معاشرہ استاد سے کیا چاہتا ہے....؟

امیر المومنین خلیفة المسلمین حضرت عمر فاروق ؓ سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود ان کے دل میں کوئی حسرت ہے تو آپ نے فرمایا کہ ”کاش میں ایک معلم ہوتا“استاد معاشرے کا وہ ستون ہے کہ جس کے بل پر معاشرے کی عمارت کھڑی ہوتی ہے اور اگر یہ ستون کمزور ہونے لگے تو معاشرے کا شیرازہ بکھرنے لگتا ہے۔ بہترین سماجی معاشروں میں سب سے زیادہ توجہ حصول علم پر دی جاتی ہے

بلاشبہ معلم ایک ایسی شحصیت ہے جو ایک بچے کو بتاتا ہے کہ وہ کون ہے کیا ہے ؟ کہاں سے آیا ہے؟ اسے کہاں جانا ہے ؟ اس دنیا میں اسکے آنے کا کیا مقصد ہے؟ اس کا اصلی مالک کون ہے ؟ وہ کس کی غلامی کاپابند ہے؟ اس کا سر کس کے سامنے جھکنا ہے اور کس کا سر نگوں کرنا ہے؟کس کا احترام کرنا ہے ؟ کسے توقیر دینی ہے اور کس کو بے توقیر سمجھنا ہے ؟ان تمام باتوں اور معاملات کے بارے میں علم و معلومات دینے کا سہرا صرف اور صرف استاد کے سر جاتا ہے۔ استاد ہی وہ ہستی ہے جو تمام حقیقتوں سے بے خبر بچے کو اس دنیا و مافیہاسے روشناس کراتا ہے اور آہستہ آہستہ مختلف مہارتیں اور علوم سیکھتا یہ بچہ ترقی کی منازل طے کرتااپنا نام و مقام پیدا کرتا ہے

علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ ”استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ن کوملک کی خدمت کے قابل بنانا انہیں کے سپرد ہے۔ سب محنتوں سے اعلی درجے کی محنت اور کارگزاریوں میں سب سے زیادہ بیش قیمت کارگزاری ملک کے معلموں کی کارگزاری ہے۔ معلم کا فرض سب فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی تمدنی اورمذہبی نیکیوں کی کلید اس کے ہاتھ میں ہے اور ہمہ قسم کی ترقی کا سر چشمہ اس کی محنت ہے“ ۔ مغرب میں کہا جاتا ہے کہ زندگی کے پہلے تیس سال پڑھو اور پھر اگلے تیس سال پڑھاﺅ اور سکھاﺅ اسے یہ Rea and Lead کا فارمولا کہلاتا ہے۔ استاد معلم اور طلبہ کیلئے ایک مثال کی مانند ہوتا ہے سکول میں آنیوالا ہربچہ ایک ان لکھی سلیٹ کی مانند ہوتا ہے اور استاد جو کچھ ان کو سکھاتا اور پڑھاتا ہے وہ اسے عمر بھر نہیں بھول پاتا اور اگر ان کو صحیح نہج اور طرز پر تعلیم دی گئی ہوتو یہی باتیں ان کی ترقی کا بہترین زینہ بن جاتی ہے اور یہ بہترین تربیت ہی اس کو بہترین بیٹا بہترین شاگرد اور اعلی کردار بھائی بھی بنادیتی ہے

استاد اور شاگرد کا رشتہ وہ رشتہ ہے جو زمین پر ہی جڑتا ہے اور اس تعلق کی بنا پر شاگرد استاد سے سر سے پاﺅں تک محبت کرنے میں جت جاتا ہے اور اس کو اپنا آئیڈیل مان کر ان کے بتائے ہوئے نقش قدم پرچلنا اپنا مقصد اولین جانتا ہے ان تمام خوبیوں ، خصوصیات اور ذمہ داریوں سے مزین استاد آج کل ایک سوالیہ نشان بنتا جارہا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں استاد کو جائز مقام نہ ملنے کی جو وجوہات ہیں سو ہیں لیکن ان میں نمایاں طور پر استاد کا اپنا کردار اور رویہ بھی شامل ہے۔ مثال کے طور پرافسر کی ڈانٹ ڈپٹ، گھریلو جھگڑے، معاشی تنگ دستی سماجی معاملات میں بگاڑ ذہنی تناﺅ جیسے مسائل لئے ہوئے استا د کا خمیازہ بالاخر شاگرد کو ہی بھگتنا پڑتا ہے استاد کا یہ رویہ تعلیمی تنزلی کا ایک سبب ہے جو کہ طلبا و طالبات کوتعلیم چھوڑ کر منفی رجحانات کی طرف راغب کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے اور منفی رویے انہیں جرائم کی دنیا میں دھکیل دیتے ہیں اوریہ بچے ملک و قوم کیلئے کارآمدہونے کی بجائے ناسور بن جاتے ہیں

پاکستان میںسالانہ 35 ہزار بچے ان منفی رویوں اور مارپیٹ کی وجہ سے سکول سے بھاگ جاتے ہیںاور تعلیم کو مستقل طور پر خیر باد کہہ دیتے ہیں۔طلبہ و طالبات کی خودکشیوں کے واقعات سے معاشرہ میں جن منفی رجحانات میں اضافہ ہورہا ہے جسے روکنے کیلئے والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی نمایاں اور کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں

مخلوط نظام تعلیم بھی تعلیمی تنزلی کی ایک بڑی واضح وجہ ہے کہ کردار سازی ہونے کی وجہ سے لڑکے اور لڑکیاں حتی کہ اساتذہ(میل فی میل)بھی بے راہ روی کا شکارہوجاتے ہیں او ر ذہنی پختگی نہ ہونے کی بناپرمعاشرے کیلئے مسائل کے سبب بنتے ہیں ا ور تعلیم میں رکاوٹ کا بڑا ذریعہ ہیں۔علاوہ ازیں پرائمری سکول سے لے کر جامعات تک میں اساتذہ کی طرف سے بچوں سے ساتھ جنسی زیادتی اور استحصال کا نشانے بنائے جانے کے شرمناک واقعات نے بھی پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے-

مادہ پرستی نے استاد کے پیشے اور شعبے کو بھی بہت نقصان پہچایا ہے ۔ مادیت پرست استاد کے نزدیک درس و تدریس کا پیشہ صرف اور صرف نوکری سکیل ترقی ٹیوشن اور پیسہ ہی رہ گیا ہے آج کا استاد طالب علم کو اپنی روحانی اولاد نہیں جانتا بلکہ اسے صرف بزنس مین کی طرح ڈیل کرتا ہے اور بزنس ڈیل جان کر تعلیم دینے کا فریضہ انجام دیتا ہے اس کے پیش نظر پیشہ نہیں پیسہ ہوتا ہے اور پرائیویٹ اکیڈمی یاسرکاری ادارے کی ملازمت صرف کمائی کا ذریعہ سمجھتا ہے طلبہ کو اچھے شہری بنانے کا جذبہ نجانے کہاں گم ہوگیا ہے اور درج بالا بیان کردہ باتیں کوئی ذہنی اختراعات نہیں ہیں بلکہ حقیقی دنیا کے واقعات ہیں جو کہ نہایت ہی قابل افسوس اور پریشان کن ہے -

ایک اچھے استاد کی خوبیوں کے بارے میں ابراہیم لنکن کہتے ہیں کہ استاد وہ ہوتا ہے جو طالب علم کو آئندہ زندگی میں پیش آنے والے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کیلئے تیار کرے اس میں جرات کے ساتھ صبرو تحمل کے جذبے کو بھی پروان چڑھائے رزق حلال کمانے کا درس دے اسے فطرت و قدرت کے نظاروں کے بارے میں معلومات فراہم کرے ۔ طالبعلم کو سکھائے کہ نیکی اور بہبود انسانیت کیلئے ڈٹ جائے بھیڑ چال کی زندگی سے ہٹ کر اپنی زندگی گزارے اپنی سوجھ بوجھ کو استعمال کرے اور ظالم کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہونے کا حوصلہ اور سلیقہ رکھتا ہوخوشی کو محسوس کرنا جانتا ہو اور غلطی پر پشیمان ہو اور اس سے سبق حاصل کرے اور اپنی روح و ضمیر کا سودانہ کرے ۔ یہ تمام باتیں سکھانے والے کو عظیم استاد کا درجہ دیا جاتا ہے اور دنیا میں اس کی قابلیت کا طوطی بولتا ہے-
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211655 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More