اس دنیا میں بے شمار لوگ آئے
جنھوں نے مخلوق کی خدمت کی ،خدمت گاروں میں نام پیدا کیا ۔اس میں کوئی شک
نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو خدمت خلق کے لیے ہی بھیجا ہے اور یہ خدمت
کرنا اہل دنیا پر کوئی احسان مندی نہیں ہے بلکہ یہ انسان کا حق ہے کیونکہ:
در د دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھیں کروں بیاں
لیکن یہ کہتے ہوئے زبان گنگ ہو جاتی ہے کہ یہا ں کچھ خود غرض اور مفاد پرست
لوگ صرف شہرت اور نام کے لیے مخلوق کی خدمت کرتے ہیں ۔انکی خدمت بجا ،انکی
محنت بجا ،ان کی مخلوق کے لیے اُٹھائی گئی ازیتیں بجا اور انکی ہمدردیاں
اپنی جگہ لیکن خود غرضی ان تمام بھلائیوں کو لے ڈوبتی ہے اور بہت کچھ کرنے
کے باوجود بھی انسان کچھ نہیں کر سکتا ۔عبد الستار ایدھی پاکستان ہی کیا
پوری دنیا میں امدادی سرگرمیوں کی جانی پہچانی شخصیت ہیں عمر کے آخری حصے
میں ہیں مگر ہمت جوان ہے۔آپ 1928کو بنٹوا (انڈیا )میں ایک تاجر کے گھر پیدا
ہوئے مالی لحاظ سے انکا طبقہ متوسط تھاجنگ آزادی میں بھارت سے ہجرت کر کے
پاکستان آئے اور 1951میں اپنی محنت سے ہی ایک دکان خریدی اور ڈاکٹر کی مدد
سے وہیں ڈسپنسری کھولی بے سہاراﺅں کی مدد آپکا پیشہ بن چکی تھی۔ایدھی فاﺅنڈیشن
انسانیت کی خدمت کے لیے بنائی گئییوں اپنے کام کا آغاز کیا اور بالاآخر بہت
کچھ پالیا ۔اُن کی خدمت خلق پر داد ایک طرف لیکن خدمت خلق ہی صرف انسان کو
مسلمان نہیں بناتی ۔ایدھی صاحب بھی خدمت خلق جیسے احسانات میں آکر جو آئے
کہے چلتے ہیں انکی باتیں کسی مومن مسلمان کی نہیں لگتیں یہ بات عیاں ہے کہ
وہ ہندوستان میں غیر مسلموں کے زیر تسلط ضرور رہے ہیں اور اسکا اثر آج بھی
دکھائی دے رہا ہے انکے نزدیک ائیر پورٹ زمین پر خدا کی جنت ہیں اور بقول
انکے عرفات کے میدان میں ہیرا پھیری ہوتی ہے۔28مئی2007 کے روزنامہ جنگ میں
دیے گئے انٹرویو میں محترم فرماتے ہیں ”مذہبی اور سماجی لوگ یہ سب ظالم کی
کیٹیگری میں آتے ہیں یہ مولوی لوگ ہر دس سال بعد کھڑے ہو جاتے ہیں کبھی
نظام مصطفیٰ کے لیے ،کبھی اسلام کے لیے ،کبھی جمہوریت کے لیے یہ سارے نعرے
دراصل سرمایہ دارانی ایجنٹوں کے نعرے ہیں“۔ایدھی صاحب اگر انسانیت کے ساتھ
مخلص ہیں تو کم از کم اسلام کے مخلص نہیں ہیں ۔انکی یہ باتیں کوئی مومن ہر
گز نہیں کہ سکتا ایدھی صاحب داڑھی کے لبادے میں اہل دنیا کو بے وقوف بنا
رہے ہیں اور ہر کوئی انھیں عالم کہہ کر مخاطب کرنا چاہ رہا ہے اگر انکے
نظریات کوئی جان لے تو انہیں عالم تو ایک طرف مسلمان کہتے بھی رک جائے ۔گاندھی
کے نقش قدم پر چلنا انھیں محبوب ہے کہتے ہیں کہ” گاندھی ہمیشہ دو لڑکیوں کو
ساتھ رکھتا تھا ،میں بھی اسی طرح کرتا ہوں“یہ کہنا انکی شرافت کو صحیح طرح
واضح کر ہی رہا ہے ۔نکاح کے متعلق انکا ارشاد گرامی ہے کہ نکاح میں کسی
مولوی کی ضرورت نہیں،مرد و عورت میں ایجاب و قبول سے نکاح ہوجاتا ہے ایک
مرد سے شادی کے بعد بغیر طلاق لیے دوسرے مرد سے شادی کو بھی ایدھی درست
سمجھتے ہیں اور ایسا معاملہ انکے گھر میں ہوبھی چکا ہے۔انھیں اس عمر میں
بھی کلام الٰہی پڑھنے کے بجائے میوزک پسند ہے ۔ایدھی صاحب نہ کوئی عالم دین
ہیں اور نہ ہی وہ اس بات کو پسند کرتے ہیں مگر فتاویٰ وہ ایسے دے دیتے ہیں
جیسے ان سے بڑا کوئی عالم نہیں یا وہ مفتیان کرام میں سے ہیں ۔انکا مذید
کہنا ہے کہ اصل جہاد وہ ہے جو وہ کر رہے ہیں اور بیٹی بیٹے کو برابر حصہ
ملنا چاہیے اس کے مطابق تو وہ احکام الٰہی کی بھی خلاف ورزی کر رہے ہیں
کیونکہ اللہ پاک نے قرآن مجید میں اور رسولﷺ نے احادیث مبارکہ میں واضح
بتایا کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے مگر وہ کیا جانیں انہوں نے تو
کسی مذہبی ادارے کا رخ ہی نہیں کیا اور نہ ہی مذہبی تعلیم حاصل کی ۔ایدھی
صاحب عمر کے آخری ایام کاٹ رہے ہیں ضعف میں مبتلا ہیں کمزوری بھی دم توڑ
رہی ہے لیکن جب ان کے باغیانہ نظریات سامنے آتے ہیں تو ان پر رحم آجاتا ہے
کہ خدا نہ کرے وہ انھی نظریات کو لے کر خدا کے حضور حاضر ہوئے تو
............ وہاں انسانی ہمدردی ایک طرف رہ جائے گی ۔خدمت خلق عذاب الیم
سے نہ بچا سکے گی۔خدارا ایدھی صاحب اپنے عقائد کی اصلاح کریں ورنہ انسانی
خدمت کچھ کام نہیں آئے گی۔غالب سے معذرت کے ساتھ
حشر میں کس منہ سے جائیں گے
شرم اُن کو مگر نہیں آتی |