کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم
اس مو ضوع پر کھل کر بات کریں ،کیا اب بھی ہم منافقت کا چولا اور مصلحت کی
بکل مار کر بیٹھے رہیں گے اور ان چند نام نہاد مذہبی ٹھیکیداروں کو کھل
کھیلنے کا موقع دیتے رہیں گے کہ جو جب چاہیں جس کو چاہیں قابل گردن زنی
قرارد ے دیں۔جس کو چاہیں دائرہ اسلام سے حرف غلط کی طرح نوچ کے باہر پھینک
دیں،جب چاہیںجس طرح کا چاہیں فتویٰ صادر کر دیں،جس طرح کی تشریح ان کا من
چاہے اسی طرح توڑ مروڑ کر لیں اور مستند ہے ہمارا فرما یا ہوا پھر خود ہی
اس پہ ڈٹ بھی جائیں اور جو بھی ا ن کی رائے سے اختلاف کرے یا کچھ عرض کرنے
کی جسارت کرے تو وہ گستاخی کا مرتکب،اور ایسے تند خو اور کاٹ پلٹ کے ماہر
ہر مکتبہ فکر میں موجود،کسی کے نزدیک شیعوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تو
کسی کے نزدیک وہابی واجب القتل،کسی کے نزدیک بریلوی دنیا کے سب سے بڑے مشرک
تو کسی کے نزدیک تبلیغی جماعت کے ہومیوہیتھک لوگ گستاخ ،آج کے پاکستان میں
کوئی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں،اور کمال حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے
کے خون کے پیاسے اور جانی دشمن ایک دوسرے کو ایک لمحہ بھی پرداشت کرنے کو
تیار نہیںمگر خانہ کعبہ میں ایک ہی امام کے پیچھے ایک مسجد میں حج ادا کرتے
ہیں اور یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے اور انہیں بڑی چنگی طرح پتہ بھی
ہے کہ اس گھر میں جس کو ہمارا قبلہ بنایا گیا ہے یہاں کسی کافر و مشرک کو
داخلے کی ہر گز اجازت نہیں ،تو پھر کعبہ کے متولی و منتظم غلطی پر ہیں یا
ہمارے یہ مذہبی سقراط، جاہلیت کی وہ وہ داستانیں رقم کی جا رہی ہیں کہ بیان
سے باہر ہیں اور کمال ڈھٹائی اور بے حیائی تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسلام
جیسے مقدس اعلیٰ وارفع مذہب کے نام پر کیا جا رہا ہے اور کرنے والا کوئی
اپنے آپ کو غلامِ رسولﷺ کہتا ہے تو کوئی غلامِ حسینؓ۔ ہمارے ایک جاننے والے
صاحب نے ہمیں اپنی شادی کا دعوت نامہ بھیجا مقررہ تاریخ کو ہم لگ بھگ سو
کلومیٹر کا سفر کر کے مو صوف کے گھر پہنچے تو نہ شادی نہ شادیانے ،حیرت
ہوئی اور ساتھ پریشانی بھی کہ خدا خیر کرے کوئی انہونی نہ ہو گئی ہو اور جب
پہنچے تو پتہ چلا کہ واقعی انہونی ہو چکی تھی دولہا صاحب شرمندہ شرمندہ
باہر نکلے اور کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے گویا ہوئے معذرت جناب ،وہ دراصل
شادی کی تاریخ تو آج طے تھی مگر ہمارے پیر صاحب نے فرمایا کہ آج کا دن
منحوس ہے لہٰذا شادی اس سے چند دن قبل ہو نی چاہیے اور یوں مستند ہے پیر کا
فرمایا ہوااور ہم نے چند دن قبل شادی کر لی،ان سے پو چھا کہ جن کو کارڈ دیے
ان کو اطلاع کی تو فرما نے لگے کہ مصروفیت میں موقع ہی نہیں مل سکا ہمارے
کھڑے کھڑے وہاں دو تین اور گاڑیاں بھی پہنچ گئیں اور ایک صاحب نے یہ سنتے
ہی وہیں پیر صاحب کے مرید دولہا کے سامنے ہی کہہ دیا کہ لکھ لعنت تیرے تے
تیرے پیرا تے اور صلواتیں سناتے واپسی کی راہ لی،واپسی پہ کچے پکے راستوں
پہ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے اپنی حالت بھی اس سے مختلف نہ تھی خیر یہ تو ایک
معمولی واقعہ ہے یہاں ا یسے مذہب کے نام پر اپنے ہی بھائیوں کی گردنیں ماری
جا ری ہیں کہ جس مذہب نے کہا کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں،دنیا
کے سب سے بڑے منصف ﷺنے فرمایا کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں جب کسی ایک
عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم درد و بے چینی کی وجہ سے اذیت میں مبتلا
ہو جاتا ہے،اس مذہب کے نام پر اپنے ہی ہم مذہب بھائیوں کو اذیت دی جاتی ہے
کہ جس کی بنیادی تعلیمات ہی امن و سلامتی کا مرکز و محور ہیں،اسلام نے بڑے
دو ٹوک اور واشگاف الفاظ میں مسلمان کی تعریف بیان کر دی کہ:مسلمان وہ ہے
جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں: اب ذرآٹھ آٹھ ڈیک اور
اسپیکر لگا کر مستی سے جھومتے گانوں کی طرز پر قوالیاں اور نعتیں پڑھنے
والے اس فرمان کی روشنی میں اپنا موازنہ کریں،گورنمنٹ نے اسپیکر کو ام
الخبائث کہہ کر اس پر پابندی لگائی مگر یہاں ضدسے اور ڈھٹائی سے ایک کی
بجائے درجنوں اسپیکر استعمال کیے جاتے ہیں آس پڑوس والا چاہے جتنی مرضی
اذیت میں ہو مگر اسلام کے یہ نام نہادٹھیکیدار جب اسلام کی بات نہیں مانتے
تو حکومتی قانون اور حکم کی تو کوئی ویلیو ہی نہیں ان کی نظر میں، اسلام
میں کہا گیا جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں،یہاں کوئی بھی چیز ملاوٹ سے
پاک نہیں،ناپ تول میں کمی سے سختی سے منع کیا یہاں نہ اسکیل پورے نہ
کنڈے،ایک کلو کی پیکنگ میں دو سو پچاس گرام کا ہیر پھیر،سود سے نہ صرف منع
کیا بلکہ اللہ رسولﷺ سے جنگ قراردیا ،یہاں دکانوں مکانوں کے لون سے لیکر
گاڑیوں اور ٹی وی فریج جیسی ضروریات زندگی بھی سودی طریقہ کار کے تحت ہر
جگہ دستیاب ،نہ اسلام کی توہین نہ دینی شعائر کا مذاق نہ ان کے لیے کوئی
فتویٰ کیوں کہ خود ان مین لت پت اور گلے تک دھنسے ہوئے،اسلام نے کہا جس کا
کوئی عہد نہیں اس کا کوئی دین نہیں یہاں وعدے کوئی قرآن و حدیث نہیں ہوتے
جیسی اصطلاحوں کی ایجاد کسی عالم کو کوئی ٹینشن نہ کوئی فتویٰ باز مولوی بے
چین،وعدے تو وعدے حلف توڑ کے کوئی اپنے باس کو قتل کردے جس کو بچانے کی
ڈیوٹی کی قسم کھائی تھی تو وہ قاتل کی بجائے ہیرو اور مجاہد،وعدوں قسموں کی
پاسداری خواب و خیال،علم مومن کی میراث یہ کورے چٹے ان پڑھ،صفائی نصف ایمان
جبکہ مسلمان ہر محنت مزدوری کا کام کر سکتا ہے مگر صفائی نہیں اس کے لیے
ایک الگ قوم ہے جو آئے گی تو ہمارے گھروں گلیوں اور نالیوں کی گندگی صاف
کرے گی اسلام نے راستے بند کرنے سے منع فرمایا یہاں جب تک مکمل طور پر
شہروں کے شہر سیل نہ کر دیے جائیں تب تک نہ عبادت کا مزا آتا ہے نہ ان کی
انا کی تسکین ہوتی ہے،اور جب راستے بند ہونے پر خلق خدا ذلیل ہوتی ہے تو
انہیں عجیب سی سرشاری اور تسکین قلب محسوس ہوتا ہے،رہی سہی کسر الیکٹرانک
میڈیا نے نکال دی،چند دن قبل کوئٹہ دھماکوں کے خلاف دیئے گئے دھرنوں کے
دوران عوامی جذبات سے کھیلنے والوں میں سے اکثریت کی نظر ٹی وی کیمروں کی
تلاش میں ہلکان ہوتی رہی اور جب ہم کیمرے اور ٹیم کے ہمراہ لوگوں سے بات
چیت کرنے نکلے تو ایک جگہ ہمیں صرف ایک شخصیت کے انٹرویو کے لیے تقریباً لگ
بھگ پورا گھنٹہ روکے رکھا گیا کیوں کہ عام افراد کو بات کرنے کی اجازت نہ
تھی کیوں اس کی تفصیل یہاں نہ ہی بیان کی جائے تو بہتر ہے،جب مقصد رب کو
راضی کرنا ہے تو پھر یہ نمو د ونمائش کیوں،پھر کیمرہ اور تصاویر نہ بھی ہوں
تو بھی کوئی مسئلہ نہیں کیوں کہ اللہ ان چیزوں کا ہر گز ہر گز محتاج نہیں
وہ تو سینوں میں چھپے راز بلکہ جو ابھی تک ہمارے سینوں کیا سوچ میں بھی
نہیں آیا اسے بھی جانتا ہے،ہیوی ٹریفک کے لیے ملک بھر کے بڑے شہروں میں
بائی پاس بنائے گئے ہیں تا کہ بڑی گاڑیوں کے شہر کے اندر سے گذنے سے جو
مسائل پیدا ہوتے ہیں مخلوق خدا ان سے محفوظ رہے آپ اپنے ملک کی حالت دیکھیں
کوئی سا بھی کسی بھی مکتبہ فکر کا جلوس ہو شہر کے عین وسط سے گذرے
گا،سیاستدانوں کی تو بات ہی نہ کریں ان کے جلوسوں کی قیادت اور شرکا ءکی
اکثریت شعور سے بے بہرہ اور غالباً اندھی بھی ہوتی ہے مگر مذہبی جلوسوں کی
قیادت کو تو کسی حد تک بالغ نظری اور احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے
کیوں کہ انہوں نے لو گوں کو مذہب کے نام پر اور دین کی خدمت کے نام پر
اکٹھا کر رکھا ہوتا ہے چند ماہ قبل ایسے ہی ایک جلوس کو دیکھنے کا اتفاق
ہوا جو رد قادیانیت کے نام پر کہیں عازم سفر تھا ،شرکاءجو سارے کے سارے نہ
جا نے کیوں بسوں اور ویگنوںکے اندر بیٹھنے کی بجائے چھتوں پر سوار تھے اور
اندر سے تمام گاڑیاں خالی تھیں،یہ قافلہ جو لگ بھگ چالیس چھوٹی بڑی گاڑیوں
پر مشتمل تھا عین شہر کے وسط سے گذ رہا تھا اور اگر کسی نے انہیں روکنے
ٹوکنے یا کراس کرنے کی کو شش کی تو یکلخت قادیانیت مردہ باد کے نعروں کا رخ
اس کی طرف ہو گیایوں کم و بیش پورا گھنٹہ یہ لو گ بائی پاس کو چھوڑ کر شہر
کے اندر سے گذرتے رہے اور ان کے لیڈر صاحب بھی نہ جانے کس ہستی کے حکم پر
جب تک قافلہ شہر سے گذر نہیں گیا کھلی گاڑی میں اسپیکر پر شعلہ بیانی کرتے
رہے اور شہر سے باہر نکلتے ہی آرام دہ جاپانی گاڑی میں سوار ہو کر سپہ
سالار کی ذمہ داری سنبھال لی۔اسی طرح کا ایک بہت بڑا اجتماع میانوالی روڈ
پر پچنند جسے ربوہ کے بعد پنجاب میں قادیانیوں کا گڑھ کہا جاتا ہے کے مقام
پر منعقد ہوا جس میں ملک بھر سے جید علماءفضلاءودانشورواسکالروں اور چیدہ
چیدہ سیاستدانوں نے بھی شرکت کی،ملک بھر کے طول وعرض سے ہزاروں افراد نے اس
اجتماع میںشریک ہوئے اور کمال حیرت کی بات یہ تھی کہ ان ہزاروں افراد کو
لانے کے لیے گاڑیوں کا اہتمام تو کیا گیا مگر اس اجتماع کی نماز کے بندوبست
کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا ،اس پر جب ہم نے اجتماع کے منتظم جنہیں چند
روز قبل ان کے مخالف فرقے نے عین کار ثواب سمجھ کر بے دردی سے قتل کر ڈالا
سے وضو اور نماز کا انتظام نہ ہونے کی وجہ پوچھی تو جناب محترم کوئی خاطر
خواہ جواب نہ دے سکے اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوں کو معاف فرما کر انہیں جنت
الفردوس میں جگہ دے،میں کس کس کی مثال بیان کروں کس کس کا ذکر کروں اپنے
ملک میں ہزاروں کی تعداد میں مدرسے مو جود ہیں اور ہر مکتبہ فکر کے ہیں
یہاں پر تعلیم بھی دین ایمان اور قرآن و سنت کی دی جاتی ہے لاکھوں لوگ یہاں
سے ہر سال فارغ التحصیل ہوتے ہیں جنہیں علم و ادب اور اسلام کی تعلیمات
سکھائی جاتی ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ لاکھوں لوگ جاتے کدھر
ہیں،ہمارا معاشرہ بھائی چارے اور رواداری مین بانجھ کیوں ہوتا جا رہا ہے،یہ
لاکھوں لوگ کیوں نہیں لوگوں کو دین کی اصل روح سمجھاتے،یہ کیوں نہیں بتاتے
لوگوں کو کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے جسے کسی ساون یاراون مسیح سے کوئی
خطرہ نہیں،کوئی گندی اور خبیث روح ہمارے اعلیٰ و ارفع اور پاک و عظیم
پیغمبرﷺ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی سوائے اپنے چہرے پہ کالک ملنے کے اور
ایسوں کے حصے میں کچھ نہیں آتا سوائے ذلالت کے ،چاند پہ تھوکنے والوں کا
اپنا منہ ہی گندا ہوتا ہے،مگر ہم کسی ایک کے کیے گئے گناہ کی سزا سینکڑوں
افراد کو دے کر اسلام کے بنیادی اصول کان کے بدلے کان ناک کے بدلے ناک اور
جان کے بدلے جان کی نفی کر دیتے ہیںاسلام نے اتنے بدلے کی اجازت دی جتنی
زیادتی ہوئی ہے مگر ہم ہوش کھو کر جوش میں وہ کچھ کر بیٹھتے ہیں جو اسلام
کے روشن و تابناک چہرے کو دنیا کے سامنے گہنانے کا سبب بنتا ہے،ایک کی سزا
پوری بستی کو اور پھر اس میں لوٹ مار اور وہ بھی ننھی معصوم بچیوں کا جہیز،
کیا یہ توہین رسالت ﷺ نہیں۔کیا یہ طریقہ ہے گستاخ رسولﷺ کو کیفر کردار تک
پہنچانے کا اس عمل کی کوئی بھی انسان و مذہب حوصلہ افزائی کر سکتا ہے کبھی
نہیں کبھی بھی نہیں اسلام تو اس عمل کی ستائش کر ہی نہیں سکتا کہ یہ عمل
سراسر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے جناب ۔یہ مدرسوں سے فارغ التحصیل اور ان
کے استاد کیوں نہیں لوگوں کو بتاتے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا
قتل ہے کسی بے گناہ پر ظلم گناہ کبیرہ ہے،کہیں بسوں سے اتار کر باقاعدہ
شناخت کے بعد معصوم انسانوں کو گولیوں سے بھون دیتے ہیں تو کہیںجب دل کرتا
ہے مسجد میں بم رکھ دیتے ہیں اور جب دل کرے امام بارگاہوں کو خون سے رنگین
کر دیتے ہیں ۔کہیں جنازوں کو مزید جنازوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے تو کہیں
معصوم بچوں کو مارا جا رہا ہے،کہیں چلتی گاڑی کے ساتھ چند قدم چل کے علما
کرام کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے تو کہیں زائرین اور خانقاہوں پہ جانے
والے مجبو رو بے کسوں کو لقمہ اجل بنایا جا رہاہے ا ور ظلم کی حد تو یہ کہ
ہر کوئی اپنے آپ کو حق پر بھی سمجھ رہا ہے کسی نے عام افراد کو صحابہ کے
نام پر یرغمال بنا رکھا ہے تو کسی نے اہل بیت کے نام پر،حالانکہ نہ صحابہ
کرام نے ایسے ظلم وستم کی اجازت دی نہ ہی اہل بیت کی یہ تعلیمات ہیں،یہ جیش
،سپاہ اورلشکر خدا کے لیے منافقت کا چولہ تو اتار دیںاپنے نام اپنے
کارناموں جیسے رکھ لیں کہ جو کچھ یہ کر رہے ہیں یہ کام صحابہؓ و اہل بیتؓ
اطہار کے ہر گز نہیں نہ ہو سکتے ہیں البتہ فرعون،ہلاکو اور چینگیز خان کے
ایسے کرتوت ضرور تھے ،انہی کی اگر پیروی کرنی ہے تو نام بھی ان جیسا ہی
رکھیں کیوں کہ کوئی غلامِ رسولﷺ کسی غلامِ حسینؓ کو قابل گردن زنی قرار دے
سکتا ہے نہ کوئی غلامِ حسینؓ کسی غلامِ رسولﷺ کو بلاوجہ قتل ہی کر سکتا ہے،،،،،،،،،،،،،،،اللہ
ہم سب پر رحم کرے،آمین۔ |