پاکستان دشمن پراپگینڈہ اور بھارتی تعلیمی مواد

راجہ ماجد جاوید علی بھٹی

قیام پاکستان کی چھ دہائیوں کے بعد بھی بھارتی زہر آلود پراپیگنڈہ پاکستان کےخلاف جاری و ساری ہے جس میں خاص طور پر پاکستان کی بنیادی اساس دو قومی نظریہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ امن عمل کی آڑ میں بھارتی پراپیگنڈہ کے ماہرین پاکستانی تعلیمی اداروں کا دورہ کیااور اس کے نصاب تعلیم کو بھارت کےخلاف نفرت انگیز مواد پھیلانے پر مبنی قرار دیا۔ کرسچین سائنس مانیٹر بھارت میں شائع کردہ ایک کہانی بعنوان پاکستانی نصابی کتب نے نفرت انگیز نصاب کی بحث چھیڑ دی میں اسلام آباد کے مضافات میں نویں جماعت میں ”تاریخ پاکستان ایک خاص زاویے سے پڑھائی جا رہی ہے اس میں ایک پاکستانی لکھاری مبارک علی کے اس جملے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے کہ یہ ایک یکطرفہ کہانی تھی حقیقت میں یہ بھارتی ردعمل تھا پاکستان میں ہندو اور سکھ قافلوں پر حملوں کا“۔ اس طرح کی کہانیوں کا مقصد ہماری تاریخ کے بارے میں شکوک پیدا کرنا اور نظریہ پاکستان کو نشانہ بنانا ہے۔ حالانکہ زمینی حقیقت اور تاریخی سچ یہی ہے کہ بھارتی مسلح جتھوں نے پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمان مہاجرین کے نہتے قافلوں کو ظالمانہ حملوں کا نشانہ بنا کر لاکھوں کو شہید کیا، ہزاروں خواتین کی عصمتیں لوٹیں اور خون کا بازار گرم رکھا۔ دوسری طرف بھارتی تعلیمی نصاب میں مسلم دشمن مواد کی موجودگی ایک کڑوا مگر تلخ سچ ہے۔

ہندو انتہاءپسند تنظیموں کے تربیتی مراکز میں بچوں کی ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کو جس طرح کی نصابی کتب پڑھائی جارہی ہیں ان میں انتہاءپسندی اور مسلم دشمنی کا مواد شامل کیا گیا ہے۔ ان بچوں کو خاص طور پر اقلیتوں کےخلاف نفرت انگیز مواد پڑھایا جارہا ہے۔ خوشنت سنگھ نے بھی اپنے ایک مضمون میں ان نصابی کتب میں شامل تاریخی و علمی اغلاط کی طرف اشارہ کیا ہے جو علمی بددیانتی کی بدترین مثال ہے لیکن اس تعلیم کا وہ پہلو نہایت پریشان کن ہے جس کی وجہ سے ہندو دہشت گردی بھارت میں روز کا معمول بن چکی ہے۔

بھارت میں انتہاءپسند ہندو تنظیمیں وسیع تر منصوبے پر عمل درآمد کررہی ہیں اور آہستہ آہستہ ریاست کے معاملات پر ان کی گرفت مضبوط ہورہی ہے۔ تعلیم کی اہمیت سے کون انکار کرسکتا ہے اور اپنے اہداف کی تکمیل کےلئے تعلیم ہی سب سے موثر ہتھیار ہے۔ اس لئے انتہاءپسند ہندوﺅں کے وسیع تر منصوبے کا ایک حصہ تو سکولوں کے معصوم بچوں کے ذہنوں کو اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کےخلاف نفرت انگیز مواد سے آلودہ کرنا اور ان کی ذہنی اور فکری قوتوں کو بھارت میں فرقہ واریت کی مسموم فضاءبنانے میں استعمال کرنا ہے تاکہ بھارت کی آئندہ کی تاریخ انہی فرقہ پرست، تنگ نظر اور انتہاءپسندوں کے ہاتھوں لکھی جائے وہیں ان کی کوششوں کا دوسرا حصہ بھارت کی سرزمین کی ماضی کی تاریخ کو بھی فرقہ وارانہ خطوط پر استوار کرنا ہے اور تاریخ سے ایسے تمام عناصر اور واقعات کی نفی کرنا ہے جو ہندوﺅں اور مسلمانوں کے آپس میں امن و شانتی سے رہنے اور بقائے باہمی کے اصولوں کو یقینی بناتے ہوں۔

1977ءسے راشٹریا سوایم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) جو بھارت کی سب سے موثر انتہاءپسند تنظیم رہی ہے، نے بھارت کے نظام تعلیم میں باقاعدہ طور پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کیا۔ اس کا ہدف بھی یہی تھا کہ کروڑوں غریب ہندو بچے ہیں، جنہیں سنگھ پریوار کے فلاحی سکولوں میں تعلیم دینے کے بعد اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کےلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آج تک آر ایس ایس کی نگرانی میں ہزاورں کی تعداد میں بنیادی تعلیم و تربیت کے سکول جنہیں Shakas کہا جاتا ہے، قائم کئے جاچکے ہیں۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ صرف ودیا بھارتی نامی ہندوانتہاءپسند تنظیم کے تحت بھارت کے کم از کم بیس ہزار کے قریب سکول جنہیں وہ براہ راست چلا رہے ہیں۔ ان سکولوں میں عورتوں، اچھوتوں اور ادی واسیوں کو اس تعلیمی نظام کے اندر لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں جن کا مقصد اقلیتوں کےخلاف پُرتشدد مہم چلانا ہے۔

انتہاءپسند ہندوﺅں کی اس نفرت انگیز تعلیم کے عملی مظاہرہ کا تجربہ بھی کیا جاچکا ہے۔ گجرات میں 2002ءکے فسادات اور 2007ءاور 2008ءمیں اڑیسہ کے عیسائی مخالف فسادات میں انہی شدت پسند عناصر کو مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ادی واسیوں اور اچھوتوں کو گجرات کے فسادات کے دوران ٹرکوں اور بسوں میں بھر بھر کر لایا گیا جنہوں نے قتل و غارت گری مچائی۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی متوسط طبقے کے ہندوﺅں نے بھی مسلمانوں کی املاک کو لوٹنے کا کام سرانجام دیا۔
جہاں تک بی جے پی کا تعلق ہے تو 1980ءکی دہائی ہی سے اس نے مختلف ریاستوں میں مقامی زبانوں میں جو نصابی کتب شائع کیں ان کو ہندتوا کے رنگ میں لکھا گیا تھا۔ انہوں نے تو ہندو دیوی دیوتاﺅں کو بھی نہیں بخشا اور ہندوﺅں کے دیوتا بھی نفرت انگیزی کی اس مہم کی بھینٹ چڑھا دیئے گئے۔ ان نصابی کتب میں ہندو دیوتا ہنومان کو مسلمانوں کے بدترین دشمن کے طور پر پیش کیا گیا۔ اسی طرح طاقتور ہندو دیوتا گنیشا، جس کے ہاتھوں میں تلوار ہے، کو مسلم دشمنی کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا جس کی تلوار کا مقصد ہی مسلمانوں کو قتل کرنا ہے تاکہ ہندو قوم کی خالص نسل کو برقرار رکھا جائے۔

1998ءمیں بھارتیا جنتا پارٹی نے حکومت کی باگ دوڑ سنبھالتے ہی ہندو قومیت پرست تعلیمی ماہرین کو نیشنل کونسل فار ایجوکیشن اینڈ ریسرچ ٹریننگ (NCERT) میں تعینات کیا جس کے ذمہ سکولوں کے نصاب کو از سر نو مرتب کرنا پھر بوقت ضرورت یا کچھ مدت کے بعد ان پر نظر ثانی کرنا تھا۔ بی جے پی کے انتہاءپسند رہنماءاور اس کی حکومت کے وزیر تعلیم مُرلی منوہر جوشی نے اپنے دور حکومت میں نصابی کتب میں فرقہ پرست تعلیمی مواد کو شامل کرنے کے عمل میں بے انتہاءتیزی لائی اور ان کے دور حکومت میں مسلمانوں کےخلاف اُکسانے والا مواد بے دریغ نصابی کتب میں شامل کیا گیا ہے جسے بعد کی کانگریس کی حکومت نے نظرثانی کےلئے سفارش کیا۔ اسی طرح مسلم دشمنی کا مظہر، نریندرا مودی نے گجرات کی نصابی کتب میں ہٹلر کو اپنے ہیرو کے طور پر پیش کیا تھا۔

ہندتوا کے ماننے والوں نے اپنی سرگرمیوں کے حلقے کو بڑھاتے ہوئے بھارت سے باہر بھی بھارتی سکولوں میں ہندو بچوں کی نصابی کتب کو انہی فرقہ وارانہ بنیادوں پر مرتب کیا جس میں بہت سے حقائق کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کی گئی جس پر اسے تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس کی ایک اہم مثال کیلیفورنیا میں نصابی کتب میں نظرثانی کے بعد کی گئی تبدیلیاں ہیں جنہیں بجا طور پر ان نصابی کتب کا ہندتوا وژن کہا جاسکتا ہے۔ یہ تبدیلیاں ہندو ایجوکیشن فاﺅنڈیشن (Hindu Education Foundation) اور ویدک فاﺅنڈیشن (Vedic Foundation) نے کریکولم کمیشن کو سفارش کی ہیں جو کیلیفورنیا اسٹیٹ بورڈ آف ایجوکیشن کی ایڈوائزری باڈی ہے نے سفارش کی ہیں۔ ان سفارشات پر ہندو توا کی چھاپ صاف دکھائی دیتی ہے۔ ان میں سے چند نظرثانی شدہ مواد ملاحظہ ہو۔

آریا جن کے متعلق تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا تعلق وسطی ایشیا سے تھا اور وہ ہندوستان بطور حملہ آور آئے تھے لیکن ان کتب میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آریا بھارت ہی کے مقامی لوگ تھے۔
ہندو معاشرے کو ذات پات کی غیر سماجی اور غیر انسانی تقسیم سے علیحدہ کرکے پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس جملہ کی جگہ کہ ”آریا نے ذات پات کا نظام رائج کیا“ کی جگہ یہ عبارت شامل کی گئی ہے کہ ”ویدک زمانے میں لوگوں کی افتادِ طبع، رجحان اور پیشوں کے پیش نظر انہیں مختلف سماجی گروہوں میں تقسیم کیا گیا۔ ”جو حقیقت کی نفی کرتا ہے“۔

اسی طرح عورتوں کے متعلق اس جملہ کو کہ ”مردوں کے عورت کی نسبت کہیں زیادہ حقوق ہیں“ اس جملے سے بدل دیا گیا کہ ”مردوں کی عورتوں سے مختلف ذمہ داریاں اور حقوق ہیں“۔

مسلم دشمنی پر مبنی ایک ہی جملہ اس سارے گورکھ دھندے کو سمجھنے کےلئے کافی ہے۔
"Kabeer is a nice boy, even though he is a Muslim"

ان کتابوں میں مسلمان حکمرانوں کو ظالم و جابر ظاہر کیا گیا ہے جنہوں نے ہندوﺅں کا قتل عام کیا اور طاقت کے بل پر مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جو تاریخی صداقتوں کے منافی اور مستند تاریخی حوالوں کی نفی کرتا ہے۔ بھارت کے مایہ ناز تاریخ دانوں نے اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے۔

انتہاءپسند اپنی ان کوششوں میں اس حد تک آگے چلے گئے ہیں کہ وہ ان نصابی کتب کی اغلاط کی نشاندہی کرنے والوں اور ان کی درستی کرنے والوں کو ڈرا دھمکا رہے ہیں۔ جہاں تک مسلمانوں کے ساتھ اس کے سلوک کا تعلق ہے تو آج بھارت کے مسلمانوں کو بھارت کے ساتھ اپنی وفاداری اور حب الوطنی کا ثبوت دینے کےلئے پاکستان کو سرِعام گالیاں دینا پڑتی ہیں یہی ان کی زندگی اور امن کی ضمانت ہے۔

بھارت کے لبرل طبقے ہندو عسکریت اور شدت پسند تنظیموں اور جماعتوں کو دہشت گرد تنظیمیں گردانتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ ان میں سے کئی تنظیموں کو کچھ ریاستوں میں تو دہشت گرد تصور کیا گیا ہے اور کسی دوسری ریاست میں ان کا حکومتی معاملات میں عمل دخل اتنا بڑھ چکا ہے اور انہیں سیاست کے ایوانوں میں اس حد تک رسائی حاصل ہوچکی ہے کہ عملاً بھارت ”دہشت گرد ہندو ریاست“ میں تبدیل ہوچکا ہے جو یقیناً بھارت کی سیکولر ساکھ کےلئے نہایت شدید دھچکا ہے۔
Javaid Ali Bhatti
About the Author: Javaid Ali Bhatti Read More Articles by Javaid Ali Bhatti: 141 Articles with 104973 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.