چند روز قبل پاکستان کے دینی
مدارس کی سر کردہ تنظیم وفاق المدارس العربیہ کے زیر اہتمام اسلام آباد میں
پر امن مظاہرہ کا انعقاد کیا گیا جس میں دینی مدارس کے ہزاروں طلباءنے پر
امن طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ، مدارس کے معصوم بچے اپنی کتابوں
کے ہمراہ پر امن ہونے کی گواہی دے رہے تھے ،کسی قسم کی کوئی توڑ پھوڑ کوئی
بد انتظامی ،کوئی تحریر اسکوائر بنانے کی دھمکی نہیں سنی گی ،صرف ایک ہی
پکار تھی کہ ہمیں پرامن طریقے سے پڑھنے دیا جائے ، ہمیں تحفظ فراہم کیا
جائے ، قرآن و حدیث کی صدائیں اس مظاہرے میں گونج رہی تھیں،قرآن پڑھتے
معصوم بچے پاکستان کا پرچم تھامے اپنے دین وملک سے اظہارِمحبت کر رہے تھے۔
ان دینی مدارس کے خلاف ساز شیں تو عرصہ درازسے ہوتی چلی آرہی ہیں ،دہشت
گردی کا لیبل چسپاں کرنے کی کوششیں بھی تیز تر ہوتی جا رہی ہیں،لیکن کچھ
عرصہ قبل یہ سازشیں کھل کر سامنے آنا شروع ہو گی ہیں دن دیہاڑے علماءکی
شہادتیں اور معصوم طلباءکی لاشیں انہی سازشوں کا حصہ ہیں۔ ان دینی مدارس کے
ساتھ ہمیشہ سے ایک امتیازی سلوک روارکھا گیا ،انہیں معاشرے سے اور معاشرے
کو ان سے دور رکھنے کی کوشش کی گی ،میڈیا میں کوئی ان کے بارے میں آواز
نہیں اٹھاتا ،ان کے کردار کو سرہانے کے بجائے مشکوک بنانے کی کوشش کی گی ،دینی
مدارس ہمارے ملک کے وہ رفاہی ادارے ہیں جن کے ایک ایک مدرسے میں ہزاروں کی
تعداد میں طلباءزیر تعلیم ہیں ان طلباءکا خرچ،رہائش ، اور ہر قسم کی
ضروریات مدرسہ حکومتی تعاو ن کے بغیر پوری کرتا ہے ، اور امن وسکون کی مثال
اس سے زیاد ہ کیا ہو سکتی ہے کہ اتنی تعداد ہونے کے باوجود آپ حضرات نے
کبھی یہ نہیں سنا ہو گا کہ مدارس کے طلباءکے درمیان ایسی ہاتھا پائی ہوئی
جس کی وجہ سے کسی حکومتی ادارے کو مداخلت کرنا پڑی ہو،جبکہ اس کے مقابلے
میں ایسے بھی عصری علوم کے ادارے موجود ہیں جہا ں باقاعدہ پولیس اوررینجرز
کے سائے میں پڑھائی جا ری رہتی ہے ،پھر بھی آئے روز کوئی نہ کوئی ہنگامہ
آرائی اخبارات کی زینت بنتی ہے، ان دینی مدارس کی حوصلہ افزائی کے بجائے
کبھی تو بلا جواز چھاپے مار کر ان کو ہراساں کیا جاتا ہے اور کبھی کوائف
طلبی کے نام پر ان کے جذبات کو مجروح کیا جاتاہے، کبھی بنیاد پرستی کا طعنہ
اور کبھی اغیار کے اشاروں پر دہشت گردی کا تانہ بانہ ان کی طرف ملانے کی
کوششیں کی جاتی ہے ، علماءکرام اور طلباءکی مسلسل ٹارگٹ اور بلاجواز چھاپوں
پر وفاق المدارس نے ہمیشہ بھر پور مذمت کی ہے مگر اربابِ اقتدار میں انکی
کوئی شنوائی نہیں ، کوئی ان کے مطالبات کو سنجیدہ لینے کو تیار
نہیں۔بدقسمتی سے کچھ عرصہ سے ہمارے ہاں ایک عجیب سا ماحول بنتاجا رہا ہے کہ
جب تک سکون سے بیٹھ کر اپنے مطالبات دہراتے رہیں گے آپکی آواز نقارخانے میں
ایک طوطی کی سی ہوگی ہمار امیڈیا ہو یا حکومت اسوقت تک کان دھرنے کو تیار
ہی نہیں جب تک آ پ سڑکوں پر نہ آجائیں ،آپ جتنا زبردست انداز میں سڑکیں
بلاک کر کے بیٹھیں گے ،آپکو اتنا ہی زیادہ کوریج ملے گی اور ارباب اقتدار
تک اپ کی آواز سنی جائے گی،ورنہ آپکی تعداد خواہ لاکھوں میں کیوں نہ ہو
کوئی آپکے مطالبات نہیں مانے گا ،پتہ نہیں ہماری حکومت پر تشدد دھرنوں پر
کیوں مجبور کرتی ہے؟ کیا ان دھرنوں اور سڑکیں بلاک کرنے سے پہلے انصاف کی
امید ناپید ہو چکی ہے، کیا عوام کو اب نیا رخ سکھایا جا رہا ہے کہ اب انصاف
لینا ہو تو طاقت کے بل بوتے سڑکوں پر آئیں؟توڑ پھوڑ کی جائے؟ آپنے ہی ملک
کی املاک کو نقصان پہنچایا جائے تب جا کر انصاف کی امید ہو گی ؟؟؟؟؟؟
کیا مسلمانوں کو وہ دور بھول گیا جب انصاف گھروں کی دہلیز پر ملا کرتے تھے
،کیا ہم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا وہ تاریخی جملہ بھول گے کہ اگر
میرے دور ِخلافت میں کوئی کتابھی پیا سا مر گیا تو میں اسکا جواب دہ ہونگا
،یہاں تو انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے کوئی پرسانِ حال نہیں،
روزانہ کتنے سہاگ اجڑ جاتے ہیں ،کتنے بچے یتیم ہو جاتے ہیں ، کتنے افراد لا
پتہ ہو جاتے ہیںکسی کے کان میں جوں تک نہیں رینگتی ،ایک دوسرے پر الزامات
لگا کر اپنا دامن بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے،سیاسی جوڑ توڑ ہو رہی ہے ،ہر
کوئی کرسی بچانے کے چکر میں ہے ۔دین وملت کے لیے کسی مخلص قیادت کی ضرورت
ہے۔ |