اکثر و بیشتر یہ دیکھنے میں آیا
ہے کہ ملک بھر میں کہیں بھی کسی بھی قسم کا ناخوشگوار واقعہ یا فرقہ وارانہ
فسادات رونما ہوتے ہیںیا کوئی بلاسٹ ہوتا ہے تو وہاں بِن بلائے سماجی
کارکنوں کی انجمنیں او جماعتیں سب سے پہلے متاثرین کی ہمدردی کے لئے پہنچتی
ہیں اور ان کی آواز میں آواز ملاکر علاقے کے افراد بھی ان کا ہاتھ بٹاتے
ہیں۔ اس طرح متاثرین کو مکمل نہ سہی وقتی طور سے تھوڑا صبر ضرور مل جاتا ہے
اور وہ بھی حالات سے مقابلہ کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ۔ کبھی تو ہر ادارے کے
سماجی کارکن خدمات کی انجام دہی کر رہے ہوتے ہیں اور کبھی کبھی کوئی اکیلا
بھی کارنامے سرانجام دے رہا ہوتا ہے۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ ایسی
انجمنیں اور ان کے کارکن بھی متاثرین کی داد رسی ، امداد اور آبادکاری کے
لیے دن رات ایک کر دیتے ہیں۔ اور ایسے میں حکومتوں کی بس میٹنگ در میٹنگ کا
بازار سجا رہتا ہے۔ امیر لوگوں اور بیرونِ ممالک میں رہائش پذیر لوگوں سے
غریبوں کی آبادکاری کے لیے چندوں پہ چندہ اور متاثرہ کاروائی سے منسلک
وزارت کی ان کے نام پرر قمیں اینٹھنا ایک طویل عرصے تک ان کا کام بن جاتا
ہے۔ ایسے میں یہ رضاکار لوگ ہی ہوتے ہیں جو ایسے موقعے پر جانے کہاںسے آتے
ہیں، کیوں متاثرین کے غم میں شریک ہوتے ہیں، ان سوالوں کا نہ تو کوئی
پوچھتا ہے اور نہ ہی کسی کے ذہن میں یہ خدشات کھٹکتے ہیں۔ انہیں تو لوگ بلا
سوچے سمجھے خدا کا فرشتہ ہی سمجھتے ہیں کہ جو دکھی لوگوں کے کام آ رہا ہوتا
ہے۔
متاثرین تو اپنے زخموں سے ہی تڑپتے رہتے ہیں، دور رہنے والے بس افسوس کرکے
رہ جاتے ہیں ۔ رہی سماجی کارکنوں کی انجمنیں اور سماجی کارکن تو وہ اپنا
کارہائے نمایاں اپنی جان جوکھم میں ڈال کر نبھاتے رہتے ہیں۔ اس آگ و طوفان
کے ماحول میں کسی کو کچھ بھی اندازہ نہیں ہو پاتا کہ کس طرح یہ لوگ اپنی
جان کی پرواہ کئے بغیر دوسروں کے کام آتے ہیں۔
دنیا میں روشنی کی بہت سی کرنیں موجود ہیں جو اپنے اپنے تئیں پریشان حال
لوگوں کے لئے روشنی بکھیر رہے ہیں ۔ ہمارے یہاں جو بڑی سماجی انجمنیں اس
وقت مصروفِ عمل ہیں ان میں خدمتِ خلق کمیٹی، عبد الستار ایدھی، رمضان چھیپا
ہیں ۔یہ ادارے انسان دوستی میں سرگرداں رہتے ہیں اپنی خدمات نہایت جاں
فشانی سے انجام دیتی ہیں۔ ان کے رضا کار کسی خوف کے بغیر اُن تمام علاقوں
میں ضرورت پڑنے پر پہنچ جاتے ہیں جہاں انسانوں کو ان کی ضرورت ہوتی ہے۔اور
یہ لوگ اپنا کام سچ اور ہمت کے ساتھ کرتے نظر آتے ہیں۔
ملک کی ان مایہ ناز سماجی تنظیموں کی کارہائے نمایاں کسی سے ڈھکی چھپی بات
نہیں ہے، ملک کا ہر کس و ناکس انہیں جانتا ہے اور ان کی سماجی خدمت کے ہر
جگہ چرچے ہیں میر ے ان خیالات کی تصدیق کے لئے حالیہ دنوں میں رونما ہونے
والے واقعات سب کے سامنے ہے جس میں ان افراد نے گونا گوں خدمات انجام دے کر
اپنی تنظیم کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔ جس سے انسانیت کا بھی سر فخر سے بلند
ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے کچھ قارئین میرے جذبات سے متفق نہ ہوں اور انہیں یقین
نہ آئے مگر یہ صرف ” میں نہ مانوں کے مصداق ہی ہوگا“ یہ سچ اور روشن دن کی
طرح صاف حقیقت ہے کہ یہ رضا کار دلوں میں ہلچل مچا دینے کے لئے کافی ہوتے
ہیں۔ انہوں نے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے جو کارہائے نمایاں انجام
دیئے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
کیا کبھی ہم نے سوچا کہ یہ رضاکار کیا ہیں، اور اس سے ہمیں کیا ملتا ہے؟
رضاکار عموماً اُسی کو کہا جاتا ہے جس میں اپنا درد بھلا کر دوسروں کے درد
میں شریک ہونے کا جذبہ بیدار ہو۔ آج کے دور میں ان رضاکاروں کی بڑی اہمیت
ہے کیونکہ دنیا سمٹ کر ایک کنبے کی طرح ہو گئی ہے لہٰذا ایک دوسرے کے دکھ
درد، رنج و الم سے واقفیت رکھنا اور ہنگامی حالات میں مدد کرنا ان رضاکاروں
کا انسانی و اخلاقی فریضہ ہو گیا ہے۔ ایمنبولینس سروس بھی اس مقصد کی تکمیل
کےلئے بے انتہا مفید کارکزاری بن گئی ہے۔ آج ان تنظیموں اور ان کے رضاکاروں
کی جو اہمیت و مقبولیت ہے ، وہ چند برسوں پہلے نہیں تھی حالانکہ وہ چند برس
کیا نہ جانے کتنے ہی برس سے اپنی کارکردگی دکھاتے چلے آ رہے ہیں۔ جیسے جیسے
ملک کے حالات دگرگوں ہو تے جا رہے ہیں ان کی تعداد بڑھائی جا تی رہی ہیں۔
یہ لوگ رات دن اپنے کاموں میں مگن رہتے ہیں اور دکھی لوگوں کی خدمت کو اپنا
وطیرہ بنایا ہوا ہے۔ خدا ان کے جذبوں کو سلامت رکھے۔
تاریخ شاہد ہے کہ دنیا کی وہی قومیں ترقی کے اعلیٰ منازل طے کرتی ہیں جو
اپنے عوام کی خدمت گزاری پر توجہ مرکوز رکھتی ہیں۔ پاکستان ایک جمہوری ملک
ہے ، یہی وجہ ہے کہ یہاں بسنے والے سبھی لوگوں کو جمہوریت کے مطابق زندگی
گزارنے کا حق حاصل ہے خواہ وہ کسی بھی مذہب و ملت سے تعلق رکھتے ہوں، لیکن
بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ بات صرف ہماری زبان تک ہی محدود ہے
چونکہ عملی دنیا میں ہمارے ملک میں یہ نظام پوری طرح نافذ نہیں ہے ۔ آپ
کہیں سفر کر رہے ہوں اور کوئی حادثہ رونما ہو چکا ہوتا ہے تو ہم اس قدر
سفاکی اور بے دلی کے ساتھ وہاں سے گزر جاتے ہیں جیسے کچھ دیکھا سنا ہی
نہیں۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیئے کہ فوری طور سے ایمنبولینس سروس کو بلایا
جائے اور وہ زخم خوردہ شخص کو ہسپتال روانہ کرایا جائے تاکہ اس کی مرہم پٹی
وقت پر ہو سکے جس سے اس کی زندگی بچ سکتی ہے مگر بے حسی اتنی ہے کہ ہم وہاں
سے خاموشی کے ساتھ گزر جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ
یا تو ہم سب حالات سے خوفزدہ ہوتے ہیں اور وہاں سے گزر جانے میں ہی اپنی
عافیت سمجھتے ہیں یا پھر ہم سب بہت سنگ دل ہو چکے ہیں جس کی وجہ ہمارے
اعمال بھی ہو سکتے ہیں۔
بنائیں کیا سمجھ کر شاخِ گل پہ آشیاں اپنا
چمن میں آہ کیا کرنا جو ہو بے عزت رہنا
آج اس قوم کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ چند نام نہاد لوگوں نے اجتماعیت کا
شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے، قوم تسبیح کے دانوں کی طرح بکھری پڑی ہے، ہر
شخص اپنے ذاتی مفاد اور شخصی انحطاط کو اولیت کا درجہ دیتا ہے۔ اسی لئے آج
کا مسلمان ان تمام آزمائشں کے باوجود اسی طرح اپنی زندگی کے دن بسر کر رہا
ہے، وہ گرد وپیش کے ماحول و حالات سے بے خبر اپنی کشتی ¿ حیات کو آگے بڑھا
رہا ہے اور بس! اسے سوچنے کی فرصت نہیں، سمجھنے کے لئے اس کے پاس وقت نہیں۔
ایسے نازک دور میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے افراد کی جو سیرت و کردار کے
آئینہ دار ہوں، اخلاق و عادت کی بلندیوں پر فائز اور ایمان و یقین سے سرشار
ہوں، ایثار و قربانی کے جذبے اور سپہ گری اور سپہ سالاری سے متصف ہوںوہ قوم
کے تشخص کو دوبارہ بحال کرائیں تاکہ عوام میں بالخصوص خداداد صلاحیتیں (جو
حد درجہ موجود ہیں) اسے عروج کی راہ مل سکے۔ اور عوام بھی ایسے رضاکاروں کی
طرح کام کریں تاکہ انسانیت کی فلاح ممکن ہو سکے۔ اللہ رب العزت ہم سب کو اس
کی توفیق عطا فرمائے تاکہ بے آسرا و بے سہارا روڈ پر پڑے ، حادثات کی زد
میں آئے ہوئے لوگوں کی داد رسی کر سکیں ۔ آج آپ کسی کا ساتھ دیں گے تب ہی
کل کوئی آپ کا ساتھ دیگا ورنہ ہو سکتا ہے کہ کل آپ بھی کہیں سسک رہے ہوں
اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ (خدا وہ دن نہ لائے) |