زندگی میں انتقام سے بڑھ کر کوئی
چیز اتنی بھیانک نہیں جتنا انتقام کے نفرت انگیز جذبے کو اپنے دل میں جگہ
دینا ہے ،ساری زندگی یہ انتقام آگ بن کر ہمارے وجود کو جلاتا رہتا ہے ہماری
رگوں سے محبت اُنسیت کے جذبے کو نیست و نابود کر دیتا ہے
اگر آج ہم اپنی موجودہ طرز زندگی پر غور کریں تو اس با ت کا ہمیں بخوبی
ادراک ہو گا کہ ہم میں سے ہر ایک شخص انتقام کی آرزومیں جل رہا ہے وہ
انتقام چاہے کسی چھوٹی اور انتہائی معمولی نوعیت کا ہو یا ہماری انا پر لگی
چوٹ کا ہو یا پھر کسی بہت بڑی دُشمنی کا ،اور بظاہر یہ جذبہ ہمیں خود میں
نظر نہیں آتا کیونکہ ہم اپنے آپ کو صرف پارسائی کے تراوزو میں ہو تولنے کے
عادی بن چکے ہیں دوسروں کے عیبوں پر رکھی ہوئی ہماری نظر اتنی کھو کھلی ہو
چکی ہے کہ ہم اپنے آپ کو ان چیزوں سے مُبرا قرار دیتے ہیں مگر ہم تو دھوکے
میں جی رہے ہیں اور تا عمر اپنی ذات سے دھوکہ کھیلتے چلے آرہے ہیں اسلام
میں درگذر کی بہت اہمیت ہے ہماری زندگی میں بے سکونی کی ایک وجہ دوسروں کو
درگزر نہ کرنا ہے۔
ہماری ذہنی وسعت پستی کی جانب گامزن ہے تعلیم کے اعلٰی معیار کو حاصل کرنے
کے باوجود جاہلیت کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں اسی بات سے اندازہ لگا لیجئے
کہ اگر کوئی ہمارا اپنا ہماری خوشیوں میں شریک نہ ہوں تو ہم اُس کی خوشیوں
میں قطعا شریک نہ ہوں گے اور اگر کوئی ہماری دکھوں میں اپنی کسی مجبوری یا
پھر خود ہی جان بوجھ کر نا آپائے تو ہم اُس کی دکھوں میں بھی اُس کے پاس
جانے کو ذلت اور گالی تصور کرتے ہیں ہم تو رشتے نہیں نبھا رہے بلکہ صرف لین
دین کر رہے ہیں-
کسی کو معاف کرکے دیکھیں تو یقین مانے کہ آپ کی روح سکون و اطمینان سے سر
شار ہو جائے گی آپ خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کریں گئےاس طرح لگے گا جیسے
کو ئی بھاری بھرکم بوجھ آپ کے سر سے اُتر گیا ہے زندگی کی حقیقی مسرتیں صرف
محبت و اخلاص جیسے پاکیزہ بندھن سے بندھی ہے انتقام سے ہمیں کچھ حاصل نہیں
ہوتا سوائے اس کے کہ ہم اپنوں سے بہت دور چلے جاتے ہیں اتنے دور کہ پھر
واپسی کے رستے ہی نہیں ملتے یو ں ساری زندگی خود کرب و ازیت میں گزار کر
اور دوسروں کو بھی یہ کرب ا ذیت دے کر ہم کیا حاصل کر لیتے ہیں زندگی کے شب
و روز انتہائی مختصر ہیں انھی مختصر ایام میں ہمیں صرف دوسروں کے ساتھ
سانجھی خوشیاں اور سانجھے دکھوں کے ساتھ جینے کا ہنر سیکھنا چاہیے انسان ا
ﷲ کی ایک خوبصورت تخلیق ہے اگر انسان اپنی صباحت اپنی دلکشی کو برقرار
رکھنا چاہتا ہے تو پھرغموں اور دوریوں کے موسم میں صرف اخلاص اور درگزر کے
دیپ جلائے در گزر کے حوالے سے ایک بڑی مثال ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کی ذات
مبارک ہے ۔آپﷺ نے اپنی بیشتر زندگی میں ظلم و ستم سہنے کے باوجود کبھی کسی
سے نفرت نہیں کی اور نہ ہی کسی سے انتقام لیا بلکہ فتح مکہ کے موقعہ پر
اپنے پیارے چچا کے کلیجے کو چبانے والی ابو سفیان کی بیوی ہندہ کو بھی معاف
فرما دیا ۔ ہم اپنی چھو ٹی چھوٹی باتوں اور اپنی جھوٹی انا کی خاطر نفرتوں
کی دیواریں حائل کر لیتے ہیں جو مرتے دم تک قا ئم رہتی ہیں-
خدارا یہ نفرتوں اور انا کی دیواروں کو گرا دو ورنہ یہ دیوار یں ہم میں
موجود ہماری انسانیت کو گرا دیں گی رشتوں کی ڈور پیار جیسے مقد س جذبے سے
جڑی ہوئی ہے اس دنیا میں انسان سے نا چاہتے ہوئے بھی غلطیاں سرزد ہو جاتی
ہیں مگر اپنی غلطیوں پر پشیمان ہونا اپنی غلطیوں کو مٹانے کے مترادف ہوتا
ہے جینے کا حصول جہاں دنیا میں مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے ہیں وہاں ہم
اپنی نیک شگون اُمیدوں کو بھی اپنے وجود میں موجود نا اُمیدی نا شکری کے
آتش فشاں میں جلا چکے ہیں -
ہم نہیں جانتے کہ آنے والا دن آنے والا پل ہماری زندگی میں کیا لے کر آتا
ہے اور اگلی سانس ہم لے بھی سکتے ہیں یا نہیں تو پھر کس لئے یہ انتقام کی
آگ میں اپنے آپ کو جُھلسانا ،بھول جائیں ماضی کی اُن باتوں کو اُن برے
لمحاتوں کو جب کسی نے آپ کے ساتھ بُرا کیا اُن غلطیوں کوماضی کے ہی کسی
قبرستان میں دفن کر دیں -
آئیں آج ہم خود سے اس بات کا عہد کریں ہم نئی نیک شگون اُمیدوں اور نئے دن
کی سپیدی کے ساتھ نئے سرے سے دوسروں کے ساتھ چلنا سیکھے جس کا جو ظرف ہے
اُس سے قطع نظر اپنے ظرف کو بلند کرنا سیکھیں برے کے ساتھ نفرت نہیں بلکہ
اُس کی برائی سے نفرت کریں -
زندگی گزرانے کے لیے صرف پیار اور صرف پیار کرنا سیکھیں - |