11مارچ بروز پیر کوپارلیمنٹ ہاؤس
اسلام آباد کے سامنے ڈی چوک میں کراچی میں دینی مدارس کے طلبہ کے قتلِ عام
،علماءکرام اور اساتذہ کی پے درپے شہادتوں ،مدارس دینیہ پر بلاجواز چھاپوں
،کوائف طلبی کے نام پر مدارس کو ہراساں کرنے اور مدار س دینیہ کے طلباءکے
لیے اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند کرنے کے خلاف انوکھا احتجاج کیا گیا۔اس
احتجاج کا فیصلہ جامعہ اشرفیہ لاہور میں ہونے والے وفاق المدارس العربیہ
پاکستان کی مجلس عاملہ کے دو روزہ اجلاس کے دوران کیا گیا تھا۔اسلام آباد
راولپنڈی کے علماءکرام بالخصوص مولانا قاضی عبدالرشید ڈپٹی سیکرٹری جنرل
وفاق المدارس ،مولانا ظہور احمد علوی ،مولانا نذیر فاروقی ،مولانا پیر عزیز
الرحمن ہزاروی ،مولانا عبدالغفار ،مولانا محمد شریف ہزاروی ،مفتی
عبدالسلام،مولانا تنویر احمد علوی اور دیگر حضرات نے دن رات ایک کر کے محنت
کی، ملاقاتیں کیں ،دورے کیے ،وفود تشکیل پائے ،کمیٹیاں بنیں ،ذمہ داریاں
تفویض کی گئیں اور شبانہ روز محنت کے بعد 11مارچ بروز پیر کو پارلیمنٹ ہاؤس
کے سامنے دینی مدارس کے اساتذہ وطلبا ءکا جم غفیر امڈ آیا ....تا حد نگاہ
سر ہی سر نظر آرہے تھے ....معصوم بچے ،نورانی چہرے ،قرآن کریم کی تلاوت میں
مصروف فرشتہ صفت بچے ،درویش منش اکابر ،جرات مند قائدین ،ولولہ انگیز
بیانات ،کسی بلٹ پروف کنٹینر میں نہیں بلکہ سرعام سینے تانے کھڑے رہنمائ،بے
باک نوجوان ، سیکیورٹی اور نظم وضبط کا بندوبست کرنے والے چاق وچوبند اور
مستعد نوجوان ،اسلام آباد نے پہلی دفعہ وہ انوکھا منظر دیکھا تھا ۔ڈی چوک
جہاں ہونے والے جلسوں اور مظاہر وں میں ہلہ گلہ ہوا کرتا ہے ،جسم تھرکتے
ہیں ،منچلے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں ،کھانے کے لیے چھینا جھپٹی ہوتی ہے ،مفادات
کے کھیل ہوتے ہیں ،نمبر بنانے کی کوششیں ہوتی ہیں وہاں اس دن ایسے بے لوث
لوگوں نے ڈیرے ڈالے تھے جن کے کسی قسم کے ذاتی مفادات نہ تھے ، ایسا نظم
وضبط کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں کی درسگاہوں میں ایسا منظر دیکھنے کو نہ ملے
،ایسا سکون ،ایسی خاموشی،ایسی ترتیب اور سلیقہ مندی کہ دل باغ باغ ہوا جاتا
تھا ....نہ جلاؤ گھیراؤ ،نہ ہڑبونگ ،نہ کھینچا تانی ،نہ دینگا مشتی،نہ اچھل
کود نہ راگ رنگ ،نہ مخلوط مجمع نہ شور شرابہ ....کافی دیر تک پارلیمنٹ ہاؤس
کے سامنے قال اللہ وقال الرسو ل کی صدائیں گونجتی رہیں ....عجیب منظر تھا
....انوکھا احتجاج تھا ....عجیب عزم تھا ....زبان حال اور زبان حال سے ہر
کوئی کہہ رہا تھا کہ ہم نے صفہ کے چبوترے سے پڑھنا شروع کیا تھا ،پھر انار
کے درخت تلے ایک استاذاور ایک شاگرد بیٹھے تھے اور اب ہم سڑکوں پر ڈیرے
ڈالے ہوئے ہیں۔ کوئی دھوکے میں نہ رہے کہ اگر مدارس نہ رہیں گے ،اگر جامعہ
حفصہ ؓ کی طرح عمارتیں مسمار کردی جائیں گی ،اگر درسگاہوں پرتالے ڈال دئیے
جائیں تو بھی استاد اورشاگر د کا یہ رشتہ جسے حقیقی مدرسہ کہتے ہیں وہ کسی
باغ میں ،کسی سڑک پر ،کسی ویرانے میں قائم ہو جائے گا ....جیسے کسی پھول کو
اگر مسل دیا جائے تو اس کی خوشبوہواؤں میں بکھر جایا کرتی ہے ایسے ہی
جبروتشدد اور ظلم وزیادتی سے ،قتل وغارتگری سے ،دھونس اور دھمکی سے مدارس
کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔بقول شاعر
حوصلے چھن نہیں سکتے تعزیروں سے
خواب ٹوٹے ہیں بھلا ظلم کی تدبیروں سے
سچ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
کیسے باندھوگے اسے آہنی زنجیروں سے
اس مظاہرے میں ایک بات سب نے محسوس کی کہ میڈیا نے اسے بری طرح نظر انداز
کیا ۔پرلے درجے کی بدترین صحافتی خیانت کا ارتکاب کیا گیا حالانکہ مظاہرے
سے قبل مولانا محمد شریف ہزاوری کی قیادت میں میڈیا کمیٹی تشکیل پائی تھی
۔مولانا شریف ہزاروی ،مولانا تنویر علوی ،مولانا شہزاد عباسی ،مولانا عمر
فاروق اور راقم الحروف نے اس مظاہرے کے اعلان کے بعد شام کا وقت میڈیا کے
لیے مختص کر رکھا تھا ۔ہم اسلام آباد میں واقع ہر ٹی وی چینل اور اخبار کے
دفتر میں گئے ۔وہاں کے ایڈیٹر،بیوروچیف ، بیٹ رپورٹر،چیف
رپورٹر،نیوزایڈیٹرسب سے فرداً فرداً ملے ۔ان کو دینی مدارس کے ساتھ ہونے
والے ناروا اور امتیازی سلوک سے آگاہ کیا ۔مظاہرے کی حیثیت ،اہمیت اور
مقاصد واہدف کے بارے میں بتایا اور اس مظاہرے کو بھرپور کوریج اور مناسب
جگہ دینے کی گزارش کی ۔ہماری ان ملاقاتوں کے دوران ملے جلے تاثرات سامنے
آئے ۔ان لوگوں میں سے اکثر نے تعاون کا وعدہ کیا اور الحمد للہ کوئی ٹی وی
چینل یا خبار ایسا نہیں تھا جس کے نمائندے اور ٹیمیں مظاہرے کے دوران
مظاہرے کی جگہ نہ آئے ہوں ۔سب نے رپورٹنگ کی،سب نے ریکارڈنگ کی ۔پھر مظاہرے
والے دن ڈی چوک میں وفاق المدارس کا میڈیا سنٹر قائم کیا گیا تھا۔تمام جدید
سہولیات سے آراستہ ،لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال سے ایس ایم ایس کی مدد سے
پٹیاں بنا بنا کر ذرائع ابلاغ کے متعلقہ نمائندوں کو بھیجی جاتی رہیں
،اعلامیہ ،رپورٹیں ،جھلکیاں اور خبریں باقاعدہ کمپوز اور تیار کرکے خبری
ایجنسیوں ،اخبارات اور ٹی وی چینلز کو بھجوائی جاتی رہیں ۔جب مظاہرے کے
دوران ملک کے مختلف حصوں سے الیکٹرانک میڈیا پر کوریج نہ ہونے کی اطلاعات
ملنے لگیں ۔بالخصوص جامعہ صفہ کراچی والے جواں سال مولانا شعیب تو گویا تڑپ
اٹھے تھے ۔ملک بھر کے دردِ دل رکھنے والوں نے مختلف ٹی وی چینلز کے دفاتر
میں فون کرنے شروع کیے تو تمام ٹی وی چینلز سے ایک ہی جواب ملتا رہا کہ
ہماری ٹیم ڈی چوک پہنچ چکی ہے ۔لیکن اس کے باوجود ٹی وی چینلز کیا اور
اخبارا ت کیا سب نے ہی اس اتنی بڑی پرامن کوشش کو سراسر نظر انداز کیا
۔اگلے دن کے اخبارات کے بارے میں توقع تھی کہ الیکٹرانک میڈیا نہ سہی
شایدان اخبارات میں تو مناسب جگہ ملے گی لیکن دوسرے دن کے اخبارات دیکھ کر
تو سب سٹپٹا گئے ۔کسی گلی میں ہونے والے چھوٹے سے جلسے کو ،کسی ٹیبل میٹنگ
کو ،کسی کاغذی پریس ریلیز کو بھی اس سے زیادہ جگہ اوراہمیت وحیثیت مل جایا
کرتی ہے جو اتنے بڑے اور مثالی مظاہرے کو نہ مل پائی ۔
میڈیا کے اس افسوسناک طرزِ عمل کی وجہ سے ملک بھر کے علماءوطلباءاور درد دل
رکھنے والوں کے دلوں میں عجیب وغریب سوالات سرا ٹھا رہے ہیں ۔ سو سوالات کا
ایک سوال یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور میڈیا کے پالیسی ساز اس ناانصافی اور
امتیاز ی سلوک کے ذریعے ملک کے لاکھوں لوگوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں
کہ یہاں توجہ حاصل کرنے کے لیے ،میڈیا میں مناسب کوریج پانے کے لیے ،اپنے
مطالبات منوانے کے لیے ،اپنے حقو ق حاصل کرنے کے لیے جب تک توڑ پھوڑ نہ کی
جائے ،جب تک امن وامان کو داؤ پر نہ لگایا جائے ،جب تک بازو نہ مروڑا جائے
اس وقت تک یہاں کہیں شنوائی نہیں ہوتی ،کوئی توجہ نہیں دیتا ،کوئی سنجیدگی
نہیں دکھا تا ۔یاد رہے کہ اگر یہ سوچ پروان چڑھتی رہی ،اگر یہ رائے بنتی
رہی تو اس کے نتیجے میں کل نوجوان باغی ہو جائیں گے ،انہیں زیادہ دیر تک
پرامن نہیں رکھا جا سکے گا ،انہیں زیادہ دیر تک نظم وضبط کے قاعدوں میں
نہیں جکڑا جا سکے گا ،انہیں زیادہ دیر تک اکابر کی ہدایات پر عمل در آمد کی
تلقین نہیں کی جاسکے گی۔ایک سوال ہر طرف سے یہ کیا جا رہا ہے کہ ہمیں آخر
کرنا کیا چاہیے تو اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ صرف اپنی جگہ پر کڑھتے رہنا
کافی نہیں ،صرف اپنی مجالس میں غم وغصے اور تبصروں کا اظہار کرنے دینے سے
بات نہیں بنے گی بلکہ میڈیا کے ذمہ داران تک شائستگی اور سلیقے کے ساتھ
اپنی بات ضرور پہنچانی چاہیے خواہ وفود کی شکل میں ملاقاتیں ہوں ،خواہ
احتجاجی خطوط اور مراسلے لکھنے کا اہتمام ہو ،خواہ سوشل میڈیا کی دنیا
ہو....کچھ حرکت تو ہونی چاہیے کیونکہ حرکت میں برکت ہوتی ہے تاہم یہ یاد
رہے کہ شرافت وشائستگی کا دامن کہیں نہ چھوٹنے پائے ۔
کتاب بردار مظاہرے کے دوران ایک بات بڑے بلند آہنگ کے ساتھ کہی گئی کہ” ہم
دھرنے والے نہیں بلکہ مرنے والے ہیں اور جب کوئی مرنے مارنے پر تل جائے تو
پھر ........“حکمران ،پالیسی ساز ،میڈیا اور تمام اسٹیک ہولڈر اس صورتحال
کا بروقت سنجیدگی سے ضرور جائزہ لیں کیونکہ ہمارے ہاں پانی سر سے گزر جانے
کے بعد ہوش آتا ہے لیکن اس وقت کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔
کتاب بردار مظاہرے کی باقی تفصیلات تو منظر عام پر آچکیں لیکن اعلامیہ جو
اس مظاہرے کا حاصل اور نچوڑ ہے اسے کل کے اجالا میں ضرور ملا حظہ فرمائیے
وفاق المدارس کی اپیل پر ہونے والا آج کا یہ پیغام ِ امن کتاب بردار
احتجاجی مظاہرہ اس بات کا اظہار اور اعلان ہے کہ پاکستان کے ہزاروں دینی
مدارس کے لاکھوں طلبہ وطالبات پُر امن لوگ ہیں ۔پاکستان کے دینی مدارس اس
وطن میں تعلیم کے فروغ کے لیے کو شاں ہیں۔ لاکھوں طلبہ وطالبات کے ہاتھوں
میں قلم اور کتابیں ہیں۔قرآن کریم جیسی عظیم کتاب، کتابِ امن وسلامتی ہے ۔
لاکھوں طلبہ وطالبات، علماءکرام اور دردِ دل رکھنے والے پاکستانی یہ مطالبہ
کرتے ہیں کہ اسلام دشمن قوتوں کے اشارے پرپُرامن اور محب وطن اساتذہ اور
طلبہ وطالبات کا قتل عام بند کیا جائے،علماءوطلباءکی شہادتوں پر حکومتی
خاموشی اور سردمہری مجرمانہ غفلت ہے، قاتلوں کی گرفتاری تک حکومت ان بے
گناہوں کے قتل کی ذمہ دار ہے،اگر علماءو طلبہ کے قتل کا سلسلہ بند نہ ہوا
تو احتجاج کا یہ سلسلہ ملک بھرمیں پھیلا دیا جائے گا ۔
کتاب بردار پیغام امن مظاہرے کے شرکاءاس بات پر حیر ت کا اظہار کر تے ہیں
کہ جس قسم کی مدارس دشمنی کا سامنا پاکستان کے دینی مدارس کو ہے اس قسم کی
مدارس دشمنی کسی غیر مسلم ملک میں بھی نہیں ۔مدارس دشمنی کی روش فی الفور
تر ک کی جائے ۔
کتاب بردار مظاہرے کے شرکاءکراچی میں علماءو طلبہ کی شہادت پر ملک بھر کے
درددل رکھنے والوں کی طرف سے اضطراب وتشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کرتے
ہیں کہ اس سلسلے کو فی الفور بند کر کے پوری قوم کا اضطراب ختم کیا جائے ۔
کتاب بردار پیغام امن مظاہرے کے شرکاءمطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں تعلیم کے
اسلامی،آئینی اور قانونی حق سے محروم نہ کیا جائے اورہمارے لئے اعلیٰ تعلیم
کے حصول کے راستے میں روڑے نہ اٹکائے جائیں ،مدارسِ دینیہ کے خلاف بے بنیاد
پروپیگنڈے کا سلسلہ بند کیا جائے ،بالخصوص کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں
دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ،بے گناہ عوام کے قتل ِ عام کے خلاف یہ پرامن
اور علامتی احتجاج ہے جو علماءاور طلبہ کی پے درپے شہادتوں کے خلاف شدید غم
وغصہ کا اظہار کرتے ہوئے ان کے قتل میں ملوث لوگوں کو بے نقاب کرنے ،انہیں
گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچانے اور دہشتگردوں،قبضہ مافیا اور بھتہ
خوروں کے خلاف بلا امتیاز آپریشن کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
یہ احتجاجی مظاہرہ حکومتی بے حسی ،امتیازی سلوک اور دوہرے معیار کی شدید
مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ پر حملے
کو علم اور تعلیم پر حملہ قرار دیا جائے ،ان کے ورثاءاور لواحقین سے اظہار
ہمدردی اور اظہار تعزیت کے معاملے میں بخل سے کام نہ لیا جائے ،معاوضوں کی
تقسیم اور اعلانات کے معاملے میں دینی مدارس کے طلبہ کو نظر انداز نہ کیا
جائے اور دینی مدارس کے خلاف سرگرم عمل خفیہ ہاتھ کو بے نقاب کرکے قوم کے
سامنے لایا جائے اور قوم کو بتایا جائے کہ کس سازش کے تحت دینی مدارس کو
ہدف بنا کر اس ملک کو انتشار وعدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازش کون اور
کیوں کر رہا ہے؟
کتاب بردار پیغام ِ امن مظاہرہ کے شرکاءاس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ دینی
مدارس کی حریت وآزادی پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے اور کراچی سمیت ملک کے
کسی بھی شہر سے مدارس کو باہر منتقل کرنے کی کسی سازش کو قطعاً کامیاب نہیں
ہونے دیں گے اور اس طرح کے تمام شوشوں کو سختی سے مسترد کرتے ہیں ۔
کتاب بردار پیغامِ امن مظاہرہ کے شرکاءمطالبہ کرتے ہیں کہ دینی مدارس کو
دہشت گردی سے نتھی نہ کیا جائے اور ہر معاملے کا ملبہ مدارس دینیہ پر ڈالنے
سے گریز کیا جائے۔ یہ مظاہر ہ اس بات کا اظہار ہے کہ مدارس کے لاکھوں طلبہ
وطالبات کا صرف اور صرف کتاب سے رشتہ ہے انہیں کلاشنکوف کی طرف منسوب نہ
کیا جائے اور نہ ہی انہیں کتاب وقلم کے بجائے کوئی اور چیز اٹھانے پر مجبور
کیا جائے ۔
کتاب بردار پیغام ِ امن مظاہرہ کے شرکاءملک میں ہونے والی ہر قسم کی قتل
وغارتگری کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ مدارس پر بلا جواز
چھاپوں اور کوائف طلبی کے نام پر مدارس دینیہ کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بند
کیا جائے ۔
کتاب بردار پیغام ِامن مظاہرہ کے شرکاءاس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ مختلف
حکومتی ذمہ داران کو غیر ذمہ دارانہ بیانات دینے سے روکا جائے اور بغیر کسی
تحقیق اور ثبوت کے مجمل طور پر مدارس کا نام لینے سے گریز کیا جائے ۔
کتاب بردار پیغام ِ امن مظاہرہ کے شرکاءمطالبہ کرتے ہیں کہ مختلف حیلے
بہانوں سے مدارس دینیہ کے طلباءپر اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند نہ کئے جائیں۔
کتاب بردار پیغام امن مظاہرہ کے شرکاءکوئٹہ ،کراچی اور قبائلی علاقہ جات
سمیت ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے بے گناہ لوگوں کے
قتل کی شدید مذمت کرتے ہیں اوراس سلسلے کی روک تھام کے لیے حکومت کی طرف سے
سنجیدہ کوششیں کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔
کتاب بردار پیغامِ امن مظاہرہ کے شرکاءشان رسالت میں گستاخی کے افسوسناک
واقعات کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس کی روک تھام اور انسداد توہین رسالت کے
قانون کو مزید موثر بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے بادامی باغ واقعے میں
بے گناہ لوگوں کے گھروں کو نذر آتش کرنے کی بھی مذمت کرتے ہیں،متاثرہ
خاندانوں سے اظہار ہمدردی کرتے ہیںاور تاکید کرتے ہیں کہ قانون کو ہاتھ میں
لینے سے گریز کیا جائے اور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس قسم کے واقعات کے پس پردہ
سازشوں اور حقیقی ذمہ داران کو بے نقاب کیا جائے ۔
کتاب بردار پیغامِ امن مظاہرہ کے شرکاءمطالبہ کرتے ہیں کہ آئین پاکستان کی
روشنی میں ملک کے نظام تعلیم کو سیکولر ہونے سے بچایا جائے اور اس میں قرآن
وسنت کی تعلیم کو کلیدی حصہ کے طور پر شامل کیا جائے ۔
کتاب بردار پیغام امن مظاہرہ کے شرکاءمطالبہ کرتے ہیں کہ نگران حکومت میں
اسلام پسند،محب وطن اور اہل لوگوں کو حکومتی مناصب سپرد کیے جائیں ۔
کتاب بردار پیغام امن مظاہرہ کے شرکاءطالبا ن کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش
کا خیر مقدم کرتے ہوئے حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ملک میں قیام
امن کے لیے مذاکرات کے معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے ۔ |