قول و فعل کا تضاد

کہنے کو تو بڑا آسان اور عام سا لفظ ہے مگر اس کی حقیقت جان لینے کے بعد ہی اس اخلاقی برائی کے انسانی کردار پر مضر اثرات کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ معاشرے کی اکثریت دوسروں میں اس برائی کی کھوج لگانے میں اپنی زندگی کا بڑا حصہ صرف کر دیتی ہے مگر اپنے متعلق محض چشم پوشی سے کام لینے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے کو ایسی ہی کئی اخلاقی اور معاشرتی خرابیاں گھن کی طرح کھا ئے جا رہی ہیں۔ تقریباً تمام شعبہ ہائے زندگی کا ایک ایک کر کے جائزہ لیا جائے تو پتا یہ چلتا ہے کہ یہ خرابی ہمارے کاروبار، معاملات، معمولات سمیت چھوٹی سے چھوٹی معاشرتی اکائی سے لے کر بڑی سے بڑی اکائی کے گرد اپنا مضبوط حصار قائم کیئے ہوئے ہے۔ یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ تعصب و تکبر سے دل و دماغ خالی کر کے اس خرابی کے مضر اثرات کو عمیق گہرائی سے دیکھنے کی اشد ضرورت ہے تبھی انسان اپنے وجود کو اس خرابی سے دور رکھنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ چونکہ ”قول و فعل کے تضاد “سے معاشرے میں جہاں انسانی کردار متنازعہ بن جاتا ہے وہاں جھوٹ اور غیبت جیسی دو بڑی قباحتیں نہ چاہتے ہوئے بھی انسانی کردار کا حصہ بن جاتی ہیں ۔ جس سے کردار و گفتار مزید پراگندہ ہو جاتا ہے۔ بعض مقامات پر تو اس کو فخریہ انداز میں نہایت جدید اور منفرد نام دے کر اس خرابی کو ایسے اپنایا جاتا ہے جیسے کہ یہ سرے سے برائی ہی نہیں اور حقیقت پسندی و سچائی کے پیکر کو توعمومی طور پر معاشرے میں باوقار اور با عزت حیثیت دینے میں بھی ہچکچاہٹ اور تنگ نظری سے کام لیا جاتا ہے۔ اس خرابی کے حامل افراد پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ خود ہی اپنے آپ سے نفرت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

انفرادی طور پر تو ہر سطح پر اس سے چھٹکارے کی بامقصد کاوش بھی کی جاتی ہے مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ اجتماعی طور پر ہمارا ظاہر اور باطن ایک ہو جائے۔ روز مرہ کے معاملات ومعمولات میں اور کاروبار و لین دین میں ”قول و فعل کے تضاد“ کی اس خرابی کا ادراک رکھتے ہوئے اس سے دور رہنے کی تو شاید بہت کم مثالیںمشاہدے میں آئیں ہوں مگر جہاں کہیں بھی ایسی نوبت آ جائے وہاں دو باتیں بہت اہمیت اختیار کر جاتی ہیں، ایک تو یہ کہ ایسی صورت میں انسان کا ظاہر و باطن تعصب و تکبر سے یقینی طور پر پاک ہو چکا ہوتا ہے جو کہ انتہائی مشکل اور کٹھن مرحلہ ہے اور دوسرے یہ کہ وہ شخص مکمل طور پر بے لاگ اور ہمہ وقت خود احتسابی کے عمل کے لیئے تیار بھی ہو چکا ہوتا ہے۔ زندگی کے اس موڑ پر انسان کے اندر مثبت تبدیلی دستک دے رہی ہوتی ہے۔اُس وقت اپنے اندر پائی جانے والی خرابی کا پتا چلانے اور اس سے نجات پانے کے لیئے ضابطہ حیات کے اصولوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے اور ہمہ وقت خود احتسابی کے کڑے عمل سے گزرنے کے لیئے تیار رہنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔

وطن عزیز کے اندر بڑھنے والے ظلم عدمِ مساوات اور قتل و غارت گری کے سبب حرام خوری و بدعنوانی اور انتقامی جذبے میں اضافے جیسی رذیل خصلتیں مزید پختگی کے ساتھ نئی نسل کے ذہنوں میں راسخ ہو تی چلی جا رہی ہیں اور ورثہ میں ملنے والی اعلیٰ صفات کو اپنا شعار بنانے میں حائل مشکلات میں مزید اضافہ ہونے کا اندیشہ بڑھ رہا ہے۔ کہیں یہ سب ہمارے قول و فعل میں تضاد کی پیداوار تو نہیں؟۔ اگر ایسا ہی ہے تو ایک مسلم معاشرے کے فرد کی حیثیت سے اپنا احتساب کرنے کی اب شدید ضرورت محسوس کر لینی چاہیئے تاکہ قرآن کریم کی اس آیت: (ترجمہ) مومنو! تم ایسی باتیں کیوں کہا کرتے ہو جو کیا نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ اس بات سے سخت بیزار ہے کہ ایسی بات کہو جو کرو نہیںo (سورة صف، آیت ۲،۳)کی زد سے بچنے کے لیئے مسلم معاشرہ کے اندر پائے جانے والے قول و فعل کے تضاد سے چھٹکارا حاصل کرنے میں موثر کردار ادا کیا جا سکے نہ کہ کسی اجتماعی انقلاب کے انتظار میں آخرت کا رختِ سفر باندھنے کا وقت قریب آ جائے۔
Abdul Majeed Siddiqui
About the Author: Abdul Majeed Siddiqui Read More Articles by Abdul Majeed Siddiqui: 8 Articles with 12043 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.