سوچنے والوں کی دنیا

اتحاد اور وحدت، انسانی فطرت کی آواز اور دین اسلام کی مسلسل پکار ہے۔ موجودہ دور میں اگر ہم وحدتِ اسلامی کے حوالے سے کوئی نمایاں خدمت انجام نہیں دے سکتے تو کم از کم سوچ تو سکتے ہیں۔ جب ہم وحدتِ اسلامی کے حوالے سے سوچنے کی کوشش کریں گے تو ہمیں محسوس ہوگا کہ اس دور میں وحدتِ اسلامی کے لیے سوچنا بھی بہت مشکل ہوگیا ہے۔ جہاں پر دشمن اس سوچ کو ختم کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہے، وہیں پر مسلمانوں کی صفوں میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو نادانستہ یا دانستہ طور پر مسلمانوں کے درمیان "لڑاو، جلاو اور ڈراو" کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں۔ یہ ایسے مسلمان ہیں جو وحدت کی خاطر سوچنے والے مسلمانوں کو بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ان میں سے بہت سارے ایسے بھی ہیں جنہیں اسلام دشمن طاقتیں فنڈز اور ٹریننگ فراہم کرتی ہیں، جبکہ بعض اپنی نافہمی کے باعث تعصبات اور فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں۔

مذکورہ بالا گروہوں کے علاوہ ہمارے درمیان ایک اور گروہ بھی موجود ہے جو صرف اور صرف اختلافات کی وجہ سے زندہ ہے۔ اگر ہمارے باہمی اختلافات ختم ہوجائیں تو ایسے لوگوں کی شناخت ہی ختم ہوجائے۔ ایسے لوگ تنظیموں اور اہم شخصیات کے گرد اپنی مصنوعی محبت کا حصار بنانے کے ماہر ہوتے ہیں۔ خوشامد اور چاپلوسی کے ذریعے یہ لوگوں کو ذہن نشین کراتے ہیں کہ ہم ہی فلاں تنظیم یا شخصیت کے اصلی محب اور طرفدار ہیں۔ اگر اختلافات ختم ہوگئے تو فلاں تنظیم یا شخصیت ہی ختم ہوجائے گی، لہذا اختلافات کو بڑھکائے رکھو۔ کسی بھی مقام پر اتحاد کی امید جتنی زیادہ ہوتی ہے یہ لوگ اختلافات پھیلانے کے لئے اتنے ہی زیادہ فعال ہوجاتے ہیں اور پرانے اختلافات کو ازسرِ نو زندہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ تنظیوں اور شخصیات کو اتنا مقدس بنا دیتے ہیں کہ ان پر بحث کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔

ان تمام گروہوں سے مقابلے کا ایک بہترین حل یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کے کہنے پر وحدت اور اتحاد کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ خصوصاً میڈیا میں اپنی ملی وحدت کا اظہار کریں، یعنی کسی بھی شخصیت یا تنظیم کے بارے میں ایسی رائے کا اظہار نہ کریں، جس سے ہمارا دشمن خوش ہو اور استعمار کے آلہ کاروں کو ہمارے کمزور پہلووں کا احساس ہو۔ اگر ہم دشمن کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں اور دشمن ہماری کسی بھی تحریر یا تقریر سے ہمارے اختلافات کو نہ بھانپ سکے تو یہ دشمن کی ناکامی اور مایوسی کا ایک بڑا سبب ہوگا۔ اسی طرح تنظیموں کی باہمی مشکلات کو بھی تنظیمی طریقہ کار کے مطابق ہی حل کیا جائے اور اداروں کے اندر ہی یہ مسائل زیر بحث آئیں اور وہیں پر انہیں حل کیا جائے اس طرح پوری ملت کو ایک بہت بڑے خلفشار و انتشار سے نجات مل سکتی ہے۔

جو لوگ اندرونی اختلافات کو میڈیا میں لاکر اچھالتے ہیں اور عوام میں زیرِ بحث لاتے ہیں، انہیں روکنا یہ ہم سب کی دینی و اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ جس ملت کے اندرونی اختلافات کا اندازہ دشمن لگا لیتا ہے، وہ کبھی بھی اپنے قدموں پر کھڑی نہیں ہوسکتی۔ موجودہ دور میں اگر ہم وحدتِ اسلامی کے حوالے سے کوئی نمایاں خدمت انجام نہیں دے سکتے تو کم از کم خلوصِ نیّت کے ساتھ سوچ تو سکتے ہیں۔ وحدتِ اسلامی کے لئے خلوص نیت کے ساتھ سوچئے، اس لئے کہ سوچنے والوں کی دنیا، دنیا والوں کی سوچ سے مختلف ہوتی ہے۔
nazar haffi
About the Author: nazar haffi Read More Articles by nazar haffi: 35 Articles with 32528 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.