چھوٹے بچوں کو جسمانی سزاﺅں سے
بچانے کا بل پیش کرنے پر میں ڈاکٹر عطیہ عنایت اللہ کو سلام پیش کرتا ہوں ،مبارک
باد دیتا ہوں اور اُس بل کو متفقہ طور پر منظور کرنے پر قومی اسمبلی کے
تمام ممبران کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔میری نظر میں جسمانی سزائیں
دے کر کبھی بچوں کو لائق و فائق نہیں بنایا جا سکتا ۔بچوں کوجسمانی سزائیں
دینا بُری بات ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچوں کو جسمانی سزا
ئیں دینے والے اساتذہ کی اصلیت کیا ہے ِکیا وہ اس لائق ہیں کہ اتنی بڑی ذمہ
داری نبھا سکیں ؟وہ شخص جو رات بھر اپنے کھیتوں کو پانی دے کر صبح سکول”
سونے“ آتا ہے کیا ایسا شخص اس بات کااہل ہے کہ اُسے ٹیچر کی ملازمت دی
جائے؟ایک سچ یہ بھی ہے کہ ہمارے سرکاری سکولوں میں بہت سے نفسیاتی مریض
بطور ٹیچر کام کررہے ہیں ،اِس بات پر کبھی کسی نے توجہ نہیں دی کہ اساتذہ
کے ساتھ کیا بیت رہی ہے ۔حکومت کی طرف سے کرکٹ ٹیم کے لیے تو نفسیاتی
ڈاکٹرمہیا کیا جاتاہے ۔لیکن کیا کبھی ٹیچر زکو یہ سہولت دی گئی ہے؟کبھی کسی
نے سناہے؟کبھی خبر نشر ہوئی ہو اس مہینے وزیروں،سفیروں کو تنخوائیں نہیں
ملیں؟کبھی وزیروں اور سفیروں پر، عوام پر تشدد کے خلاف کوئی بل پاس یا پیش
ہی کیا گیاہے؟کیا ہوٹل یا ورکشاپ پر کام کرنے والے بچوں کوکبھی جسمانی سزا
ملتی ہے؟بچوں کو جسمانی سزادینے پر اساتذہ کوجیل بھیجنے سے پہلے اس بات پر
غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا پاکستان میں تمام بچوں کوسکول اور ٹیچرز
دستیاب ہیں ؟کیا پاکستان کاہربچہ سکول میں پڑھتا ہے ؟قسم پیدا کرنے والے
اُس عظیم خالق کی جس کے قبضہ قدرت میں میری اور آپ کی جان ہے یہ بات کرتے
ہوئے رونا آتا ہے کہ پاکستان میں پڑھنے لکھنے کا حق صرف امیر کے بچے کوہے ،غریب
کا بچہ تو پیداہی مزدور ہوتا ہے چاہے ایم اے کرلے یاایم ایس سی یا پھر کوئی
بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرلے پھر بھی مزدور ہی رہتا ہے ۔اِس سے بھی زیادہ
تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اگر غریب کا بچہ چھوٹی عمرسے ہی کسی ہوٹل ،ورکشاپ یا
پھر کسی سائےکل پنکچر کی دکان پر کام کرنے لگ جائے تو بالغ ہونے تک وہ
باروزگار ہوجاتا ہے لیکن اگر پڑھنے لکھنے میں 25.20سال لگا کر بڑی بڑی
ڈگریاں حاصل کر لے تو اُسے تب تک مزدوری نہیں ملتی جب تک رشوت یا” بڑے “سے
اَن پڑھ کی سفارش نہ حاصل کرلے ۔خیر یہ رونا تو بہت وسیع ہے آج ہم بات
کررہے تھے بچوں کو اساتذہ کی طرف سے دی جانے والی جسمانی سزاﺅں کے خلاف پاس
ہونے والے بل کے بارے میں ۔ والدین کے لاڈلے بچے اساتذہ کے ساتھ کیا سلوک
کرتے ہیں کبھی کسی نے سمجھنے کی کوشش کی ہے؟میں نے اپنی گناہ گار آنکھوں سے
ٹیچر زکوبگڑے بچوں کے ہاتھوں تنگ آکرروتے دیکھا ہے ۔کیا ہم اپنے بچوں کو
گھر میں کبھی نہیں ڈانٹتے جو اساتذہ کو عدالتوں اور جیلوں میں قید کروائیں
گے؟ٹھیک ہے کہ بچے مارسے نہیں پیار سے پڑھتے ہیں لیکن اِس کا یہ مطلب
ہرگزنہیں کہ اُساتذہ کی عزت نہ کی جائے۔ایک چھوٹی سی مثال آپ کے سامنے
رکھتاہوں میرابیٹاٹی سی ایف سکول جھلکے میں زیرتعلیم ہے۔مجھے اچھی طرح یاد
ہے کہ شروع میں اُس کی ٹیچر ہاتھ پکڑکر لکھواتی ،کھانا کھلاتی ،ہاتھ منہ
دھوتی اور اگر رونے لگتا تو اُسے چُپ کروانے کے لیے بسکٹ اور ٹافیاں دیتی ،اگرٹیچر
میرے بچے کو اتنا پیار اور دیکھ بھال کرسکتے ہیں تو کیا اُنہیں کوئی حق
نہیں کہ وہ ضرورت پڑھنے پربچے کو ڈانٹ سکیں؟جوقومیں اساتذہ کی عزت نہیں
کرتیں وہ کبھی بھی تعلیمی میدان میں آگے نہیں نکل سکتیں ۔میں بچوں کو
جسمانی سزائیں دینے کے حق میں نہیں۔لیکن اساتذہ کی عزت کرنا بھی ہمارا فرض
ہے ۔ تعلیم کا مقصد انسان کی قدرتی صلاحیتوں کو نکھار کر مزید بہتر طریقے
سے کارآمد بنانا ہے ۔تراشنے سے پہلے ہیرا بھی ایک پتھر ہوتا ہے لیکن قیمتی
،اگر تراشنے والے ہاتھ ناتجربہ کار ہوں تو وہی قیمتی پتھر جسے ہیرا بنانا
ہوتا ہے وہی ٹوٹ کر بے کار پتھر بن جاتا ہے اور اگر تراشنے والے ہاتھ تجربہ
کار ،کاریگر کے ہوں تو وہی پتھر بیش قیمت ہیرا بن جاتا ہے ۔یعنی پتھرکے
اندر ہیرابننے کی صلاحیت موجود بھی ہوتو وہ خود بخودہیرا نہیں بن سکتا اُسے
اچھے تراشنے والے کی ضرورت پڑتی ہے ٹھیک اسی طرح انسان بھی اللہ تعالیٰ کی
عطا کردہ صلاحیت سے مالا مال پیدا ہوتا ہے ۔سکول ومدرسے کے اساتذہ انہیں
صلاحیتوں کو نکھارنے کااہتمام کرتے ہیں لیکن جب ناتجربہ کار اساتذہ بچوں کو
جسمانی سزائیں دینا شروع کردیتے ہیں تو وہی پتھر جنہیں ہیرابننا ہوتا ہے
ٹوٹ کر بے کار ہوجاتے ہیں ۔پچھلے 66برس سے ہم ایسے ہی لاتعداد ہیرے توڑ
کرمٹی میں ملاچکے ہیں ،بچوں کو جسمانی سزاﺅں کے خلاف بل پاس ہوجانے سے بھی
فوری طور پربہتری آتی نظرنہیں آتی لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر قانون بنانے کے
ساتھ ساتھ اُس پر عمل بھی کیا جائے تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان میںکوئی
استاد بھی بچوں کو جسمانی سزائیں نہیں دے سکے گا۔پاکستان میں شرح خواندگی
شرم ناک حد تک کم ہے ایسے میں ڈاکٹرعطیہ عنایت اللہ کی طرف سے قومی اسمبلی
میں پیش کئے جانے والا بل اندھیرے میں چراغ روشن کرنے کی مانند ہے۔قومی
اسمبلی سے متفقہ طور پرمنظور امتناع جسمانی سزابل 2013ءمیں 18سال سے کم عمر
بچوں کو کلاس رومز میں جسمانی سزادینے پرپابندی عائد ہوگی اور قانون کی
خلاف ورزی کرنے والے اساتذہ کو ایک سال قید یا 50ہزار روپے جرمانے کی سزا
دی جاسکے گی ۔یہ قانون سرکاری ونجی یعنی تمام تعلیمی اداروں پر لاگو
ہوگا۔لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اساتذہ کو جیل یا جرمانے کی سزائیں دے کر ہم
تعلیمی میدان میں آگے نہیں نکل سکتے ۔اگرزیادہ نہیں تو ایک اُستاد کووزیرکے
برابر تنخواہ ،مراعات اور سہولتیں فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ وہ عزت واحترام
جو باشعور قومیں اپنے اساتذہ کو دیتی ہیں ہمیں بھی دینا پڑے گا۔دیگر اداروں
کا بجٹ کم کرکے تعلیم پر خرچ کیا جائے اور ملک کے کونے کونے میں معیاری
سکول ،کالج اور یونیورسٹیوں کاجال بچھا دیاجائے اور کسی بچے کو ہوٹل
یاورکشاپ پر نہ جانے دیا جائے ،اور سب سے اہم بات کہ ہم اپنے بچوں کوایسی
تعلیم دیں جو عالمی معیار کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذیب و تمدن کوبھی اُجاگر
کرے اور طالب علم کو کنویں کا مینڈک بنانے کی بجائے پوری کائنات کو سمجھنے
کا موقع دیا جائے تو شائد ہمیں اساتذہ کو جیل نہ بھیجنا پڑے۔ |