو ہماری سماجی رگوں میں زہر کی طرح پھیل چکا ہے۔یہ وہ ظلم ہے جو عورت کی خودمختاری کو جرم بناتا جا رہا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ جرم صرف مارنے والوں کا نہیں ہمارا بھی ہے۔ہم سب کا‘جو چپ رہتے ہیں‘ جو افسوس کے دو جملے لکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں‘ جو ان قاتلوں کیلئے جواز تلاش کرتے ہیں‘ جو سماج کی نام نہاد عزت کو انسان کی جان سے زیادہ قیمتی سمجھتے ہیں۔ہم سب اس خون میں برابر کے شریک ہیں۔ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ آخر ہم کب تک اس فرسودہ سوچ کے غلام بنے رہیں گے؟
کب تک بیٹیوں کو جائیداد سمجھ کر ان کی زندگیوں پر فیصلے مسلط کرتے رہیں گے؟
کب ہم ایک عورت کو انسان، ایک مکمل شخص سمجھ کر اس کے حقِ انتخاب کو تسلیم کریں گے؟
جب تک ہم خود کو‘ اپنی سوچ کو اور اپنے معاشرے کو نہیں بدلیں گے۔ تب تک ہر آنے والے دن میں ایک اور فاطمہ‘ ایک اور زینب‘ ایک اور نور…کسی قبر میں یہ سوال لے کر دفن ہوتی رہے گی کہ’’میرا جرم آخر کیا تھا؟‘‘
یہ قتل ریاستی ناکامی نہیں‘ زنگ آلود روایتی سماج کا عکاس ہے۔ ہماری معاشرتی اقدار، نظامِ انصاف اور سماجی سوچ پر ایک سوالیہ نشان— کیا ہم اس ظلم کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہونے کا عزم رکھتے ہیں ‘ کیا کبھی ہم اس طرح کے مظالم کو روک پائیں گے ؟
وہ خواب جو شیتل نے دیکھا‘ وہ زندگی جس سے اسے محروم کیا گیا— لیکن آنے والی نسلوں کیلئے ہمیں اس خواب کو زندہ ہوگا۔
اس خاموشی کو چیخ بننے دینا ہوگا— تاکہ مستقبل میں کوئی شیتل‘ کوئی نور ‘ کوئی زینب اور فاطمہ جنم نہ لے ۔



 

Shazia Anwar
About the Author: Shazia Anwar Read More Articles by Shazia Anwar: 202 Articles with 324603 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.