اپنے آپ کو بہتر سے بہتر اور
خوبصورت دیکھنے کی خواہش ہر کسی کے دل میں ہوتی ہے۔ جس کے لئے وہ خوب تگ و
دو بھی کرتا ہے۔ میں کیسا ہوں، لوگ دیکھیں گے تو کیا کہیں گے؟ یہ وہ خدشات
اور افکار ہیں جو ہروقت کسی نہ کسی کو لگے ہی رہتے ہیں۔ خوبصورت ہونا اور
خود کو پاک و صاف رکھنا فریضہ ایمان ہے۔ مگر حد سے بڑھ کر بناﺅ سنگھار میں
لگے رہنا اور بلاوجہ کے تکلفات میں پڑنا خود کو ازیت اور دوہری پریشانی میں
مبتلا کرنے جیسا ہے۔
25 ستمبر 2006 ءکو بی بی سی اردو بلاگ پہ ایک تحریر پر نظر پڑی۔ جس کو پڑھ
کر ذہن میں ایک سوال ابھرا کہ کیا واقعی ہمارے معاشرے میں اس قسم کے تکلفات
موجود ہیں۔ اس تحریر کا عنوان ”کوئی کیا کہے گا، میں کیسا لگ رہا ہوں؟“ تھا۔
تحریر میں لکھا تھا کہ ”میں کیسا لگ رہا ہوں، کوئی کیا کہے گا؟ اس قسم کے
سوالات اور فکریں کسی بیماری سے کم نہیں، بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر
ہوگا کہ اچھی خاصی خوفناک بیماریاں ہیں جن سے انسان تمام تر ترقی کے باوجود
جان نہیں چھڑا سکا۔“
مزید لکھا تھا کہ ”انسان ہزاروں سال میں اپنے آباﺅ اجداد سے بہت آگے نکل
گیا، اس نے بہت کچھ ایسا دیکھا اور کیا جس کا ماضی میں تصور بھی ممکن نہیں
تھا لیکن اچھا دکھائی دینے کا چکر جوں کا توں قائم ہے۔ تعلیمات یا پیغامات
صرف وقت کے ساتھ پرانے ہو جاتے ہیں، کیونکہ انسان وہی ہے اور اس کی زندگی
کے خدشات اور مسائل بھی وہی ہیں“۔
دونوں پیروں میں ایک جیسی جرابیں پہننے سے لے کر مناسب موقع کے لیے مناسب
لباس کا چناؤ اور یہ خیال کہ کونسا ڈیزائن ’اِن‘ ہے اور کونسا ’آؤٹ‘ میں اس
چھوٹی سی زندگی کا کتنا قیمتی وقت اور دماغ ضائع ہو جاتا ہے۔ بال کالے
کروانا یا نئے لگوانے کے بارے میں بھی میری یہی رائے ہے۔
میں کیسا لگ رہا ہوں؟ یہ ایک ایسا وسیع موضوع ہے کہ جس پر جتنا کچھ لکھا
جائے شاید کم ہے۔ یہاں پر کچھ ایسے نکات کا گھیراﺅ کیا جارہا ہے کہ جو ہم
عمومی طور پر محسوس کرتے یا پھر ان کا حصہ ہیں۔ اپنی ذات کے بارے میں ہر
وقت یہ سوچتے رہنا کہ میں کیسا لگ رہا ہوں، اور اسی پریشانی میں مبتلا رہنا
کہ میری شکل و صورت اچھی ہے یا نہیں ہے۔ لوگ میرے بارے میں کیسے خیالات
رکھتے ہیں؟ میں کسی مجلس میں ہوں تو سب مجھے کیوں گھور رہے ہیں؟ وغیرہ ۔ اس
قسم کے خیالات رکھنے والا شخص خود اعتمادی کی کمی اور احساس کمتری کا شکار
رہتا ہے۔ جب انسان میں خود اعتمادی ختم ہونا شروع ہوجاتی ہے تو تب اس کے
ذہن میں اس قسم کے خیالات کا آنا فطری عمل ہے۔ وہ ہمیشہ یہ اپنے اعتماد کو
بحال کرنے کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ وہ ہر وقت یہ سوچتا رہتا ہے کہ میں
لوگوں سے بات کیسے کروں گا، میں ان کے سامنے کیسے جاﺅں گا، اگر گیا تو کیا
میری شکل و صورت ان کو اچھی لگے گی، کیا وہ مجھے پسند کریں گے، یا میں ان
کو پسند آﺅنگا اور پھر وہ خود سے ہی سوال کرتا ہے کہ میں کیسا لگ رہا ہوں۔
حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہوتا، وہ یہ کبھی نہ سوچتا کہ اگر مجھ میں کوئی کمی
ہوگی تو سامنے والے ہر شخص میں کوئی نہ کوئی کمی ضرور ہوگی۔ یہ بات لازمی
نہیں کہ اس میں کمی کو تلاش کرنے کی کوشش کی جائے بس اپنے آپ کو یہ بات
سمجھانے کی کوشش کرے کہ اس دنیا میں آنے والا کوئی شخص بھی مکمل نہیں ہے۔
ہر شخص میں کوئی نہ کوئی کمزوری موجود ہوتی ہے۔
ایک جملہ بہت مشہور ہے کہ ”غلطی ہر شخص کرتا ہے مگر عقل مند اس کو چھپا تا
ہے، جبکہ بے وقوف اس کو ظاہر کردیتا ہے“۔ اسی لیے بجائے اس کے اپنی زندگی
سے بھاگا جائے، خود کو منحوس اور بے کار سمجھا جائے، حالات کا ڈٹ کر سامنا
کرنے کا فن سیکھا جائے۔ ان اوامر کو جاننے کی کوشش کی جائے کہ جس سے زندگی
کو بہتر سے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری تخلیق کی ہے۔ وہ
اللہ ہمیں خوب سے خوب جانتا ہے، کہ ہم میں کتنی کمزوریاں ہیں۔ مگر اس سب کے
باوجود اللہ نے ہماری تخلیق کے بارے میں فرمایا کہ ”ہم نے انسان کو بہترین
مخلوق پیدا کیا ہے“۔ جب وہ مالک کائنات ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں کو جاننے
کے باوجود ہماری تخلیق کو بہتر قرار دے رہا ہے تو ہم کیوں خود کو برا
سمجھنے لگے ہیں۔
میں کیسا لگ رہا ہوں ؟ کی ایک وجہ اپنے آپ کو زندگی کی تمام تر آرائش سے
مزین کرنا ہے۔ زندگی کبھی اتنی بوجھل اور مشکل نہیں تھی، مگر انسان
خوامخواہ فیشن انڈسٹری کے چکر میں پھنس گیا ہے، ورنہ تو زندگی آسان ہے۔
سیدھے سادھے انداز میں نہا دھو کر کوئی بھی صاف ستھرے مگر پاک کپڑے پہن کر
دفتر، شادی پر یا پھر کہیں بھی جایا جا سکتاہے، یا کم سے کم ہونا ایسا ہی
چاہیے تھا۔ اب تو سادگی بذات خود اچھا خاصا مہنگا کاروبار بن چکی ہے۔ ایسے
لباس کی بھی اچھی خاصی قیمت ہوتی ہے جسے پہننے سے یہ تاثر ملے کہ پہننے
والے کو کسی کی پرواہ نہیں۔ ”نائس “اور ”کول“ لگنے کے چکر میں کم سے کم
بوجھل جیب ہلکی ضرور ہوجاتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی موجود ہے کہ جو دوسروں کی
دیکھا دیکھی میں اپنا رنگ، حلیہ بدلتے رہتے ہیں۔ وہ کبھی اپنے آپ پر مطمئن
نظر نہیں آتے۔ ہر وقت ایک ہی فکر میں کہ میں رہتے ہیں کیسا لگ رہا ہوں۔ اس
فکر میں گم افراد کا اگر طائرانہ تجزیہ کیا جائے تو ان میں نوجوان نسل
سرفہرست نظر آتی ہے۔ ان میں مرد و زن کے فرق کے بغیر سب ہی ”گوڈ لکنگ“ کی
دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے ہیں۔ چونکہ بناﺅ سنگھار میں خواتین کا کوئی ثانی
نہیں اس لحاظ سے وہ ہمیشہ صف اول میں رہتی ہیں۔ اگر گھر سے باہر جانا پڑ
جائے تو کپڑوں کی بھری الماری سے نکلنے والے سوٹوں کی بھرمار میں چناﺅ کرنا
مشکل ہو جاتا ہے کہ کونسا ڈریس پہن کر جایا جائے۔ جس کے لئے گھر بھر کے
افراد کو جمع کر لیا جاتا ہے اور سب ہی لائن میں صف آراءہوتے ہیں۔ پھر میک
اپ کی باری آتی ہے تو سوالات کی کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے
کہ کپڑوں اور رنگ سے میچ کرتی کونسی چیز اچھی سوٹ کریں گی اور کونسی نہیں،
کیا لگاﺅں اور کیا نہیں، الغرض جب وہ گھنٹوں کی انتھک محنت کے بعد بن سنور
کر محفل میں پہنچ جائے تو پھر تذکرہ شروع ہوجائے گا کہ فلاں کیسے لگ رہی ہے
؟ فلاں کا حلیہ کیسا ہے؟ فلاں اچھی اور فلاں بھدی لگ رہی ! پھر آخر میں دل
میں خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ میں کیسی لگ رہی ہوں؟۔
کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ہم یہ جو کچھ کر رہے ہیں اس میں ہم اپنا اور دوسروں
کا کتنا نقصان کر رہے ہیں۔ ”میں کیسا ہوں“ کی دوڑ میں ہم خود کے علاوہ
دوسروں کو حقیر سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔ ہر وقت اپنی اچھائی اور اپنے آپ
میں غرق رہتے ہیں، دوسروں کی ذرہ برابر بھی فکر نہیں کرتے۔ بعض افراد تو
اپنی تعریف کے لئے دوسروں کی توہین اور بے عزتی کرتے چلے جاتے ہیں۔ کیا ہم
نے کبھی یہ سوچا کہ ہم خود کو کتنا بھی اچھا کر لیں، مگر ہماری وجہ سے اگر
کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو وہ زندگی بھر ہمیں معاف نہیں کرے گا۔ ہم نے
کبھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ ہم جیسے بھی اچھے ہیں مگر ہمارے پڑوس میں رہنے
والے اس کے زیادہ حق دار ہیں۔ |