پُر فریب و پُر فتن دور و ماحول
میں جہاں ساری کی ساری انسانی تک و دو کا محور صرف اور صرف اس کی اپنی ذات
رہ گئی ہے، جہاں ہر چیز بیچی اور خریدی جاتی ہے ، صبح و شام دن و رات ایک
شور و ہنگامہ اور قیامت خیز نفسا نفسی کا عالم ہے ، جہاں انسان کو ایک
دوسرے کی متعلق فکر نہیں ہے اور نہ ہی انسان کسی دوسرے انسان کے قریب آنا
چاہتا ہے کیونکہ یہاں ” انسان کو انسان سے ڈر لگتا ہے“ اس لئے انہیں کسی
دوسرے کے لئے غمگساری کا موقع بھی نہیں ملتا، جہاں سب ایک دوسرے متنفر اور
بیزار دکھائی دیتے ہیں ۔ معمولی معمولی نام و عنوان کو لیکر باہم ایک دوسرے
سے دست و گریباں ہیں، حالانکہ اسلام کی تعلیم اس کے بالکل برعکس ہے، اسلام
ہمیں اساس و بنیاد ، باہمی اخوت، آپسی ہمدردی اور مثالی محبت کا درس دیتا
ہے۔ اصولاً ہم سب کو ہونا تو ایسا چاہیئے تھا کہ جیسے ” یک جان دو قالب“
ملک کے کسی گوشے میں کسی بھائی کے پاﺅں میں کانٹا چھبے تو ہر ایک کو اس کی
چبھن اور کسک محسوس ہوتا، اسی کا نام غالباً اخوتِ اسلامی ہے اور دنیا کو
آج اسی جذبے کی ضرورت ہے۔ شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال ؒ نے اسی ضرورت کے
تحت امتِ مسلمہ کو یہ پیغام دیا تھا کہ:
ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا
تہذیبوں کے اس ٹکراﺅ کے دور میں ہماری نوجوان نسل کو اپنی تہذیب و تمدن سے
روشناس کرانا وقت کا اہم فریضہ ہے اگر ہم سب نے خود ہی اپنی تہذیب کی قدر و
منزلت نہ پہچانی تو یہ مغربی کلچر کی چکا چوند میں کہیں گم ہوکر رہ جائے گی۔
کیا مغربی تہذیب اور پڑوسی ملک کی روایتوں کی رنگینیوں میں کھوکر ہم اپنے
زہنی شعور کے دیوالیہ پن کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں؟ بقول ابنِ خلدون کوئی
بھی تباہ حال معاشرہ فاتح قوم کے معاشرہ کو چند وجوہات کی بناءپر اپناتا ہے۔
ہم تو کسی کے غلام نہیں، ایک آزاد ملک و آزاد معاشرہ کے آزاد شہری ہیں، پھر
یہ رویہ اپنانے پر کاربند کیوں؟ اپنی تہذیب اور کلچر کو اجاگر کریں تاکہ
ہماری نسل اس سے روشناس رہتے ہوئے اسے اپنائے۔
ہماری ہزاروں سال پرانی تہذیب تاریخی حوالوں کی امین اور مثالی اہمیت کی
حامل رہی ہے اور ہمارے پاس ثقافت و اپنی مٹی کی خوشبو کا اتنا وسیع ورثہ
موجود ہے کہ ہمیں تہی دست ہونے کا کوئی خطرہ بھی نہیں مگر نہ جانے ہماری
نوجوان نسل غیروں کی تہذیب و ثقافت کے دلدادہ کیوں بنتے جا رہے ہیں۔ مسئلہ
سارا یہ ہے کہ ثقافت و کلچر و ملی یگانگت ایک صفت کی طرح ہے اسے محسوس کیا
جا سکتا ہے ۔ احساسات تو انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی بیدار ہوا کرتی ہیں
گویا ثقافت و کلچر تو انسان اور انسانیت کی پیدائش کے ساتھ ہی پیدا ہونے
لگتا ہے مگر پھر بھی ہم سب کچھ جان بوجھ کر دوسروں کی ثقافتی یلغار کی طرف
رواں دواں ہوتے ہیں، نہ صرف اس طرف راغب ہوتے ہیں بلکہ اسے اپنانا بھی شروع
کر دیتے ہیں۔
پاکستان کے لوگوں کی تاریخ اور دس ہزار سال کی تاریخی سفر اس خطے کے لوگوں
کے لئے بہت طویل ہے اس سفر میں یہاں کہ لوگوں نے بہت دُکھ جھیلے ہیں۔ اور
بہت سی کٹھنائیوں سے نبرد آزما رہے ہیں۔ ایسی کٹھنائیاں جس نے ان کی روح تک
کو زخمی کر دیا ہے۔ یہ تمام زخم اب ان کے ادب کا حصہ ہیں۔ ہماری ثقافت کے
رنگوں میں کچھ رنگ ایسے بھی ہیں ، مسجد بنانے کا کام تو تب سے شروع ہوا جب
نسلِ انسانی کے لئے پہلی مسجد تعمیر کی گئی۔ یہ مسجد کسی فن اور ثقافت کے
زمرے میں نہیں بنائی گئی تھی مگر اس کا وجود ہماری رگوں میں زندہ ہے۔ ہم آج
بھی خوبصورت اور طویل رقبوں پر محیط مسجدیں تعمیر کرتے ہیں جو کہ ہماری
تہذیب کا حصہ ہیں۔ مغلوں کو دیکھیں جنہوں نے لاہور میں بادشاہی مسجد تعمیر
کی، قلعہ تعمیر کرایا، دہلی میں شاہی مسجد بنائی، تاج محل جیسا عجوبہ بھی
مغلوں نے ہی تعمیر کیا۔ آج کی فنِ تعمیر اور ثقافت کا جائزہ لیا جائے تو سب
سے اسلام آباد میں فیصل مسجد کاریگری کا بیّن ثبوت ہے جس کی مثال دنیا ئے
عالم میں گردش کر رہی ہے۔ داتا صاحب کی مسجد بھی کاریگری کا منہ بولتا ثبوت
ہے۔ اس کے علاوہ عمارات کا ذکر تو کیا ہی کیا جائے کہ اس کے لئے تو الگ سے
ایک مضمون تحریر ہو سکتا ہے۔
بات ہو رہی تھی ہماری مٹی کی خوشبو کی تو خدا اس مٹی کی خوشبو کو اور یہاں
کے بسنے والوں کو تاقیامت ہنستا بستا رکھے اور انہیں اپنی مٹی کے خوشبو پر
ناز کرنے کے زیور سے آراستہ فرمائے کیونکہ آج وطنیت کی کمی اس خطے میں نظر
آتی ہے ، ہر طرف آہ و بقا ہے، پہلے انسان خطرناک جانوروں سے ڈرتا تھا آج
انسانوں سے ڈرتا ہے۔ (خدا خیر کرے )مگر ہماری تہذیبوں کی بات جب آتی ہے تو
ہم واقعی کھلے دل کے ساتھ اس کی پذیرائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ ہم
لوگ تہذیبی روایت کواپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس لئے ہمیں
اپنی صلاحیتوں پر نظر ڈالنی چاہیئے کہ کہیں اسے زنگ کی گہری تہہ تو نہیں لگ
رہی ہے ، اگر ہم سب مل کر اپنی تہذیب کا دفاع کریں گے تو یقینا کامیابی
ہماری ہوگی اور نوجوان نسل بھی اس طرف راغب ہو سکیں گے ورنہ بگڑنے کے لئے
تو بادِ مخالف کی ہوا ہی کافی ہوتی ہے۔
یونان و مصر روم، سب مٹ رہے جہاں سے
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
ہمارا پیارا پاکستان ایک لحاظ سے بہت خوش قسمت ملک ہے جہاں چاروں صوبے اپنی
روایات، فن و ثقافت، کلچر کی دولت بھرپور انداز میں موجود ہے۔ صوبہ سندھ
تاریخی حوالے سے ہزاروں برس پرانی روایات اور لوک داستانوں کی تاریخ اپنے
اندر سموئے ہوئے ہیں، موئن جو داڑو اور ہڑپہ کے آثار اور آج کے سائنسی دور
تک اس سر زمین پر بہت سے بادشاہ، فاتح اور حکمراں گزرے ہیں ، حقیقی بزرگانِ
دین اور صوفیاءعظام بھی اس سر زمین کے نہاں گوشوں کی زینت ہیں ۔ شاہ لطیف
بھٹائی، عنایت شاہ ، سامی اور سچل سرمست جیسے بزرگانِ دین کا اس کی تہذیب و
تمدن میں اہم مقام رہا ہے۔ موجودہ دور میں بھی شاہ عبد الطیف کا پیغام سندھ
کی رگوں میں لہو کی طرح دوڑ رہا ہے۔ اجرک، ٹوپی ، کھجور یہاں کی خاص سوغات
ہیں ۔
تہذیب کا پیمانہ کسی ملک اور قوم پر مشتمل افراد سے ہی کیا جا سکتا ہے تو
ساتھ ساتھ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہر قوم کی اپنی ایک تہذیب اور شخصیت بھی
ہوتی ہے۔ اگرچہ اس کی شخصیت اور تہذیب کے بعض پہلو دوسروں سے ملتے جلتے
ضرور ہوتے ہیں لیکن انفرادی خصوصیتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جو ایک قوم کی
تہذیب کو دوسروں سے الگ اور ممتاز کرتی ہیں۔ دنیا کے وہ ممالک اور اقوام جن
کی اپنی تاریخی اور تہذیبی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے اور وہ اپنی اس احساسِ
محرومی کی وجہ سے مسلمانوں کی تہذیب و تمدن کے خلاف دنیا بھر میں
ناپسندیدگی کے لئے پروپیگنڈہ مہم شروع کر رکھی ہے ، خدا انہیں ہدایت نصیب
فرمائے۔ انہیں اس حقیقت کو اب تسلیم کر لینا چاہیئے کہ ان کے پاس جو کچھ
بھی تہذیب کے حوالے سے ہے وہ سب مسلمانوں کا ہی عطا کردہ ہے ورنہ ان کے
اپنے پلّے تو کچھ بھی نہیں! |